امریکی ریاست فلاڈیلفیا کے ائیرپورٹ پر دوست نے اتارا۔ بیس دن قیام کے بعد اب وطن واپسی تھی۔ میں بیرونِ ملک مشکل سے تین چار دن ہی گزار پاتا ہوں پھر مونجھ ( اداسی) گھیر لیتی ہے۔ گھر‘ یار دوست سب کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ خود پر غصہ بھی آتا ہے کہ چند دن کی بات ہے پھر ملک واپس جائیں گے یہاں تو سکون سے گزار لیں‘ لیکن تین چار دن بعد جب جیٹ لاگ اترے گا تو ساتھ ہی وطن واپسی کا دل کرنے لگ جائے گا۔ میں سفر سے اس لیے گریز کرتا ہوں کہ پھر ان گزرے راستوں‘ ماحول اور مناظر کی یاد ستاتی ہے۔ پاکستان سے باہر جائیں تو پاکستان یاد آتا ہے۔ پاکستان لوٹ آئیں تو وہ ملک اور شہر یاد آتے ہیں جہاں سے ہو کر آئے تھے۔ ائیرپورٹ پر ٹرالی لی‘ سامان رکھا اور لائن میں لگ گیا۔ وہاں دو لائنیں دیکھیں تو ائیرلائن کی ایک خاتون میری طرف آئیں اور پوچھا: آپ نے آن لائن بورڈنگ کارڈ نکال لیا تھا؟ میں دو تین دن سے یہی سوچ رہا تھا کہ آج کل میں آن لائن کارڈ نکال لوں گا اور اب دو تین دن بعد ائیرپورٹ پر ہونقوں کی طرح اس خاتون کا منہ دیکھ رہا تھا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ اگر کارڈ میرے پاس ہے تو میں دوسری لائن میں لگ کر جلدی چیک اِن کرا سکتا ہوں۔ خود پر کچھ غصہ آیا۔ اس سستی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اب یہاں تیس چالیس منٹ یا گھنٹہ بھر قطار میں لگیں گے‘ سامان کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹیں گے لیکن گھر میں دو تین منٹ بیٹھ کر بورڈنگ کارڈ نہیں نکال لیا۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ ائیرلائن کا ایپ ڈائون لوڈ کرکے وہاں بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ اس ایپ سے ای میل آئے گی اور وہ کاؤنٹر پر چیک ہوگی۔ مجھے اب کی دفعہ خود پر زیادہ غصہ آیا‘ یہ بھی کیا بے نیازی ہے۔ یا پھر گھر سے باہر نہ نکلو اور اگر نکل پڑے ہو تو پھر آپ کو سارے لوازمات کا پتہ ہونا چاہیے۔ ہر چیز کو اپنی سستی یا روایتی انداز کا نام دے کر اگنور کرنا بھی کوئی طریقہ نہیں۔
خود کو کوس کر فارغ ہوا تو ادھر اُدھر دیکھا کہ اب کیا کیا جائے۔ قطار میں تو لگے ہی ہوئے تھے تو چھیڑ چھاڑ شروع کر دی کہ جب تک بورڈنگ کارڈ اور لگیج کاؤنٹر تک نہیں پہنچتے اس فون کے ذریعے کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنا بڑا بیٹا اس موقع پر یاد آیا جو ہمیشہ اس طرح کے معاملات فوراً حل کرتا ہے۔ شاید اس نے اتنی عادت ڈال دی کہ اب اکیلے سفر کرتے ہوئے مشکلات ہورہی تھیں۔ آج خلافِ توقع ائیرپورٹ پر رش تھا حالانکہ دوست بتا رہے تھے کہ یہ ائیر پورٹ اتنا مصروف نہیں ہوتا۔ پانچ دس منٹ میں بندہ بورڈنگ کارڈ اور سامان بک کرانے کے بعد فارغ ہو جاتا ہے‘ لیکن آج قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میرے آگے ایک پاکستانی میاں بیوی تھے جو اپنے سبز پاسپورٹ پکڑے دھیرے دھیرے چل رہے تھے۔ مجھے لگا وہ جوڑا اپنے ساتھ کچھ زیادہ سامان لے کر چل رہا ہے۔ ان کی باتوں اور چہروں کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ وہ کیسے ائیرلائن کاؤنٹر پر موجود سٹاف کو قائل کریں گے تاکہ انہیں زیادہ سامان کے پیسے نہ دینے پڑیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی ٹینشن سے مجھے بھی بلاوجہ ٹینشن ہورہی تھی۔ ان میاں بیوی کو اپنے ساتھ موجود دو ہینڈ کیری کی فکر تھی جو اپنے سائز سے زیادہ لگ رہے تھے۔ یقینی طور پر ان دو ہینڈ کیری کا وزن ائیرلائن کے اس وزن سے زیادہ تھا جتنے کی اجازت تھی۔ بیوی کہنے لگی کہ بہتر ہوگا کہ ہم یہ ہینڈ کیری کاؤنٹر پر لے کر نہ جائیں اور باقی سامان بک کرا دیں اور پھر یہ خود جہاز کے اندر لے جائیں گے۔ مرد نے بیک پیک اٹھایا ہوا تھا جو خاصا بھاری لگ رہا تھا جبکہ بیوی نے بھی ہینڈ بیگ کے نام پر بڑا سا بیگ پکڑا ہوا تھا‘ لہٰذا ان دونوں میاں بیوی کا پریشان ہونا بنتا تھا۔ ان کی گفتگو سے لگ رہا تھا کہ انہیں خطرہ تھا کہ وزن بڑھ جانے کی صورت میں ان سے دو‘ تین سو ڈالرز زائد وزن کے لیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ خاوند کا خیال تھا کہ کیا فرق پڑتا ہے اگر وزن کا کرایہ لے بھی لیا کون سا ہم روز امریکہ آتے ہیں‘ تاہم بیوی کا خیال تھا کہ وہ کیوں اپنے ڈالرز سامان پر ضائع کریں۔ بیوی اپنے خاوند کو کہنے لگی کہ آپ چپ رہیں میں مینج کر لوں گی۔ خاوند یہ سن کر چپ رہا جیسے اسے اندازہ تھا کہ ابھی کیا ہونے والا ہے۔ اس کی بیوی بار بار ہینڈ کیری بیگز کو دیکھ رہی تھی۔ آخرکار ان کی باری آ گئی۔ کاؤنٹر پر بیٹھی نوجوان لڑکی نے اس جوڑے کو اشارہ کیا کہ وہ آگے آئیں۔ وہ دونوں اپنی ٹرالی کھینچ کر کاونٹر کی طرف جا پہنچے۔ اب ان کے پیچھے میں لائن میں کھڑا تھا تاہم اس بندے کی بیوی نے سمجھداری کی کہ اس نے اپنے ہینڈ کیری والی ٹرالی کاؤنٹر پر لے جانے کے بجائے پیچھے کھڑی کر دی تاکہ کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی وہ نہ دیکھ سکے جبکہ دوسری ٹرالی جس پر ان کے بیگز تھے وہ آگے بڑھا دی۔ لگ رہا تھا وہ اس وزن کے بارے مطمئن تھی۔ اس لڑکی نے ان دونوں سے پاسپورٹ لیے‘ سبز رنگ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک لمحے کیلئے چمک ابھری اور وہ تھوڑا سا مسکرائی۔ مسکراہٹ دیکھ کر میاں بیوی کو کچھ حوصلہ ہوا کہ یہ مشکل مرحلہ آسانی سے طے ہو جائے گا اور کسی کی نظر ان کے بھاری بھر کم ہینڈ کیری پر نہیں پڑے گی۔ اس لڑکی نے پاسپورٹ سے دیکھ کر تفصیلات سامنے رکھے کمپیوٹر میں ڈالیں اور انہیں کہا کہ وہ اب اپنے بیگز کا وزن کرائیں۔ خاوند نے ایک ایک کرکے بیگز بیلٹ پر رکھنے شروع کیے۔ ایک بیگ کا وزن بیس کلو گرام نکلا جس کا مطلب تھا کہ ابھی اس بیگ میں دو تین کلو گرام وزن کی گنجائش تھی۔ اس خاتون کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اس نے اس لڑکی سے کہا میں ہینڈ کیری سے کچھ سامان نکال کر اس میں ڈال دوں۔ وہ لڑکی مسکرا کر بولی‘ ڈال دیں۔ وہ خاتون مڑی اور اپنے پیچھے سے ٹرالی پر موجود ہینڈ کیری سے کچھ چیزیں نکالنے لگی تاکہ وہ بیگ میں ڈال سکے۔ اس لڑکی کی نظر ان بیگوں پر پڑی تو اس کی آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں۔ اس نے خاتون سے کہا: پہلے آپ اپنے ہینڈ کیری کا وزن کرائیں۔ یہ سن کر خاتون کا رنگ فق ہوگیا۔ انجانے میں وہ غلطی کر گئی تھی۔ جب وہ ہینڈ کیری انہوں نے بیلٹ پر رکھے تو ایک کا وزن بیس کلو تو دوسرے کا پندرہ کلو کے درمیان تھا۔ لڑکی بولی: ایک ہینڈ کیری اور ہینڈ بیگ کا وزن سات کلو سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو اس کے پیسے ادا کرنا پڑیں گے۔ اس پر دونوں میاں بیوی میں اردو میں بحث ہونے لگی۔ خاوند کا خیال تھا کہ پہلے کافی دیر ہو چکی ہے‘ پیچھے کافی لمبی قطار ہے‘ پیسے دیں اور بورڈنگ کارڈ لے کر چلیں جبکہ بیوی کا خیال تھا تم چپ رہو وہ لڑکی سے خود بات کرے گی۔
اس خاتون نے ہونٹوں پر مسکراہٹ لا کر اس لڑکی کا نام پوچھا: وہ بولی میرا نام فرحانہ ہے۔ اس کی بیوی نے اس لڑکی سے بحث شروع کی تو لڑکی نے کہا: ائیرلائن کا اصول ہے۔ وزن زیادہ ہے۔ خاوند نے دوبارہ بیوی کو روکنے کی کوشش کی لیکن بیوی نے پھر اسے مڑ کر کہا: تم چپ رہو۔ پاکستانی خاتون کی سب باتیں بے اثر ثابت ہوئیں۔ اس پر مرد نے جیب سے بٹوہ نکالا اور لڑکی کو دیکھ کر کہا: جی آپ ٹوٹل کریں اور ڈالرز لے لیں۔ بیوی نے خاوند کو روکنے کی پھر کوشش کی۔ لڑکی بولی: آپ دونوں ہینڈ کیری ادھر بیلٹ پر رکھیں میں انہیں بھی بک کر دیتی ہوں کیونکہ اب آپ پیسے دے رہے ہیں۔ یہ کہہ کر اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔ دونوں بھاری بھرکم ہینڈ کیری بک کرنے کے بعد جب مرد نے پوچھا کتنا بل بنا؟
وہ لڑکی مسکرائی اور بولی: آپ سے کوئی پیسے نہیں لینے۔ فری کر دیا ہے۔ حیرت زدہ میاں بیوی کو بورڈنگ کارڈ پکڑائے اور مسکرا کر بولی: آپ پاکستان سے ہیں اور میں افغانستان سے ہوں‘ Have a safe flight اور مجھے اشارہ کیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved