تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     12-09-2022

شہرِ خموشاں سے

بے رحم سیلابی ریلوں کی بھینٹ چڑھ جانے والی بستیاں شہرِ خموشاں کا منظر پیش کررہی ہیں۔ملیامیٹ ہوجانے والے شہروں میں وحشت اور ویرانی کے سائے لہرارہے ہیں۔ایک پگڈنڈی پہ کھڑا یوں محسوس کررہاہوں کہ میرے اردگرد جابجا لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ ناحق مرنے والوں کی چیخ وپکار ہو یا مدد کے لیے فریاد۔ سبھی کی بازگشت فضاؤں میں گونج رہی ہے۔خدا جانے کتنے لاشے میرے ارد گرد کھڑے پانی میں گل سڑ رہے ہوں گے۔یوں لگتا ہے کہ میں انگنت قبروں کے بیچ کھڑا ہوں۔کسی کا پورا کنبہ سیلابی ریلا بہا لے گیاتو کوئی بچے کھچے اہلِ خانہ کے ساتھ بے رحم پانی کے رحم و کرم پر ہے۔ خدایا! یہ کیسی قیامت ہے کہ تیرے دیے ہوئے دو ہاتھوں سے مصیبت زدہ مخلوق کیا کیا کرتی؟ ماں کو پکڑاتو باپ کو پانی بہا لے گیا۔بیوی کو بچاتے ہوئے بچے ہاتھ سے نکلے گئے۔ زندہ بچ جانے والے کس کس کو روئیں اور کتنا روئیں۔اپنے پیاروں کو روئیں۔گھر بار کو روئیں یا مال و اسباب کو روئیں۔یہ بستیاں صرف سیلاب میں مارے جانے والوں کا ہی قبرستان نہیں بلکہ یہاں بے شمار دیگر قبریں بھی جابجا دکھائی دیتی ہیں۔انسانیت کی قبر سے لے کر احساس اور خوفِ خدا کی قبریں ہوں یا گورننس اور طرزِحکمرانی کی۔ ان سبھی قبروں کی وجہ سے ان بستیوں کی ویرانی اور ہیبت میں مزید اضافہ ہوتا چلا رہا ہے۔
سیلابی ریلوں میں بہتی کیچڑ میں لت پت معصوم بچوں کی لاشیں دیکھ کر تو زمین بھی کانپ اٹھی ہوگی۔سیلابی ریلوں اور طوفانی بارشوں کی بھینٹ چڑھنے والوں کی روحیں بھی یقینا اس احتجاج میں شامل ہو گئی ہوں گی جو ناحق مارے جانے والوں کی روحیں نجانے کب سے کررہی ہیں۔ زمینی خداؤں کی نااہلی‘ نالائقی اور غفلت کی وجہ سے ناحق مارے جانے والوں کی روحیں کس بے تابی سے روزِ محشر کا انتظار کرتی ہوں گی کہ کب یومِ حساب آئے اور کب ان گریبانوں کو پکڑ کر ربِ کائنات کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر یں۔سندھ کے جن علاقوں کو سیلابی ریلوں نے ملیامیٹ کیا ہے وہاں موقع پر ہلاکتوں کے علاوہ اآج بھی موت کا رقص جاری ہے۔امدادی کارروائیاں محض کارروائی بننے سے لاچار و بے کس عوام۔لمحہ لمحہ‘ ریزہ ریزہ‘ قطرہ قرہ‘ دھیرے دھیرے ٹکڑوں میں آج بھی مررہے ہیں۔کوئی بھوک سے بلک رہا ہے تو کوئی پیاس سے ہلکان ہے۔کوئی مسلسل غلاظت میں رہنے کی وجہ سے علاج معالجہ کوترس رہا ہے تو کوئی گلے سڑے کپڑے پھٹنے کے بعدستر پوشی کے لیے شرمسار ہے۔ان مصیبت کے ماروں کے سر پر کھلا آسمان اور نیچے تعفن زدہ پانی ہے۔ اکثر کا شمار نہ زندوں میں ہے نہ مردوں میں۔
بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین کی حالت ِزار سندھ سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔اگرپاک فوج اور غیر سرکاری سماجی تنظیمیں اور دردِ دل رکھنے والے حضرات میدانِ عمل میں نہ ہوں تو یہاں اتنی لاشوں کے انبار لگ سکتے ہیں کہ شاید اٹھانے والے بھی کم پڑ جائیں کیونکہ سرکار من مانی کی طرزِ حکمرانی پر بضد اورمطمئن ہے۔ان کی بلا سے کوئی جئے یا مرے۔تاہم سیلاب زدگان کی حالتِ زار اور تباہی و بربادی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے کہ صرف سیاسی نعرے زندہ ہے۔
پنجاب میں ڈی جی خان کے جن اضلاع میں سیلابی ریلوں نے بستیاں اجاڑی ہیں وہاں بھی پاک فوج کے علاوہ این جی اوز اور دردِ دل رکھنے والے مخیر حضرات پیش پیش نہ ہوتے تو ریلیف آپریشن سرکار کے بس کی بات کہاں تھی۔ سیلابی علاقوں کے مناظر دیکھ کر اعصاب اور نفسیات تباہ و برباد ہونے کے ساتھ ساتھ دلگرفتہ اور زبان گنگ ہوچکی ہے۔حضرت انسان کی بے بسی اور التجائیہ نگاہوں کے ساتھ دست ِسوال دراز کیے انسانوں کا ہجوم دن کا چین اور رات کی نیند برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔ منظر نامے کی وضاحت کرنا چاہوں تو الفاظ بھی ہاتھ باندھے زار و قطار روتے نظر آتے ہیں کہ ہم ایسے حالاتِ پریشاں کی ترجمانی سے قاصر ہیں۔ تاہم اس گریہ کے اظہار کے لیے چند اشعار بطور استعارہ پیش خدمت ہیں۔
سنو شہنشاہو۔۔ اے خیر خواہو !!
ہمارے بچوں کی سرد لاشیں‘گھروں کا ملبہ‘ بھنور میں ڈوبی ہوئی وہ چیخیں‘ اُجاڑ کھیتوں سے اُگتے نوحے
تمہارا پرسہ ضرور لیں گے ضرور لیں گے...مگر سماعت کا حوصلہ ہے تو پھر بتاؤ
جب ایک طوفاں ہماری دھرتی‘ ہمارے گاؤں‘ ہمارے کچے مکاں کی مٹی نگل رہا تھا...تو تم کہاں تھے ؟
بغیر دستک جب اِک قیامت ہمارے سر پر کھڑی ہوئی تھی...تمہیں تو اپنی پڑی ہوئی تھی...توتم کہاں تھے؟
کہاں تھے تم جب چہار جانب بپھرتا دریا گھروں کو ملبہ بنا رہا تھا۔ ریلہ ریلہ اچھلتا پانی یہاں قیامت اُٹھا رہا تھا... تو تم کہاں تھے؟
نڈھال ماتم کناں وہ بوڑھا بے رحم موجوں کو اپنے لختِ جگر کا نوحہ سنا رہا تھا۔ کسی کی بیٹی کی عمر بھر کا جہیز دریا میں جا رہا تھا ...تو تم کہاں تھے ؟
تو آؤ پُرسہ وصولتے ہیں نحیف بوڑھے کہ جن کو پانی میں دفن بچے نہیں ملے ہیں...بپھرتے دریا کی تند موجوں پہ فاتحہ پڑھ کے آچکے ہیں گھروں کے ملبے پہ بیٹھے کب سے یہ سوچتے ہیں کہ تم کہاں تھے انہیں بتاؤکہ تم نہیں تھے !!!
ایک طرف اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مگن رہنما اپنی دھن میں مست ہیں۔ کوئی بیانیے کا چورن بیچ کر مقبولیت کی انتہاؤں کو چھونے کے بعد اپنی ہی ذات کے رومانس میں مبتلا ہے تو کوئی اقتدار کے بٹوارے اور وسائل کی بندر بانٹ میں مصروف ہے‘ تو دوسری طرف سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے مصروفِ عمل نجانے کتنے نیک دل لوگ مصیبت زدہ خلقِ خدا کے آنسو پونچھنے کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہیں۔کالم کے دامن کی وسعت آڑے نہ آتی تو اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی غیر تنظیموں اور افراد کا تفصیلی ذکر برائے ترغیب ضرور کرتا کہ کس طرح وہ دشوار گزار راستوں کی پروا کیے بغیران مقامات تک جاپہنچے جہاں سرکار کا ریلیف آپریشن ابھی راستے میں ہی تھا۔
خوراک اور لباس کے علاوہ روز مرہ کی ادویات کی فراہمی کے باوجود بے شمار ایسے مسائل سر اٹھا رہے ہیں جو دوچار دنوں کی بات نہیں ہیں۔ جن میں ان کی آبادکاری‘ روزگار اور صحتِ عامہ کا بندوبست بھی شامل ہے۔ سیلاب کے پانی میں سانپ اور دیگر زہریلے کیڑے مکوڑے کثرت سے نکل رہے ہیں۔ سانپ کے کاٹے کی ویکسین سیلاب زدگان کی اہم اور بڑی ضرورت بن چکی ہے۔سیلاب زدہ علاقوں سے واپسی پر راجن پور میں رکن صوبائی اسمبلی اویس دریشک کو جس طرح سیلاب زدگان کی بحالی میں جتے دیکھا تو ملول طبیعت کو کسی حد تک قرار محسوس ہوا کہ کوئی تو ہے جو سرکاری وسائل سے ہٹ کر بھی پیش پیش ہے۔خدا بھلا کرے ان سبھی کا جو اِن آفت زدہ علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل اور تقسیم کے لیے موجود ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک حصہ بقدر جثہ اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر اپنا اپناحصہ ڈال رہے ہیں ورنہ اگر سیلاب زدگان سرکار کے رحم و کرم پر ہوتے تو اب تک نجانے مزید کتنی مشکلات کا شکار ہو چکے ہوتے کیونکہ سرکار کا تو اپنا ایک طریقہ کار ہے۔ وہ اپنے ایس او پیز اور روایتی بے حسی پر آج بھی قائم اور ڈٹی ہوئی ہے۔ اس کی بلا سے کوئی جیے کوئی مرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved