یادش بخیر مشاہد حسین سید سیاسی اُفق پر دکھائی نہیں دے رہے۔ ان دنوں وہ کہاں ہیں؟
یہ محض ایک سوال نہیں‘ نون لیگ کی سیاست کا ایک راز ہے۔ سیاسی جماعتیں اقوام کی طرح ہوتی ہیں۔ صبح و شام ان کی تقدیریں بدلتی ہیں۔ غفلت کا ایک دن ممکن ہے کہ آپ کی منزل‘ ہمیشہ کے لیے کھوٹی کر د ے۔ آپ سیاست کے قافلے سے بچھڑ جائیں۔ قوموں کی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی افرادِ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ ذہنی مشقت اٹھاتے اور پارٹی کے لیے نظریاتی اساسات فراہم کرتے ہیں۔ کچھ میدانِ عمل میں بروئے کار آتے اور قصبوں اور شہروں میں عوام کی آواز بن جاتے ہیں۔ کچھ دام و درہم کی فراہمی کا ذمہ لے لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ سب اہم ہوتے ہیں۔
1996-97ء کی مسلم لیگ کو ان باتوں کا بہتر ادراک تھا۔ یہی ماہ و سال ہیں جب مشاہد حسین سید مسلم لیگ کے اُفق پر نمایاں ہوئے۔ صحافت اور بین الاقوامی تعلقات کا قابلِ رشک پس منظر اور اس پہ مستزاد ان کی ابلاغی صلاحیت نے ان کو پارٹی میں ایک ممتاز مقام دلا دیا۔ انہوں نے مخالفین کے کڑاکے نکال دیے۔ پہلی بار مسلم لیگ ایک جاندار بیانیے اور حکمتِ عملی کے ساتھ سامنے آئی۔ اس سے پہلے یہ خدمت حسین حقانی بھی سر انجام دے چکے تھے مگر وہ اسلامی جمہوری اتحاد کے لیے تھی‘ مسلم لیگ جس کی سب سے اہم مگر ایک رکن جماعت تھی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف موجود مذہبی بیانیے کی تشکیلِ نوکی اور اسے کامیاب ابلاغی حکمتِ عملی کے ساتھ مقبول بنا دیا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف غیر اخلاقی ابلاغی مہم بھی ان کے ذرخیز دماغ کی اختراع تھی۔ لوگ آج اس کا تنہا ذمہ دار مسلم لیگ کو ٹھہرا تے ہیں‘ در آں حالیکہ اس کی ذمہ داری میں وہ سب جماعتیں شریک ہیں جو اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھیں۔
1993ء کے انتخابات کے بعد اتحادی سیاست کم و بیش ختم ہو گئی۔ مسلم لیگ نے تنہا پرواز کا فیصلہ کیا۔ بعض جماعتیں اس کے ساتھ تھیں مگر ''گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں‘‘ کے مصداق۔ مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی کے خلاف کرپشن کا بیانیہ بنایا۔ اس کو عوامی بیانیہ بنانے میں مرکزی کردار مشاہد صاحب کا تھا۔ 1997ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو جو غیرمعمولی کامیابی ملی‘ اس میں پارٹی کی ابلاغی حکمتِ عملی کو مرکزیت حاصل رہی۔ 1999ء میں مارشل لا نافذ ہو گیا۔ مشاہد حسین سید کچھ عرصہ نظر بند رہے اور پھر (ق) لیگ کو پیارے ہوگئے۔ طویل عرصہ چودھری شجاعت حسین صاحب کے دستِ راست رہے۔ چند سال پہلے نون لیگ میں واپس آگئے۔ پارٹی نے سینیٹر بنا دیا۔ نواز شریف صاحب کے ساتھ ان کی ہجر و وصال کی ایک داستان ہے لیکن وہ اس وقت میرا موضوع نہیں۔ تاریخ کے اس باب سے دانستہ صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ میں اپنی بات کو بنیادی سوال تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔
نون لیگ اس وقت قلتِ دانش (Intellectual deficit) کا شکار ہے۔ اس کے پاس کوئی ایسا بیانیہ نہیں جسے وہ عوام کے سامنے رکھ سکے۔ 2017ء میں اقتدار سے رخصتی کے بعد‘ اس کا ایک بیانیہ تھا: ووٹ کوعزت دو۔ یہ بیانیہ ہر طرف زیرِ بحث تھا۔ کسی سیاسی جماعت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس کا بیانیہ‘ حمایت اور مخالفت سے قطع نظر ہر مجلس میں موضوعِ سخن ہو۔ اپریل سے مگر نون لیگ اس معاملے میں تہی دامنی کا شکار ہے۔ بیانیہ اب عمران خان کے پاس ہے اور اس کے ساتھ ایک کامیاب ابلاغی حکمتِ عملی بھی۔ اس موقع پر نون لیگ کو مشاہد حسین سید کی شدید ضرورت تھی مگر وہ کہیں نہیں دکھائی دے رہے۔ آخر وہ ہیں کہاں؟
عمران خان صاحب کے عہدِ اقتدار میں نون لیگ شدید مشکلات کا شکار رہی۔ چند لوگ ہمیں چومکھی جنگ لڑتے دکھائی دیے جیسے مریم اورنگزیب صاحبہ۔ ایک طرف وہ عدالتوں میں مریم نواز صاحبہ کے ساتھ کھڑی ہوتیں اور دوسری طرف ابلاغی محاذ پر سر بکف دکھائی دیتیں۔ اس سارے عرصے میں مشاہد حسین سید کہیں نظر نہیں آئے۔ ادھر اُدھر سے سنتے رہے کہ پاک چین دوستی کو مزید اونچا اورگہرا کرنے میں مصروف ہیں۔ میں یہ نہیں جان سکا کہ جو دوستی پہلے ہی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے‘ اس کی اونچائی یا گہرائی میں وہ مزید کیا اضافہ کر سکیں گے؟ اس مرحلے پر نون لیگ کو ان کی ضرورت تھی اور وہ جماعت کو میسر نہیں تھے۔
نون لیگ انہیں ایوانِ بالا میں کیوں لائی تھی؟ میرے علم میں نہیں کہ انہوں نے سینیٹ میںکبھی نون لیگ کا موقف اس انداز میں پیش کیا ہو کہ اس کی صدائے بازگشت ایوان سے باہر کہیں سنی گئی ہو۔ مشاہد اللہ خان جب تک زندہ رہے‘ سینیٹ میں ان کی تقریروں کی گونج پورے ملک میں سنائی دیتی رہی۔ ان کا عالم تو یہ تھا کہ 'میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح‘۔ مشاہد حسین سید کی کھٹک تو دور کی بات‘ ان کی آہٹ بھی کہیں سنائی نہ دی۔
مصدق ملک یا عرفان صدیقی صاحب جیسے چند نام ہیں جو سینیٹ اور میڈیا میں پارٹی کا موقف گرم جوشی کے ساتھ پیش کرتے نظر آئے۔ مشاہد صاحب نہ سینیٹ میں دکھائی دیے نہ کسی ٹی وی سکرین پر۔ اگر کبھی ایک آدھ دفعہ نظر آئے بھی توکسی میزبان سے ذاتی تعلق کی وجہ سے۔ اگر وہ سینیٹ اور میڈیا میں نون لیگ کا مقدمہ لڑتے تو پارٹی کو بہت فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ مریم اورنگزیب صاحبہ کا بوجھ بھی ہلکا ہوتا۔ انہیں مگر سید صاحب کی طرف سے کوئی کمک نہ مل سکی۔ اگر انہوں نے نون لیگ کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرنا تھا تو انہیں سینیٹر کیوں بنایا گیا؟
یہی سوال اس راز سے پردہ اٹھاتا ہے جس کا تعلق سیاسی جماعتوں‘ بالخصوص نون لیگ کی کارکردگی سے ہے۔ ہمارے ہاں پارٹی کے سیاسی رہنما پارٹی کی ضرورت کے بجائے شخصی وفاداری یا پسند ناپسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہی لوگوں کو پارٹی منصب دیے جاتے ہیں یا پارلیمنٹ میں نمائندگی کے لیے چنا جاتا ہے جو لیڈر کی ذات سے وفا دار رہے۔ پارٹی کو کیسے باصلاحیت افراد کی ضرورت ہے یا کسی کی پارٹی کے لیے کیا خدمات ہیں‘ اسے کم ہی پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔
آج نون لیگ کوایک بیانیے کی اشد ضرورت ہے۔ دانش کا افلاس بحرانی صورت اختیار کر چکا۔ ایک طرف عالم یہ ہے کہ عمران خان صاحب چائے میں پراٹھا ڈبو کر کھالیں تو اسے بیانیہ بنا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف کارکردگی‘ تاریخ اور ان کے ساتھ‘ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف انتقامی سیاست کی صورت میں بہت سے اجزا بکھرے پڑے ہیں اور انہیں سمیٹ کر اسے ایک بیانیے میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ ستم در ستم کہ پارٹی کے پاس مشاہد حسین جیسے لوگ موجود ہیں مگرپارٹی ان کی صلاحیتوں سے محروم ہے۔ نون لیگ کے پاس اور بھی باصلاحیت افراد موجود ہیں۔ وہ ان کی مدد سے ایک بیانیہ مرتب کر سکتی ہے۔ ایسے لوگ روایتی اہلِ سیاست کی طرح‘ اپنے اوصاف بقلم خود بیان نہیں کرتے۔ انہیں تلاش کرنا اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں میں سے اگر کوئی مشاہد حسین سید جیسا نمایاں ہو گیا تو اس کے علم اور تجربے سے فائدہ اٹھانا پارٹی قیادت کا کام ہے۔
وزیراعظم کی ذمہ داریاں کم نہیں ہیں۔ اس پر سیلاب کی تباہ کاریاں جنہوں نے ان کے شب و روز کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اس پس منظر میں یہ نون لیگ کے مفاد میں ہے کہ مشاہد حسین سید بروئے کار آئیں۔ پاک چین دوستی سے زیادہ‘ نون لیگ کو ان کی ضرورت ہے۔ وہ مگر کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ میں نہیں جانتا کہ اس کا سبب پارٹی ہے یا وہ خود۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved