ہمارے ہاں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا رواج کم ہی رہا ہے۔ ہم نے جب بھی کوئی نقصان اٹھایا یا کسی معاملے میں شکست کھائی تو عارضی طور پر بڑے بڑے دعوے کیے کہ اب ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے اور انہیں دہرائیں گے نہیں، لیکن ماضی گواہ ہے کہ آج تک ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی خامیاں اور کوتاہیاں دور کرنے کے بجائے دوبارہ نہ صرف انہیں دہراتے ہیں بلکہ زیادہ سنگین بنا دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپنی آزادی کے پچھتر برس بعد بھی ہم ایک ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکے۔ ایک طرف پاکستانی عوام جشن آزادی کی پلاٹینم جوبلی کی تقریبات منا رہے ہیں تو دوسری جانب تاحال ہمارے بعض سیاست دان آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ کہنے کو تو ہماری تاریخ لازوال قربانیوں سے بھری پڑی ہے، کئی تاریخی واقعات اس بات کی گواہی بھی دیتے ہیں لیکن تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی ضد، انا پرستی، ذاتی مفادات اور سیاست چمکانے کے لیے اکثر و بیشتر قوم کے اجتماعی مفاد، ترجیحات اور روایات کو بھی پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ اپنے ایک پائو گوشت کے لیے ہم دوسرے کا پورا اونٹ ہی ذبح کر دیتے ہیں۔
چند ہفتے پہلے تک ہمارے بعض سیاسی حلقے اپنے مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے سری لنکا کے معاشی بحران کا بہت زیادہ حوالہ دے رہے تھے اور بار بار کہا جا رہا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا تو ملک ڈیفالٹ کر جائے گا، بھوک و افلاس سے ملک میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی اور پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف سے قسط نہ ملی تو ہماری معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا اور اگر قرضہ مل گیا تو پھر امریکی ڈالر دھڑام سے نیچے گر جائے گا، پاکستانی روپیہ کسی جنگی جہاز کی طرح ایک دم اونچی پرواز کرنے لگے گا، یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ آئی ایم ایف کی قسط کئی ہفتوں بلکہ مہینوں کی تاخیر سے ملی مگر ہمارے حالات خانہ جنگی کی طرف گئے اور نہ ہی بھوک وافلاس نے یہاں ڈیرے ڈالے۔ دوسری طرف ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب قرضہ مل گیا اور رقم ہمارے سرکاری خزانے میں آ گئی تو بھی ہماری کرنسی کی قدر بحال نہ ہو سکی اور ابھی تک یہ زوال کا شکار ہی چلی آ رہی ہے۔ دوسری جانب سری لنکا کے حالات و واقعات کاجائزہ لیا جائے تو جو قوم ڈیفالٹ کر چکی تھی، جہاں مہنگائی اور بیروزگاری آسمان پر پہنچ چکی تھی، جہاں آج بھی پٹرولیم مصنوعات کی شدید قلت پائی جاتی ہے، جہاں غربت بہت بڑھ چکی تھی، جہاں لوگ ایک وقت کی خوراک کے لیے لوٹ مار پر اتر آئے تھے، اس قوم کی معیشت تیزی سے سنبھلنے لگی ہے، وہاں عوام کے انفرادی حالات تو شاید آج بھی کٹھن ہیں لیکن قومی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ سری لنکن قیادت نے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے تو گھٹنے ٹیک دیے تھے اور ڈیفالٹ کا اعلان کر دیا تھا لیکن اب وہاں روز بروز حالات بہتر ہو رہے ہیں، معیشت سمیت مختلف بحرانوں میں ٹھہرائو آتا جا رہا ہے اور وہ وقت بھی نزدیک نظر آتا ہے جب وہ اپنے مسائل پرقابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستان کے حالات کسی بھی شعبے میں اتنے خراب نہیں لیکن ہم بدعنوانی، جھوٹ، انا پرستی، ذاتی مفادات اور وقتی سیاسی مقاصد کے بھنور میں کچھ اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ آج اپنے چھوٹے سے مفادات کے لیے خاکم بدہن ملک و قوم کو نقصان پہنچانے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔
چند دن پہلے جب ہماری معاشی کشتی ہچکولے کھا رہی تھی اور آئی ایم ایف کی قسط ملنے کی امید پیدا ہوئی تھی تو ایک سیاسی جماعت کے کچھ عہدیداروں کی جانب سے حکومت کے نام ایک ایسا خط لکھاگیا جس کا بظاہر مقصد آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں رخنہ ڈالنا نظر آتا تھا۔ خیر وہ مبینہ سازش ناکام ہوئی اور عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو قرضے کی قسط جاری کر دی لیکن زیادہ افسوس ناک پہلو یہ تھاکہ مبینہ سازش کے کردار اپنے کیے پر پچھتانے اور قوم سے معافی مانگنے کے بجائے آج بھی اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ادھر عالمی ادارے سے قرض کے لیے جب مذاکرات ہو رہے تھے تو ملک میں تاریخ کے بدترین سیلاب نے تباہی مچا رکھی تھی۔ ہزاروں قیمتی انسانی جانیں اس سیلاب میں ضائع ہوئیں، ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، کروڑوں افراد بے گھر ہوئے، ملک کا تقریباً نصف انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا۔ دو صوبوں کا کئی روز تک ملک بھر سے زمینی رابطہ منقطع رہا اور ابھی تک کئی علاقوں میں آمد و رفت مکمل معطل ہے۔ خوراک اور ادویات نہ ملنے کے سبب کئی بچے و بزرگ تڑپ تڑپ کر جان سے گئے، ان حالات میں ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ہم تمام تر سیاسی سرگرمیاں معطل کر دیں، سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر متحد ہو جائیں اور اپنی تمام تر توجہ اور توانائیاں متاثرینِ سیلاب کی بحالی پر مرکوز کر دیں، اپنے پاس جو کچھ بھی ہے‘ وہ متاثرین کے لیے وقف کر دیں اور عالمی سطح پر بھی مصیبت میں گھرے اپنے بہن بھائیوں کے لیے امداد کے حصول کے لیے اجتماعی کوششیں کریں لیکن حقائق اس کے برعکس اور انتہائی تلخ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم آج بھی اپنی سیاست میں لگے ہوئے ہیں، ذاتی مفادات کے لیے قومی ضروریات کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اپنے وقتی فائدے اور سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے کے لیے اجتماعی مفادات کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔
چند روز قبل‘ جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل متاثرینِ سیلاب کی امداد و بحالی کے کاموں کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان پہنچے تو اس موقع پر بھی ایک سازش سامنے آئی جس کا بظاہر مقصد متاثرینِ سیلاب کیلئے عالمی امداد کو رکوانا اور حکومت کو ناکام ثابت کرنا تھا۔ دکان پر بکنے والے آٹے کی ایک بوری کی تصویر اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس کی آڑ میں پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی امدادی سامان پاکستان میں دکانوں پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس تصویر کو شیئر کر کے چند گھنٹوں کے اندر اندر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو 600 سے زائد مرتبہ ٹیگ کیا گیا اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان کو امداد نہ دی جائے کیونکہ امداد متاثرین کو ملنے کے بجائے دکانوں پر فروخت ہو رہی ہے۔ آٹے کی بوری کی یہ تصویر‘ جس پر ''ناٹ فار سیل‘‘ اور ''یو کے ایڈ‘‘ کے الفاظ نمایاں ہیں، درحقیقت 2014ء کی ہے اور یہ تصویر بھارت میں لی گئی تھی۔ زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ برطانوی امداد پاکستان میں اتوار کے روز سے پہنچنا شروع ہوئی جبکہ یہ تصویر اس سے پہلے یعنی ہفتے کے روز سے وائرل تھی۔ ہمارے کئی سادہ لوح دوست احباب بھی بنا تحقیق کیے وٹس ایپ گروپوں اور سوشل میڈیا پر یہ تصویر شیئر کر رہے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ہم اکثر ایسی چیزیں بنا تحقیق کے پھیلا دیتے ہیں اور بعد میں اس کا خمیازہ ملک و قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
سری لنکا کے معاشی حالات ہم سے بہت زیادہ خراب ہوں گے۔ وہاں مہنگائی، بیروزگاری اورکرپشن بھی بہت زیادہ ہو گی لیکن شاید وہ اخلاقی طور پر اتنے زوال کا شکار نہیں ہے۔ بحیثیت قوم ان کی سوچ ہم سے کہیں بہتر ہے۔ اسی لیے ڈیفالٹ کے باوجود‘ آج ان کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے، وہاں حالات آہستہ آہستہ معمول پر آنے لگے ہیں جبکہ ہم ڈالر ملنے کے باوجود روپے کی قدر بحال نہیں کر سکے۔
کرکٹ کے ٹی ٹونٹی ایشیا کپ کی مثال ہی لے لیں‘ پاکستانی ٹیم کے فیورٹ ہونے کے باوجود ہم دوستیاں نبھانے اور پسند و ناپسند کے چکر سے نہیں نکل سکے جبکہ سری لنکن ٹیم متحد ہوکر قومی جذبے سے آگے بڑھتی رہی اور ایونٹ میں مسلسل دو بار گرین شرٹس کو شکست سے دوچار کر کے اس نے تاج اپنے سر سجا لیا۔ ہم جو کچھ عرصہ پہلے تک سری لنکا کو ''عبرت کا نشان‘‘ سمجھتے تھے‘ حقیقت میں اب بھی اس سے بہت پیچھے ہیں۔ حکومت اور قومی اداروں کو چاہئے کہ متاثرینِ سیلاب کی امداد رکوانے کی سازش میں ملوث کرداروں کو بے نقاب کر کے انہیں قانون کے مطابق سخت سزا دیں تاکہ آئندہ ایسی گھنائونی سازش کی کسی کو جرأت نہ ہو سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved