سیاسی عصبیت کا مطلب‘ کیا قانون سے ماورا ہونا ہے؟
مہذب معاشرے کی تعریف یہ ہے کہ اس میں سب پر قانون کا یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ بڑے سے بڑا منصب رکھنے والا‘ عدالت کے کٹہرے میں عام شہری کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ رہا مسلمان معاشرہ تو اس کے اخلاقی معیارات کہیں بلند تر ہیں۔ حاکمِ وقت کو عدالت کے سامنے کوئی استثنا حاصل ہے نہ امتیاز۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو سیاسی عصبیت کی حامل کسی شخصیت پر قانون کا اطلاق کرتے وقت تساہل کیوں برتا جاتا ہے؟ سیاسی عصبیت کا نفاذِ قانون سے کیا تعلق ہے؟
قانون کی حکمرانی کیوں ضروری ہے؟ اس لیے کہ سماج کا نظم باقی رہے۔ قانون کو پامال کرتے وقت‘ ہر آدمی کو یہ خیال رہے کہ عدالت کا تازیانہ اندھا ہوتا ہے۔ برستے وقت وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کس کی پیٹھ ہے۔ سماج پر اس تاثر کا قائم رہنا لازم ہے۔ یہی طاقتور کو مجبور کرتا ہے کہ وہ قانون کی پابندی کرے اور یہی کمزور کو یہ تحفظ فراہم کرتا ہے کہ وہ کسی طاقتور کے خوف سے آزاد ہوکر زندگی گزارے۔ گویا ریاست کا اصل مقصد سماجی نظم کو قائم رکھنا ہے۔بعض اوقات ایک معاشرے میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ کسی فرد اور گروہ کو غیر معمولی عوامی تائید حاصل ہو جاتی ہے‘ جسے سیاسی عصبیت کہا جاتا ہے۔ ایسی شخصیت اگر حکومت مخالف ہو اور ساتھ ہی اس پر کسی قانون کی خلاف ورزی کا الزام بھی ہو تو اس پر قانون کا نفاذ‘ ریاست کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تاثر ہوتا ہے کہ قانون کا نفاذ بدنیتی پر مبنی ہے۔ اس شخصیت کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ واقعے کی ایک من پسند تعبیر کرتے ہوئے اسے ریاست کا انتقامی اقدام قرار دے۔
ہماری تاریخ میں بھٹو صاحب کا مقدمہ اس کی ایک مثال ہے۔ بھٹو مرحوم پر قتل کا مقدمہ‘ مقتول کے بیٹے کی مدعیت میں قائم ہوا۔ عدالتی عمل مکمل ہوا۔ اس کے بعد بھٹو صاحب پر سزا نافذ ہو گئی۔ یہ اس مقدمے کا عدالتی پہلو ہے۔ دوسرا پہلو سیاسی ہے‘ جس کا تعلق عصبیت سے ہے۔ یہ فیصلہ اُس وقت ہوا جب ملک میں مارشل لا ء نافذ تھا۔ ضیا الحق صاحب بھٹو صاحب کی حکومت کو غیر آئینی طور پر ختم کر تے ہوئے‘ ملک کے سر براہ بنے تھے۔ بھٹو صاحب اور وہ ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ اس وقت کی عدالتوں کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ حکومت کے زیرِ اثر ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا یہ تھا کہ اگر بھٹو صاحب رہتے ہیں تو یہ ضیا حکومت کے لیے ایک چیلنج بنے رہیں گے۔ گویا دونوں ایک دوسرے کے حریف بن کر سامنے آگئے۔
سیاسی حالات اس ڈگر پہ چل نکلے کہ ایک کی بقا‘ دوسرے کی فنا سے مشروط ہو گئی۔ ضیا الحق مرحوم کوخوف ہوا کہ اگر بھٹو صاحب برسرِ اقتدار آگئے تو انہیں آئین شکنی کی سزا مل سکتی ہے۔ بھٹو صاحب کے حکومت میں آنے کے امکانات روشن تھے کیونکہ انہیں سیاسی عصبیت حاصل تھی۔ اقتدار کی کشمکش کا یہ پہلو‘ معاملے کے قانونی پہلو پر غالب آگیا۔ بھٹو صاحب کو صحتِ جرم سے انکار تھا۔ ان کے حامی یہ سمجھتے تھے کہ بھٹو صاحب کو قتل کی نہیں‘ سیاسی مخالفت کی سزا مل رہی ہے۔ بھٹو صاحب کو سزادے دی گئی مگر آج تک یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ قتل کی سزا نہیں تھی‘ سیاسی انتقام تھا۔ اس کے دور رس نتائج پاکستان کی سیاست پر مرتب ہوئے۔ مثالیں اور بھی ہیں۔ ان میں ایک مثال شیخ مجیب الرحمن کی بھی ہے۔
اسی وجہ سے ایک حکومت اُس وقت تذبذب کا شکار ہو جاتی ہے جب کسی ایسی شخصیت کے خلاف قانون کا نفاذ مطلوب ہو جو حکومت مخالف ہو اور اسے سیاسی عصبیت بھی حاصل ہو۔ عوامی سطح پر‘ معاملے کا سیاسی پہلو غالب رہتا ہے اور قانون پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر حکومت سیاسی مخالفین کے خلاف اقدام کرتے ہوئے‘ اس کے سیاسی مضمرات سے صرفِ نظر نہیں کرتی۔ اس کا تعلق اس بات سے نہیں ہوتا کہ کوئی قانون سے ماورا ہے۔ بلکہ یہ معاملہ سیاسی مصلحت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
دورِ جدید میں ریاست کا جو بندوبست سامنے آیا ہے‘ اس میں عدالتیں بڑی حد تک سیاسی حکومتوں کے اثر سے نکل چکی ہیں۔ جدید ریاست اختیارات کی تقسیم کے اصول پر قائم ہوئی ہے۔ جہاں یہ بندوبست توانا ہے‘ وہاں اگر عدالت کسی مقبول رہنما کے خلاف کوئی فیصلہ دے تو اس کے مضمرات اتنے سنگین نہیں ہوتے۔ عام شہری کو یہ اعتبار ہوتا ہے کہ حکومت عدالت کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوئی۔ جہاں ایسا نہ ہو اور عدالتیں حکومتی مفادات و اثرات کے زیراثر فیصلے دیتی ہوں اور عام آدمی یہ سمجھتا ہو کہ عدالتیں آزاد نہیں ہیں‘ وہاں عدالتی فیصلے کے سیاسی مضمرات غالب رہتے ہیں۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی معاشروں میں ہوتا ہے۔
عدالتی فیصلوں سے اختلاف اور عدالتوں کا کسی طاقت کے زیرِاثر ہونے کا تاثر دو مختلف باتیں ہیں۔ جہاں عدالتیںآزاد ہوتی ہیں اور عوام بھی یہی سمجھتے ہیں‘ وہاں لوگ عدالتی فیصلوں سے اختلاف کرتے ہیں مگر اس میں بدنیتی کو تلاش نہیں کرتے یا اس کے سیاسی مضمرات نہیں ہوتے۔ عدالتوں پر تعصب کا الزام لگا دیا جاتا ہے اور ان کے فیصلوں کے خلاف احتجاج بھی ہوتا ہے لیکن اس کا دائرہ عدالت ہی تک محدود رہتا ہے۔ اگر معاملہ دوسرا ہو تو پھر اختلاف فیصلے تک محدود نہیں رہتا۔ لوگ اس کے پسِ پردہ محرکات تلاش کرتے ہیں اور یوں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا دروازہ کھل جاتا ہے جو سیاسی استحکام کو متاثر کرتا ہے۔
سوال لہٰذا یہ نہیں کہ کوئی قانون سے ماورا ہے‘ سوال یہ ہے کسی کے خلاف ایک فیصلے کی تنفیذ‘ کہیں حکمت کے خلاف تو نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سزا کے نفاذ سے سماجی اضطراب جنم لے جو معاشرے کو عدم استحکام میں مبتلا کر دے؟ ضیاالحق صاحب ہی کے عہد میں ایک دوسری مثال بھی موجود ہے۔ جی ایم سید نے کتاب لکھی: ''اب پاکستان کو ٹوٹ جانا چاہیے‘‘۔ ریاست ان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کر سکتی تھی مگرضیا الحق صاحب نے مقدمہ قائم کرنے کے بجائے‘ انہیں پھول بھیجے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جی ایم سید قانون سے ماورا تھے۔ اس میں ریاست کی یہ مصلحت پیشِ نظر تھی کہ سندھ میں علیحدگی کی تحریک مضبوط نہ ہو۔ایک مثال بھٹو صاحب کے دور کی بھی ہے۔ ان کے خلاف جب قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک جاری تھی تو جو اس اتحاد کا سربراہ بنتا‘ اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا۔ پیرصاحب پگارا جب سربراہ بنے تو انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ انہیں گھر میں نظر بند کیا گیا۔ پیشِ نظر یہ تھا کہ ان کے مرید مشتعل نہ ہوں جو بھٹو صاحب کے مرکزِ قوت سندھ میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کر سکتے تھے۔
پاکستان میں نظامِ عدل کی ایک تاریخ ہے۔ موجودہ عدالتوں کو اس تاریخ سے آزاد ہونے کا تاثر قائم کرنا ہے۔ عوام ابھی تک ماضی اور حال میں لکیر نہیں کھینچ سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں غیر آئینی حکومتوں کو نظریۂ ضرورت کے تحت جواز فراہم کیا گیا۔ جب تک یہ تاثر قائم ہے‘ یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ایک عدالتی فیصلے کو سیاسی مضمرات سے الگ کرکے دیکھا جا سکے۔ نواز شریف صاحبUnwithdrawn Receivable 'ظاہرنہ کرنے پر تاحیات نااہل ہوئے۔ ہمارا نظامِ عدل‘ جب تک اس فیصلے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے‘ کسی سیاسی رہنما کے خلاف عدالتی فیصلہ‘ سیاسی مضمرات سے الگ ہو کر نہیں دیکھا جائے گا۔ ہمارا نظامِ عدل‘ آج خود وقت کی عدالت میں کھڑا ہے۔ دیکھیے‘ وقت کیا فیصلہ سناتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved