تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     10-09-2022

سیلابوں کی قومی اور بین الاقوامی جہات

سیلابوں کو کسی ملک کا داخلی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی بڑی وجہ بھی داخلی نوعیت کی ہوتی ہے مگر کئی لوگوں کے خیال میں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں۔ پہاڑوں سے میدانی علاقوں کی طرف بارشی پانی کے بہاؤ اور سیلابوں کی وجہ سے آنے والی تباہی اب ایک داخلی یعنی مقامی چیلنج بن گیا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کرنا حکومت اور معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ حکومت‘ رضاکار تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تینوں ملٹری سروسز اور پیرا ملٹری فورسز نے حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب سے مشکلات میں گھر ے افراد کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ اگرچہ سیلاب سے متاثرہ بعض علاقوں میں راستے بند ہونے اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کی وجہ سے سیلاب سے متاثرہ افراد تک خوراک اور دوسری امداد نہ پہنچنے کی شکایات بھی ملی ہیں مگر مجموعی طور پر ریسکیو اور ریلیف ورک بڑے احسن طریقے سے سرانجام دیا جا رہا ہے۔ اب تک ریسکیو کا زیادہ تر کام مکمل کیا جا چکا ہے اور ہم بہت جلد متاثرہ افراد کی بحالی اور تعمیر نو کے مشکل مرحلے میں داخل ہونے والے ہیں۔
پاکستا ن میں آنے والے ان سیلابوں کی ایک بین الاقوامی جہت بھی ہے۔ بہت سے دوست ممالک نے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے انسانی بنیادوں پر کھل کر امداد کی ہے۔ ترکیہ نے ہوائی جہازوں کے علاوہ ایران کے راستے سے ٹرین کے ذریعے بھی امداد بھیجی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی عالمی برادری سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس اپیل کے بعد بہت سے ممالک پاکستان کی مدد کرنے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں۔ یورپین کمیشن بھی امدادی سامان کی فراہمی کے لیے یورپی ممالک کے درمیان رابطہ کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کئی دیگر عالمی گروپس نے بھی سیلاب متاثرین کی مالی مدد میں ہاتھ بٹایا ہے۔
یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں دیگر اقوام پاکستان کو امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں جس سے ان کی پاکستان کے ساتھ محبت اور اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے۔ تاہم یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ جو ممالک پاکستان کی مدد کر رہے ہیں وہ پاکستان سے بھی کئی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
یہ ممالک اس امر کی توقع کر رہے ہیں کہ اگر مستقبل میں انہیں قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان بھی ان کی اسی طرح مدد کے لیے ہاتھ آگے بڑھائے گا۔ ڈونر ممالک اور ڈونر تنظیمیں اس سے بھی اہم توقع رکھتی ہیں وہ یہ کہ امدادی سامان یقینا مستحق افراد تک پہنچے گا۔ اس میں افسر شاہی تاخیر ی حربے استعمال نہیں کرے گی اور نہ ہی یہ غیر مستحق افراد کے ہاتھوں میں جائے گا۔ جب سیلابی پانی کی سطح کم ہوگی اور بحالی کا کام شروع ہو جائے گا تو عالمی برادری خصوصاً پاکستان کی مدد کرنے والے ممالک یہ امید رکھتے ہیں کہ بحالی کا مرحلہ تیزی اور موثر طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔
اگر پاکستان سیلاب متاثرین کی بحالی کے مسئلے سے موثر طریقے سے نمٹنے میں کامیا ب ہو گیا توسیلاب متاثرین بھی تیزی سے اپنی نارمل زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے؛ چنانچہ متاثرہ علاقوں میں ترجیحی بنیادوں پر سڑکوں‘ پلوں کی بحالی اور تعمیر نو کرنا پڑے گی تاکہ وہاں کے رہائشی علاقوں کے ماحول میں تیزی سے بہتری لائی جا سکے۔ بجلی کی فراہمی اور دیگر ذرائع مواصلات کی بحالی بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ ان علاقوں کی فوری ضرورت پینے کے پانی اور صحت ِعامہ کی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ پانی کے فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کو ترجیح دی جانی چاہیے کیونکہ صاف پانی کی بدولت بچوں اور عمر رسیدہ افراد کو بہت سی بیماریوں سے بچانا ممکن ہو سکے گا۔
اس کام کی تکمیل ایک مشکل مرحلہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ گوا ہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومتیںعوام کی بحالی کے کام میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتی ہیں۔ بحالی اور تعمیرِ نو کا کام بڑی سنجیدگی سے شروع تو کیا جاتا ہے مگر چند مہینے بعد حکومت کی اس میں دلچسپی کم ہونے لگتی ہے یا اس کی توجہ دیگر مسائل کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ کئی پراجیکٹس نامکمل چھوڑ دیے جاتے ہیں یا تکمیل شدہ پراجیکٹس کی دیکھ بھال کا بندوبست کرنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے۔ بحالی اور تعمیر نو کے عمل میں مالی کرپشن ایک معمول بن چکی ہے۔ بعض لوگ اس سارے عمل سے خصوصاً سیاحتی مقامات پرگھروں‘ مارکیٹس‘ ہوٹلز کی تعمیر کے ذریعے ذاتی فائدہ اٹھانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے بحالی اور تعمیر نو کی ایک بہترین مثال قائم کرنے اور یہ ثابت کرنے کا سنہری موقع ہے کہ ان کی حکومتیں اور ان کے لیڈر عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کے لیے پر عزم ہیں۔ بحالی کے کام کے علاوہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ فلڈ مینجمنٹ اور کنٹرول کے لیے بھی انتظامات کرے۔ اس حوالے سے 2010ء میں آنے والے سیلاب پر بننے والی سرکاری رپورٹ کی روشنی میں کئی طرح کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ پانی اور سیلاب سے نمٹنے والے ماہرین یہ رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں کہ اس کے نقصانات کو کس طرح کم سے کم سطح پر لایا جا سکتا ہے۔ اس سارے عمل کے لیے کئی سال درکار ہوں گے مگر موجودہ حکومت کو اس کا آغاز کر دینا چاہیے۔
بحالی اور تعمیر نو کے کاموں میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو متاثرہ علاقوں کے کم سے کم دورے کرنے چاہئیں کیونکہ مقامی انتظامیہ کا بہت سا وقت اور توانائی ان منصوبوں کی طے شدہ مدت میں تکمیل کو یقینی بنانے کے بجائے ان دوروں کے انتظاما ت کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ اس کے بجائے ضلع یا تحصیل لیول پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو متعلقہ تحصیل یا ضلع کے ارکان اسمبلی اور اس علاقے سے تعلق رکھنے والے وفاقی یا صوبائی وزرا پر مشتمل ہوں۔ ان کمیٹیوں کو مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر بحالی کا کام کرنا چاہیے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے دفاتر کو مالی اور انتظامی سپورٹ فراہم کرنے اور بحالی کے کام کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے ان کمیٹیوں کے ساتھ تعاون اور رابطہ برقرار رکھنا چاہیے۔ ان کمیٹیوں کی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے دفتر تک براہ راست رسائی ہونی چاہیے۔ بحالی کے کام کے رہنما اصول یہ ہونے چاہئیں کہ اختیار ات کی عدم مرکزیت‘ کوآرڈی نیشن‘ مانیٹرنگ کے ساتھ ساتھ دستیاب وسائل کی فوری اور بروقت فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے۔
اگر پاکستان سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور عوام کی بحالی کے کام کو موثر طریقے سے سرانجام دیتا ہے تو اس سے عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت تشخص پروان چڑھے گا۔ ڈونر ایجنسیاں اور ممالک مطمئن ہوں گے کہ ان کے عطیات سے عوام کو فوائد ملے ہیں۔ ڈونر ممالک میں پاکستان کی ساکھ بہتر ہوگی اور بین الاقوامی ڈونر ایجنسیاں سیلاب کے بعد ہمارے انسانی ہمدردی کے کام بہتر انداز میں کرنے کو ایک مثال بنا کر پیش کریں گی۔
آج کے دور میں بین الاقوامی سسٹم اور ڈپلومیسی بھی کسی قدرتی آفت سے نمٹنے میں حکومت اور سوسائٹی کے انتظامات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ حکومت اور پاکستان کے سماجی گروپس کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا ریسکیو‘ ریلیف اور بحالی کا کام نہ صرف انسانیت کی خدمت ہے بلکہ اس سے عالمی سطح پر ملک اور عوام کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved