تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-09-2022

سُوئی اٹکتی رہے گی آپ پر

کسی کو کتنا ہی سکھائیے‘ تعلیم و تربیت کے کتنے ہی مراحل سے گزاریے اور اعتماد پیدا کرنے سے متعلق کتنے ہی تجربات کر دیکھیے‘ بالآخر اُسی کو کچھ کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی اکیڈمی میں کسی نوجوان کو بیٹنگ کی ہر معیاری تکنیک سکھائی جا سکتی ہے‘ بتائی جا سکتی ہے۔ پریکٹس بھی بہت کرائی جا سکتی ہے‘ نفسی پیچیدگی دور کرنے سے متعلق لیکچرز بھی دیے جا سکتے ہیں مگر میچ میں تو اُسی کو باؤلر کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ یہی حال کرکٹ کے دیگر شعبوں اور مجموعی طور پر تمام شعبوں کا ہے۔ کسی کو کتنا ہی سکھائیے‘ عمل کے میدان میں تو تنہا اُسی کو بہت کچھ بلکہ سب کچھ کرنا ہوتا ہے۔
انسان کو بہت کچھ سیکھنا بلکہ سیکھتے رہنا پڑتا ہے۔ ہر شعبہ تبدیلی کے مختلف مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہنے کے لیے انسان کو بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ ایک معاملہ ہوتا ہے اَپ ڈیٹ کرتے رہنے کا اور دوسرا ہوتا ہے اَپ گریڈیشن کا۔ اگر انسان صرف معلومات کی حد تک اپنے آپ کو تر و تازہ رکھے تو اِسے کہتے ہیں اَپ ڈیٹ۔ اور اگر کوئی اِس سے کئی قدم آگے جاکر نئی مہارتوں کا حصول یقینی بنائے تو اسے کہتے ہیں اَپ گریڈیشن۔ روزانہ اخبار پڑھنا اَپ ڈیٹ کے زُمرے میں ہے اور کوئی لکھنا‘ تجزیہ کرنا اور ادارت بھی سیکھے تو اسے اَپ گریڈیشن کہا جائے گا۔ اَپ ڈیٹ اور اَپ گریڈیشن کے فرق کو ذہن نشین رکھنا ہر اُس انسان کے لیے لازم ہے جو کچھ بننا چاہتا ہے۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کوئی چاہے کسی بھی حد تک جھرمٹ میں رہے‘ حتمی تجزیے میں تو وہ تنہا ہی ہوتا ہے۔ تنہا ہونے یا تنہا رہ جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی ساتھ نہ دے رہا ہو یا کوئی اپنا نہ سمجھ رہا ہو۔ انسان کو اوّل و آخر تنہا ہی سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کسی کی طرف سے کچھ مدد مل بھی جائے تو کام خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ جن معاملات میں اپنے وجود کو بروئے کار لانا لازم ہو اُن معاملات میں دوسرے کسی بھی طور کلیدی کردار ادا نہیں کر سکتے۔
دنیا کے ہر انسان کے تمام معاملات کی سُوئی بالآخر اس کی اپنی ذات پر آکر اٹکتی ہے۔ آپ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کوئی آپ کا کتنا ہی ساتھ دے رہا ہو‘ کتنا ہی حوصلہ بڑھا رہا ہو‘ مالی وسائل بھی فراہم کر رہا ہو مگر جو کچھ کرنا ہے آپ کو کرنا ہے۔ اپنے تمام معاملات کے حتمی تجزیے میں ذمہ دار آپ ہی ہیں۔ اگر آپ اس بنیادی اور بدیہی حقیقت کو نظر انداز کریں گے تو کبھی وہ کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے جس کا آپ خواب دیکھتے آئے ہوں۔
ہر معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہوتی جو اپنے بیشتر معاملات میں دوسروں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے حصے کا کام کوئی اور کرے۔ کوئی اور ایسا کیوں کرے گا کیونکہ اُسے بھی اپنے معاملات دیکھنا ہوتے ہیں۔ کسی اور سے غیرمعمولی توقعات وابستہ رکھنا سادہ لَوحی کی انتہا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ سادہ لَوحی سے کہیں بڑھ کر یہ صریح حماقت ہے۔ بیشتر معاملات میں دوسروں سے کلیدی کردار ادا کرنے کی امید وابستہ کرنا منطقی اعتبار سے حماقت ہی کے ذمرے میں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ خود ہی اپنے معاملات پر متوجہ نہیں ہو رہے تو کوئی اور بھلا کیوں ایسا کرے گا۔
جب کوئی اپنے لیے کسی راہ کا تعین کرتا ہے‘ کوئی منزل متعین کرتا ہے‘ کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس کی طرزِ فکر و عمل بدل جاتی ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ وہ جب چلتا ہے تو لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ کہیں پہنچنا چاہتا ہے۔ جسم کی حرکات و سکنات اور تاثرات بہت کچھ بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی چاہتے ہیں وہ ہماری طرزِ فکر و عمل سے ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی شعبے میں آگے بڑھنا چاہتا ہے تو وہ شعبہ اُس کے حواس‘ اعصاب اور فکری ساخت پر اثرات مرتب کرکے رہتا ہے۔
عام آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اوّل تو کچھ زیادہ کرنے کا سوچتا نہیں‘ سوچ لے تو عمل کی دنیا میں زیادہ دور تک جانے کا عزم اپنے اندر پیدا نہیں کرتا۔ اور اگر عزم بھی پیدا کرلے تو اپنی صلاحیت و سکت کا معیار بلند کرنے کے بجائے دوسروں کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔ دوسروں سے توقعات اور امیدیں وابستہ کرتے ہوئے جینا بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے۔ بنیادی مسئلہ ہے اعتماد کی کمی۔ جب انسان اپنے وجود کو ایک طرف ہٹاکر دوسروں کی طرف دیکھتا رہتا ہے تب اُس میں کچھ کرنے کی حقیقی لگن پیدا نہیں ہو پاتی۔ جب انسان آسرے پر رہتا ہے تب اپنے اندر مطلوب لگن پیدا نہیں کرتا۔ اگر یہ امید ہو کہ کہیں سے کوئی آکر معاملات درست کردے گا تب کچھ زیادہ کرنے کا ذہن بنتا ہی نہیں۔ جب معاملات دوسروں کے آسرے پر ہوں تو انسان میں کمزوری کا پیدا ہونا لازم ہے۔ یہ کمزوری اعتماد کی بھی ہوتی ہے اور لگن کی بھی۔ اگر کچھ کر دکھانے کی بھرپور لگن نہ پائی جاتی ہو تو انسان کچھ زیادہ سیکھنے پر بھی مائل نہیں ہوتا۔ جب کچھ زیادہ کرنا ہی نہیں ہوتا تو انسان صلاحیت کا معیار بھی بلند نہیں کرتا اور سکت بڑھانے پر بھی متوجہ نہیں ہوتا۔ دوسروں کے آسرے پر جینے والے خاصی عمومی‘ بلکہ عامیانہ سی زندگی سے بھی مطمئن ہو رہتے ہیں۔ وہ یہی سوچ سوچ کر اپنا دل بہلاتے رہتے ہیں کہ اگر وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے تو کیا ہوا‘ دنیا میں اور بھی بہت سے لوگ انتہائی ناکامی کی حالت میں جی رہے ہیں اور جو جا چکے ہیں اُن میں بھی اکثریت اُن کی تھی جو کچھ خاص نہ کر پائے۔
عمومی سطح پر ایک بڑی نفسی کمزوری یہ بھی ہے کہ انسان دوسروں کی ناکامی دیکھ کر حوصلہ ہارتا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ کہتے ہوئے اپنا دل بہلانے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے کہ کامیابی نہ ملنا کوئی ایسی بُری بات بھی نہیں جس پر بہت زیادہ افسردہ ہوا جائے کیونکہ ماحول میں اکثریت اُنہی ہی کی ہے جو عام سی زندگی بسر کرتے ہیں‘ کچھ خاص کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
آج کے پاکستانی معاشرے میں بھی اکثریت اُن کی ہے جو آسرے پر جی رہے ہیں یا پھر کچھ خاص کرنا ہی نہیں چاہتے۔ بھرپور کامیابی اُسی وقت ممکن ہے جب انسان کچھ بننے اور کر دکھانے کا عزم کرے‘ کام کرنے کی مثالی لگن اپنے اندر پیدا کرے اور حالات کے پیدا کردہ نشیب و فراز سے ہنستا گاتا گزر جائے۔ یہ سب کچھ بظاہر خواب سا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے معاشروں میں وہی لوگ زیادہ کامیاب ہو پاتے ہیں جو عمومی زندگی کو خصوصی بنانے کی ٹھانتے ہیں‘ محض آسروں پر نہیں جیتے اور مواقع کا انتظار نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مواقع ملتے نہیں بلکہ پیدا کرنا پڑتے ہیں۔
اگر آپ نے بالکل عمومی سطح پر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو کوئی بات نہیں۔ ہاں‘ دوسروں کی عمومی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے لیے بھرپور کامیابی سے مزیّن زندگی یقینی بنانے کے بارے میں سوچا ہے تو سب سے پہلے اپنے وجود پر بھروسا کرنا ہوگا۔ حقیقی اعتماد اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اپنے وجود پر بھروسا کرتا ہے‘ اپنی صلاحیت کا گراف بلند کرنا چاہتا ہے‘ اپنی سکت کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کے بارے میں سوچتا ہے۔ یاد رکھیے‘ زندگی بھر ہر معاملے میں سُوئی صرف آپ تک پہنچ کر اٹکتی رہے گی۔ اپنے لیے جو کچھ بھی کرنا ہے آپ ہی کو کرنا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔ بڑھتی ہوئی مسابقت انسان کے لیے آزمائش کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر اچھی زندگی بسر کرنا ہے‘ کامیاب کہلانا ہے تو دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنا لازم ہے۔ یہ آپشن کا معاملہ نہیں۔ کامیابی کے خواہش مند افراد کے لیے کوئی آپشن نہیں ہوتا‘ اُنہیں جو کرنا ہوتا ہے وہ کرنا ہی ہوتا ہے۔
زندگی کا حقیقی حُسن اس امر میں پوشیدہ ہے کہ آپ اپنے وجود سے ہٹ کر کسی پر بھی زیادہ بھروسا نہ کرتے ہوں۔ اپنے لیے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ اوّل و آخر آپ ہی کو کرنا ہے۔ کسی اور کو کیا پڑی ہے کہ آپ کی مشکل آسان کرتا پھرے؟ کوئی آپ کی رسمی سی اخلاقی مدد کر سکتا ہے۔ حتمی تجزیے میں تو اپنی کشتی کے ناخدا آپ ہی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved