تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-09-2022

عمران خان کا حقیقی جرم

عمران خان کی حکومت جیسے ہی ختم ہوئی‘ ہر طرف سے بہت سی باتیں اور کہانیاں جنم لینا شروع ہو گئیں۔ کسی نے کہا کہ اس کے پیچھے امریکہ ہے، تو کسی نے کہا کہ یہ سب عمران خان کی ''اَنا‘‘ کی وجہ سے ہوا۔ ایک بات تو طے تھی کہ پی ڈی ایم کی تمام نہیں تو ٹاپ دو‘ تین جماعتوں کو سب سے زیادہ جلدی تھی کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کو جلد از جلد رخصت کیا جائے اور اس سارے عمل میں دو بڑی جماعتوں کے سابق حکمران خاندان پیش پیش تھے۔ جیسے جیسے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد وقت گزرتا رہا‘ پورے ملک میں سٹاک ایکسچینج، ڈالر کے ریٹ، بجلی‘ پٹرول اور ڈیزل سمیت اشیائے ضررویہ کی قیمتوں کے معاملات میں حکومت مکمل بے بس نظر آئی۔ مہنگائی کا ایسا سیلاب آیا کہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہر جانب عوام چیخ و پکار کرنے لگے۔ پٹرول کی قیمتیں تو ایسی بڑھائی گئیں کہ پورا ملک چیخ اٹھا اور ڈیزل کی بے تحاشا قیمتوں کی وجہ سے ملک بھر کے کسان اور ٹرانسپورٹرز سڑکوں پر آ گئے۔ پروڈکشن اور فیول کاسٹ بڑھنے سے ہر قسم کی اشیا کی قیمتیں دو گنا تک بڑھ گئیں، اس پر مستزاد بجلی کی قیمتیں‘ جن کی وجہ سے نچلے ہی نہیں‘ متوسط طبقے کی زندگی بھی اجیرن ہو کر رہ گئی۔ انہی فیصلوں اور پالیسیوں کے باعث حکمران جماعتوں کو عوام کا سامنا کرتے ہوئے خوف آنا شروع ہو گیا۔
وہ جو کہا جاتا ہے کہ حق اور سچ کو جھوٹ کے کروڑوں پردوں میں بھی چھپا نے کی کوشش کی جائے تو ناکامی ہو گی کیونکہ سچ نے کھل کر سب کے سامنے آنا ہی آنا ہے، تو کرنا خدا کا یہ ہوا کہ مسلم لیگ نواز کے دو انتہائی اہم رہنما اور وفاقی وزرا‘ جاوید لطیف اور خرم دستگیر الگ الگ ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں مدعو کیے گئے جہاں ان سے ایک ہی بات پوچھی گئی کہ جب آپ کو علم تھا کہ حالات اتنے خراب ہیں تو پھر آپ نے حکومت کا یہ طوق اپنے گلے میں کیوں ڈالا؟ ان دونوں وزرا نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا چلا تھا کہ عمران خان کی حکومت نومبر میں 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے جا رہی ہے اور ہم سب کو مختلف کیسز میں سزا کے ساتھ ساتھ پانچ پانچ سال کیلئے نااہل بھی کیا جانا تھا‘ اسی لیے ہم نے فوری طور پر اس حکومت کا خاتمہ ضرور ی سمجھا۔ ٹی وی شوز میں دو وفاقی وزرا کو ایسا موقف اپناتے دیکھ کر مجھے سخت حیرانی ہوئی۔ اسی طرح ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر جناب سعد رفیق نے حالات کا جو نقشہ پیش کیا‘ اسے سن کر میں حیرانی کے ساتھ ساتھ کافی دیر تک پریشانی میں بھی مبتلا رہا۔ خواجہ صاحب فرما رہے تھے کہ عمران خان نے اس سال کے آخر میں ایک اہم تعیناتی کرنی تھی اور پھر پورے ملک کے سیاسی نظام کی بساط لپیٹ دینی تھی، تمام مخالف سیاستدانوں کو احتساب کیسز میں سزا ہو جانی تھی اور سب نے نااہل ہو جانا تھا اور عمران خان نے اگلے پانچ سال کے لیے بھی وزیراعظم منتخب ہو جانا تھا۔
مذکورہ بیانات میں سب سے پہلی غلط فہمی تو یہ ہے کہ عمران خان اپنی مرضی سے ملک بھر میں 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنا چاہتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ عمران خان نہیں‘ بلکہ ملک کی سب سے بڑی عدلیہ نے کرپشن کے عفریت کو کچلنے اور احتساب کے عمل کو تیز کرنے کیلئے پاکستان بھر میں احتساب کی نئی عدالتوں اور ججوں کی تعداد بڑھانے کی منظوری دی تھی۔ اگست 2020ء کے پہلے عشرے میں پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے زیر التوا احتساب ریفرنسز جلد نمٹانے کی غرض سے ملک بھر میں 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کا حکم دیا تھا۔ کوئلے کے پلانٹ میں غیر قانونی تقرریوں سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ ہر احتساب ریفرنس کا فیصلہ تین ماہ میں ہو جانا چاہیے۔ یہ امر کس سے پوشیدہ ہے کہ یہاں تو پانچ‘ پانچ برس تک فردِ جرم ہی نہیں عائد ہو پاتی۔ چالان پیش کر دیا جاتا ہے لیکن اس قدر لاپروائی سے کہ فردِ جرم عائد کرنے میں خاصا عرصہ لگ جاتا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ بیس‘ بیس سال سے ریفرنسز زیر التوا ہیں۔ ریفرنسز کا جلد فیصلہ نہ ہونے سے احتساب کا قانون بنانے کا مقصد ختم ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ فروری 2020ء تک نیب عدالتوں میں 1226 زیرِ التوا مقدمات ہیں۔ احتسابی عمل کو تیز کرنے اور مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کے حکم کا اعلان ہوتے ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے ایک دوسرے سے اپنی تلخیاں فوری طور پر ختم کرتے ہوئے کہیں خفیہ تو کہیں اعلانیہ ملاقاتیں شروع کر دیں۔ نئی احتساب عدالتوں کے قیام کا راستہ روکنے کیلئے سب نے سر جوڑ لیے اور پھر محلاتی سازشوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومت کی حکمتِ عملی کا اندازہ کرنے اور اسے بے دست و پا کرنے کے لیے پہلے ایک جماعت کو آگے کیا گیا جس نے دھرنوں کے ذریعے کارِ حکومت کو مفلوج کر دیا اور پھر سب نے دیکھا کہ سپریم کورٹ کی ایک سو بیس نئی احتساب عدالتوں کے حکم کی تعمیل سے قبل ہی عمران خان کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔
جب وفاقی وزرا سپریم کورٹ کے احکامات کو عمران خان کی ذاتی خواہش سے منسوب کر کے الزام لگائیں تو حیرت تو ہو گی ہی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اور بھی چونکا دیا کہ یہ سب کچھ اس سال کے آخر پر کیا جانا تھا۔ اب یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ پھر وہ کون سی طاقت تھی جس نے 120 عدالتیں قائم کرنے کے احکامات کو نہ صرف فراموش کر دیا بلکہ پہلے سے جو احتساب عدالتیں کام کر رہی تھیں‘ وہاں پر اس طرح ٹرانسفرز کیے کہ کئی ماہ تک یہ عدالتیں خالی پڑی ایک دوسرے کا منہ تکتی رہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد سے اب تک اسمبلی میں جو قانون سازی ہوئی ہے‘ ایک نظر اس پر ڈال لیں تو ساری کہانی سمجھ آ جاتی ہے۔ ان چار ماہ میں دو بار نیب ترمیمی بل منظور ہو چکا ہے۔ 50 کروڑ سے کم کرپشن کے کیسز کی سماعت کا اختیار کم کرنے، احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری کا اختیار صدرِ مملکت سے لے کر وفاقی حکومت کو دینے، ملزم کے خلاف اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چلانے، نیب کی ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہ لینے اور فردِ جرم عائد ہونے سے قبل چیئرمین نیب کی جانب سے دائر ریفرنس ختم کرنے جیسے نکات مذکورہ ترامیم کا نچوڑ ہیں۔ ان ترامیم کے بعد کسی حقیقی احتساب یا کرپشن کم ہونے کی کوئی امید وابستہ کی جا سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ملک سے کرپشن کو جڑوں سمیت ختم کرنے کے خواب دیکھنے والے عمران خان آج سب سے بڑے ملزم بن چکے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات کی اس قدر بھرمار ہے کہ ہر وقت ایک عدالت سے دوسری عدالت کی جانب بھاگنا پڑ رہا ہے۔ ابھی صحیح طریقے سے سانس لینا بھی نصیب نہیں ہو پاتا کہ اطلاع ملتی ہے کہ ایک نیا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ ان چار ماہ میں صرف اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں عمران خان کے خلاف سترہ سے زائد ایف آئی آرز درج کرائی جا چکی ہیں۔ کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے؟ کیا ملکی سیاست میں ایک بار پھر بھٹو کی تاریخ دہرائی جائے گی؟ کیا کوئی ملک میں انتشار اور فساد کی آگ سے اپنے ٹھٹھرتے جسم کو حرارت پہنچانا چاہتا ہے؟ کون سی ایسی طاقتیں کارفرما ہیں جو اس ملک کی بچی کھچی معیشت کو زمین بوس کرنا چاہتی ہیں؟ کہیں کوئی بیرونی طاقت یہ تو نہیں چاہتی کہ ملک کی انڈسٹری جو اس وقت ہچکولے کھا رہی ہے‘ اسے زمین بوس کر دیا جائے؟ رجیم چینج کے بعد اگر ملک میں خوش حالی آئی ہوتی، بجلی‘ پانی اور گیس کی قیمتیں کم ہو جاتیں، آٹا‘ گھی‘ چینی‘ دالوں اور سبزیوں سمیت تمام اشیائے ضروریہ ہر انسان کی پہنچ میں آ جاتیں تو کسی نے عمران خان کو شاید دوبارہ یاد بھی نہیں کرنا تھا لیکن 120 احتساب عدالتوں کے ممکنہ قیام کو روکنے اور اپنے مقدمات کو ختم کرانے کے لیے ایک چھوٹے سے طبقے نے ملک کا معاشی پہیہ ہی جام کر کے رکھ دیا۔ جب سپریم کورٹ نے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے اور مقدمات کو تین ماہ میں نمٹانے کے احکامات جاری کیے تھے تو ہر باشعور شہری نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ اب کرپشن کا خاتمہ ہوگا لیکن حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved