صلاحیتوں کا فرق انسان کو بہت سے معاملات میں کچھ نیا اور زیادہ کر دکھانے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ اگر عزم جوان ہو تو انسان اپنی صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے بارے میں سوچتا ہے اور جو کچھ وہ سوچتا ہے اُسے عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ سازی بھی کرتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں‘ یا یوں کہیے کہ زندگی کے کسی بھی معاملے میں‘ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ فرق کس حد تک واقع ہوتا ہے۔ لوگ اُنہیں پسند کرتے ہیں جو معمول سے ہٹ کر کچھ کر دکھانے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ آپ نے ایسے بہت سے باصلاحیت افراد دیکھے ہوں گے جو معمول کی زندگی بسر کرتے رہتے ہیں اور لوگ اُن کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے۔ دوسری طرف‘ کم تعداد ہی میں سہی‘ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اگرچہ کمتر صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں مگر اُن کا مزاج اُنہیں بہت تیزی سے کامیابی اور مقبولیت سے ہم کنار کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ صورتِ حال کو بہت تیزی سے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اِن کا مزاج ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے تیزی سے کیجیے اور رخصت ہو جائیے۔ کمتر صلاحیت کا حامل ہونے پر اگر کوئی محض جوش و خروش کی بنیاد پر بہت کچھ کرنے کی ٹھان لے تو تھوڑا بہت فرق ضرور واقع ہوتا ہے۔ اس معاملے کی نمایاں ترین مثالوں میں شاہد آفریدی بھی شامل ہیں اور نمایاں ہیں۔ شاہد آفریدی جب تک ٹیم میں رہے‘ دھوم مچاتے رہے۔ ماہرین کی نظر میں شاہد آفریدی تکنیکی اعتبار سے بہت بڑے کرکٹر نہیں تھے۔ اُن کی بیٹنگ میں بے شمار خامیاں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لیگ سپنر کے طور پر شاہد آفریدی نے خود کو بہت عمدگی سے منوایا؛ تاہم بیٹنگ میں وہ ایسے نہیں تھے کہ بڑے بلّے بازوں کی صف میں کھڑے ہو پاتے۔ اور اُنہیں‘ بظاہر اِس کی کچھ خاص پروا بھی نہیں تھی۔ لوگ بھی شاہد آفریدی کو کسی اور رنگ میں دیکھنا چاہتے تھے۔
شاہد آفریدی کا مزاج گیم چینجنگ تھا۔ وہ جب کریز پر آتے تھے تب مخالف ٹیم میں کھلبلی مچ جاتی تھی کیونکہ اُسے اندازہ ہو جاتا تھا کہ اب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور ایسا ہوا بھی کرتا تھا۔ شاہد آفریدی کا بنیادی کام یہ تھا کہ مخالف ٹیم کے کپتان نے جتنی بھی منصوبہ سازی کی ہے اُسے تہس نہس کر و اور میدان چھوڑ دو۔ جب بیٹنگ سائیڈ پر جمود طاری ہو رہا ہوتا تھا تب شاہد آفریدی کو بھیجا جاتا تھا تاکہ وہ جاکر رن ریٹ تیز کریں، مخالف ٹیم کی ساری منصوبہ سازی بگاڑ دیں۔ وہ ایسا ہی کرتے تھے۔ زیادہ تر میچز میں وکٹ پر اُن کا قیام دس سے پندرہ منٹ تک کے لیے ہوتا تھا مگر اتنی سی مدت میں بھی مخالف ٹیم کی جان پر بنی رہتی تھی۔ باؤلرز پریشان رہتے تھے کہ اپنے آپ کو 'لالہ‘ کی مار سے کیسے بچائیں۔ شاہد آفریدی جب مارنے پر آتے تھے تو دیکھتے کہاں تھے کہ گیند کی لائن اور لینتھ کیا ہے! اُنہیں تو بس مارنے سے غرض ہوتی تھی۔ اِس مزاج کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ رفتہ رفتہ گیم چینجر بنتے چلے گئے۔ وکٹ پر پندرہ منٹ کے قیام میں بھی وہ دو‘ تین چھکوں اور چند چوکوں کی مدد سے پندرہ بیس گیندوں پر چالیس‘ پینتالیس رنز سکور کرکے پویلین لوٹ جاتے تھے اور مخالف ٹیم بگڑے ہوئے رن ریٹ کو روتی رہ جاتی تھی۔ شاہد آفریدی کے بعد اب گیم چینجر کا منصب دو تین کھلاڑیوں نے سنبھالا ہوا ہے۔ شاداب خان بھی کبھی کبھی حیران کر جاتے ہیں۔ آصف علی بھی لمبے چھکے مارنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ حسن علی بالعموم بیٹنگ میں زیادہ نہیں چلتے مگر جب چلتے ہیں تو ایسے چلتے ہیں کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یہی معاملہ عماد وسیم کا ہے۔
کسی بھی ٹیم میں گیم چینجرز کا ہونا غیر معمولی پلس پوائنٹ ہے کیونکہ ایسے کھلاڑی کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ گزشتہ برس ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں آصف علی نے ایک میچ کے دوران ایک ہی اوور میں چار چھکے مار کر افغانستان کو دُھول چٹا دی تھی۔ افغانستان ہی کے خلاف ایک اور میچ میں عماد وسیم نے آخری اوور میں چوکا لگاکر فتح دلائی تھی۔ اب نسیم شاہ نے افغانستان ہی کے خلاف آخری اوور کی پہلی دو گیندوں پر چھکے مار کر دنیائے کرکٹ کو حیران کردیاہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دنیا بھر میں سب سے غیر یقینی ٹیم قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے اور کرتی ہی ہے۔ شاہد آفریدی بھی انتہائی دباؤ کی حالت میں چھکے لگاکر میچ کو اُدھر سے اِدھر کرنے کے ماہر تھے۔ وہ گیم چینجنگ مزاج ہی کے حوالے سے پہچانے جاتے اور یاد کیے جاتے ہیں۔ زندگی کے ہر معاملے میں لوگ اُنہیں یاد رکھتے ہیں جو پوری گیم کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کھیل کا پانسا پلٹ دینے کی صلاحیت رکھنے والوں کو بھلا لوگ کیوں پسند نہ کریں؟ دنیا کے میلے کی ساری رونق اُنہی کے دم سے ہے جو کسی بھی وقت کچھ بھی کرکے سب کو حیران کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فی زمانہ بیشتر شعبے لگی بندھی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں۔ لوگ خطرات مول لیتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ ایسے میں اُن کی گڈی اونچی اڑتی ہے جو معاملات کو بہت تیزی سے پلٹ دیں، نتائج پر خطرناک حد تک اثر انداز ہوں۔
زندگی کی دوڑ میں وہی لوگ جیتتے ہیں جو محض تیز دوڑنا ہی نہ جانتے ہوں بلکہ حیران کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ ایک زمانے سے کرکٹ ٹیموں میں آل راؤنڈرز کی اہمیت رہی ہے۔ آل راؤنڈرز بیٹنگ اور بائولنگ‘ دونوں شعبوں میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے میچ کا پانسا پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وسیم اکرم ضرورت پڑنے پر ٹھیک ٹھاک بیٹنگ بھی کرتے تھے۔ کسی زمانے میں وسیم راجا بھی اچھے آل راؤنڈر تھے۔ شاہد آفریدی بھی قابلِ رشک آل راؤنڈر رہے ہیں۔ فی زمانہ شاداب خان اور عماد وسیم اچھے آل راؤنڈر ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر شعبے میں اُنہی کو پسند کیا جاتا ہے جو اپنی موجودگی پوری شدت سے محسوس کرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ بیشتر اداروں میں اکثریت اُن کی ہوتی ہے جو لگے بندھے انداز سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور آخری سانس تک ایسے ہی رہتے ہیں۔ اُن کی غیر موجودگی اُن کے قریبی لوگوں کے سوا کوئی محسوس نہیں کرتا۔ بات اِتنی سی ہے کہ وہ اپنی غیر موجودگی کو محسوس کرانے کے فراق میں بھی نہیں رہتے۔ صرف اُس کی موجودگی و غیر موجودگی محسوس کی جاتی ہے جو اس حوالے سے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے۔ شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی کم ہی آتے ہیں جو روایتی تکنیک وغیرہ لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیتے ہوں اور اپنی مرضی کے مطابق کھیل کر دنیا کو حیران کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔
عمل کی دنیا میں گیم چینجنگ مزاج کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ ہر کاروباری ادارہ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو مروّج تکنیک سے ہٹ کر بہت کچھ کرنے کی صلاحیت و سکت رکھتے ہوں۔ سوال صرف مزاج کا ہے۔ گارمنٹس انڈسٹری میں لگے بندھے انداز سے کام کرنے والے کاری گروں کی کمی نہیں۔ جو بھیڑ سے ہٹ کر کھڑا ہوتا ہے وہ نئے ڈیزائنز کے بارے میں سوچتا ہے اور ڈیزائنر بن جاتا ہے۔ ہر شعبے میں نام وہی کماتے ہیں جو گیم چینجنگ مزاج رکھتے ہیں۔ جو پورے شعبے کو بدل ڈالیں وہی یاد رکھے جاتے ہیں۔ امیتابھ بچن نے اینگری ینگ مین کے امیج کے ساتھ اداکاری کی اور بھارتی فلموں کا پورا مزاج ہی بدل گیا۔ اصل گیم چینجر سلیم خان اور جاوید اختر تھے۔ اِن دونوں نے مل کر امیتابھ بچن کے لیے اینگری ینگ مین کا امیج تیار کیا اور اِس امیج کو تقویت بہم پہنچانے والی فلمیں لکھیں۔
آج کی دنیا میں مسابقت بہت بڑھ گئی ہے۔ گزارے کی سطح پر جینا اب کوئی کمال نہیں۔ اِتنا کام تو کسی کو بھی مل ہی جاتا ہے کہ گزارہ ہو جائے۔ سوال عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ کر دکھانے کا ہے۔ جو ایسا کرنے کا ارادہ کرے وہی کامیاب رہتا ہے۔ عام ڈگر سے ہٹنے کا مطلب ہے کچھ ایسا کرنا جو پورے کھیل کو پلٹ دے یا پھر اچانک اِتنی تبدیلی لے آئے کہ معاملات پہلے جیسے نہ رہیں۔ کھیل کو پلٹنے کی صلاحیت رکھنے والوں کو لوگ تیزی سے پہچانتے ہیں اور قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں نام کمانے کی بنیادی شرط یہی ہے کہ انسان دوسروں سے ہٹ کر کچھ کر دکھائے، بھیڑ سے ہٹ کر کھڑا ہو جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved