دنیا کو خطرناک موسمیاتی اثرات سے بچانے کیلئے نومبر 2014ء میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ انٹرگورنمنٹل پینل فار کلائیمٹ چینج (IPCC) کے اہم اجلاس میں خبردار کیا گیا کہ دنیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے بچانے کیلئے نامیاتی ایندھن کا استعمال روکنا ہوگا۔ نومبر 2015ء میں پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں بھی اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آلودگی‘ نامیاتی ایندھن یعنی تیل‘ گیس یا کوئلے کا بڑے پیمانے پر استعمال ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ 1992ء سے اقوام متحدہ کے تحت موسمیاتی تبدیلی پر اجلاس ہو رہے ہیں جن میں ماہرینِ ارضیات اور سائنسدان خطرات سے متنبہ کر رہے ہیں مگر ابھی تک مشترکہ طور پر کوئی ایسا لائحہ عمل تشکیل نہیں دیا جا سکا ہے کہ جس سے ماحولیاتی خطرات کو کم کیا جا سکے۔ نامیاتی ایندھن جو ماحول کیلئے خطرناک ثابت ہو رہا ہے‘ نظامِ زندگی کو رواں رکھنے کیلئے اہم بھی ہے۔ اگر نامیاتی ایندھن پر پابندی لگا دی جائے تو ترقی کا پہیہ رک جائے گا کیونکہ آپ کے آس پاس جو چیز بھی آپ کو دکھائی دے رہی ہے یا آپ استعمال کر رہے ہیں وہ نامیاتی ایندھن کی پیداوار ہے۔ ایندھن صنعتوں کیلئے ضروری ہے اور لوگوں کو غربت سے نکالنے کیلئے صنعتیں ضروری ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ دنیا کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک بھی نامیاتی ایندھن کو ترک کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کا مؤقف ہے کہ جس طرح ترقی یافتہ ممالک نے پچھلے دو سو برس تک اس ایندھن کو استعمال کر کے ترقی کی منازل طے کی ہیں اسی طرح انہیں بھی حق دیا جائے تاکہ وہ اپنے عوام کو غربت سے نکال سکیں۔ سائنسدانوں نے شمسی توانائی اور پن بجلی کو توانائی کے قابلِ تجدید متبادل ذرائع قرار دیا ہے تاہم ترقی پذیر ممالک ان ذرائع پر منتقلی کے اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک توقع رکھتے ہیں کہ جو امیر ممالک عالمی ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بنے ہیں وہی ممالک فنڈز بھی مہیا کریں مگر ترقی یافتہ ممالک اس پر آمادہ نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک چاہتے ہیں کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی میں صرف تعاون کریں جبکہ اصل کام متاثرہ ممالک خود کریں۔ اس تناطر میں دیکھا جائے تو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے‘ کچھ ممالک موسمیاتی تبدیلی کا سبب ہیں جبکہ دوسرے اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ماہرینِ ارضیات کے مطابق پاکستان جغرافیائی طور پر ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں درجہ حرارت میں اضافہ دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ چونکہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے زراعت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے فصلوں کی پیداوار‘ غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت میں واضح کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے‘ آبادی میں توازن الگ موضوع ہے جس پر تفصیلی گفتگو ہو نی چاہیے کیونکہ ماحولیات اور آبادی کا آپس میں گہرا تعلق ہے‘ تاہم 23 کروڑ سے زائد نفوس کی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے وسیع رقبے پر زراعت کی کاشت ہونی چاہیے مگر درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے پاکستان میں گندم کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے‘ گندم اور آٹے کی کمی پوری کرنے کیلئے ہمیں گندم درآمد کرنا پڑتی ہے حالانکہ اس سے پہلے نہ صرف یہ کہ پاکستان گندم میں خود کفیل تھا بلکہ ضرورت سے زائد گندم برآمد بھی کرتا تھا۔ زرعی ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کو 10 فیصد گندم کی کمی کا سامنا ہے‘ آنے والے برسوں میں اس شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ یہی صورتحال پھلوں اور سبزیوں کی ہے جن کی پیداوار میں واضح کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ ان جوہات کی بنا پر پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک قرار دیا جا رہا ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یورپی ممالک اور امریکہ میں صنعتی انقلاب موسمی تغیرات کی اہم وجہ ہیں۔ صنعتوں میں کوئلے اور تیل کے استعمال نے فضائی آلودگی پیدا کی جس نے بعدازاں پورے ماحول کو لپیٹ میں لے لیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ میں کارخانے آبادی سے بہت دور قائم کئے جاتے ہیں یا باہر کے ممالک میں کارخانے لگائے جا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے اصل حقائق ماحولیاتی آلودگی سے اپنے عوام کو بچانا ہے مگر ظاہر یہ کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی نسبت بیرونی دنیا میں لیبر سستی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ماحولیاتی آلودگی میں انسانی اعمال کا بڑا ہاتھ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی ماہرین اور سائنسدان گزشتہ 40 برسوں سے موسمی تغیرات کے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ اس موضوع پر تحقیقی مقالہ جات بھی پیش کیے گئے ہیں مگر کوئی ایسا متفقہ قدم نہیں اٹھایا جا سکا جس سے دنیا کو ماحولیاتی خطرات سے محفوظ بنایا جا سکے۔
امریکہ دنیا بھر کی مجموعی ماحولیاتی آلودگی کے 25 فیصد کا ذمہ دار ہے۔ تیل‘ گیس اور کوئلے کا سب سے بڑا صارف بھی ہے اور دیگر ممالک کو برآمد بھی کرتا ہے‘ دنیا کے سب سے زیادہ صنعتی کارخانے‘ بھاری مشینیں اور تیل صاف کرنے والے کیمیائی مادوں کی فیکٹر یاں بھی امریکہ میں ہیں‘ مگر امریکہ ماحولیاتی خطرات کے خلاف عالمی مہم جوئی کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں۔ امریکہ کے کئی صدور ماحولیاتی آلودگی کے خلاف عالمی مہم کا بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ امریکہ کا دہرا معیار ماحولیاتی اثرات کے خلاف مہم کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے۔ نومبر 2015ء میں پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس میں میاں نواز شریف نے مطالبہ کیا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسائل حل کرنا دنیا کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ آج اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس انہی الفاظ کا اعادہ کر رہے ہیں کہ روایتی ایندھن کے استعمال کرنے والے بڑے ملکوں کا کیا دھرا پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ملک بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاگل پن اب بند کیا جائے‘ توانائی کے متبادل ذرائع پر سرمایہ کاری کی جائے اور قدرت سے جنگ ختم کی جائے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورۂ پاکستان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے موقع پر جب پاکستان کا ایک تہائی حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور ہمیں بڑے پیمانے پر فنڈز درکار ہیں‘ سیکرٹری جنرل کی طرف سے عالمی برادری سے اپیل کی گئی ہے کہ دنیا آگے آئے اور پاکستان کی مدد کرے۔ انہوں نے قرضوں کی واپسی میں بھی پاکستان کی مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے ابتدائی نقصان 30ارب ڈالر اور اس میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے عالمی برادری اور ان ممالک کو مخاطب کیا جو درجہ حرارت بڑھانے کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کا دورہ کرکے اپنا فرض پورا کیا ہے‘ باقی کا کام ہمیں خود کرنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنا ہوگا۔ رواں برس مصر میں کانفرنس آف پارٹیز 27 منعقد ہو رہی ہے جہاں وزیر خارجہ بلاول بھٹو شرکت کریں گے۔ امید ہے کہ وہ اس فورم پر پاکستان کو لاحق موسمی خطرات کو پیش کریں گے۔ وزیر خزانہ کو بھی چاہیے کہ سیلاب زدگان کیلئے ریلیف پیکیج کیلئے آئی ایم ایف سے بات کریں اور سب سے اہم یہ کہ موسمی تبدیلیوں کے خطرات سے بچنے کیلئے جو اقدامات ہمیں مقامی طور پر اٹھانے چاہئیں اور نیشنل فلڈ پروٹیکشن جیسے جن اداروں کو متحرک کرنا ضروری ہے‘ ان میں اصلاحات لائی جائیں تاکہ نقصان کی شدت کو کم کیا جا سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved