تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     14-09-2022

اخلاقی اقدار اور قانون سازی

اسلام عفت وعصمت کا دین ہے اور اپنے ماننے والوں کو پاکیزگی کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعلیٰ کی آیات 14 تا 15 میں ارشاد فرمایا: ''یقینا کامیاب ہو گیا (وہ) جو پاک ہو گیااور اس نے یاد کیا اپنے رب کا نام‘ پس نماز پڑھی‘‘۔ تزکیہ نفس کی اہمیت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃاللیل اور سورہ شمس میں بھی بڑے احسن انداز میں اجاگر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شمس کی آیات 7 سے 9میں اس بات کو واضح فرماتے ہیں کہ تزکیہ کرنے والے پاک ہوں گے اور اپنے نفس کو آلودگی یا ناپاکی کے راستے پر چلانے والے ناکام ہوں گے۔ ارشاد ہوا: ''اور (انسانی) نفس کی (قسم) اور (اس کی) جس نے ٹھیک کیا ہے اُسے۔ پھر اس کے دل میں ڈال دی اُس کی نافرمانی اور اُس کی پرہیز گاری (کی پہچان)۔ یقینا کامیاب ہو گیا جس نے پاک کر لیا اُسے اور یقینا وہ ناکام ہو ا جس نے اس سے ہاتھ ملادیا‘‘۔
مذکورہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نفس کو پاکیزہ بنانا اللہ تبارک وتعالیٰ کو پسند ہے اوررب تعالیٰ اس کی آلودگی پر ناپسندیدگی کااظہار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تزکیہ اور طہارت کو زندگی کے ہر شعبے میں اہمیت دی۔ پاکدامنی، عفت وعصمت کو مومن کی پہچان قرار دیا اور سورہ مومنون میں فردوسِ بریں کے وارثین کی جہاں دیگر صفات کا ذکر ہوا‘ وہیں اپنی پاکدامنی کا تحفظ کرنے کے حوالے سے بھی ان کی خصوصیت کا ذکر ہوا۔ سورہ مومنون کی آیات 5 تا 6 میں ارشاد ہوا: ''اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں مگر اپنی بیویوں پر یا جن (کنیزوں) کے مالک بنے ان کے دائیں ہاتھ‘ تو بلاشبہ وہ نہیں ہیں ملامت کیے ہوئے‘‘۔
مذکورہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کو اپنی بیویوں اور ملکیتی لونڈیوں کے علاوہ کسی سے اپنی خواہش کو پورا نہیں کرنا چاہیے۔ جو شخص اس کے علاوہ کسی اور راستے کو تلاش کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرنے والا ہے۔ چنانچہ سورہ مومنون ہی کی آیت نمبر 7میں ایسے لوگوں کے بارے میں کہا گیا: '' پھر جو تلاش کرے اس کے علاوہ (کوئی اور طریقہ) تو وہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے زناکاری کو انتہائی نا پسند کیا ہے اور اہلِ ایمان کو اس برائی کا ارتکاب کرنا تو بڑی دور کی بات‘ زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم مت قریب جاؤ زناکے‘ بے شک (یہ) بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور میں ان لوگوں کو دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے جو اہلِ ایمان میں فحاشی اور بے حیائی کو پھیلانا پسند کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بیشک وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں کہ پھیلے بے حیائی ان لوگوں میں جو ایمان لائے‘ ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں‘‘۔
دورِ حاضر میں اس بات کا مشاہدہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانوں کے اخلاقی معیار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اہلِ مغرب نے مذہبی حوالے سے انجیل کی رہنمائی سے لاتعلقی اختیار کرکے اپنے معاملات کو پارلیمان کے سپرد کر دیا ہے اور پارلیمان کو لا محدود قانون سازی کا اختیار دے کر انسانوں کو قانون سازی کا منبع قرار دے دیا ہے۔ اس کے نتائج مغربی ممالک میں انتہائی ہولناک نکلے ہیں اور فحاشی اور عریانی کے حوالے سے ان کے موجودہ تصورات مذہبی تعلیمات سے یکسر جدا ہیں۔ نکاح سے بالا تر ہو کر جنسی تعلقات استوار کرنا مغرب میں ایک عام بات ہے۔ بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ اور نامحرموں سے شناسائی وہاں پر معمول کی بات ہے۔ بدنصیبی سے مغربی اخلاقی معیار اس حد تک گر چکا ہے کہ انہوں نے جنسی لذت کے لیے فقط نکاح کے بندھن ہی کو غیر اہم نہیں سمجھا بلکہ ہم جنس پرستی کی لعنت کو بھی قانونی طور پر قبول کر لیا ہے؛ چنانچہ بہت سے مغربی ممالک میں مرد کا مرد اور عورت کا عورت سے تعلق قانونی اعتبار سے جائز قرار دے دیا گیا ہے اور اس حوالے سے کی جانے والی کسی بھی تنقید کو انسانی حقوق پر حملہ قرار دیا جاتا ہے۔
الحمدللہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جس میں اس قسم کے اقدامات کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض عناصر خفیہ طریقے سے پاکستان کے آئین اور قانون میں کچھ ایسی رخنہ اندازیاں کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جن کا مقصد مغربی ممالک کو خوش کرنا اور ان سے ذاتی اور مالی مفادات کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بیٹھے کئی لوگ ان سازشوں سے پوری طرح باخبر نہیں ہو پاتے اورکئی مرتبہ ایسی چیزیں قانون کا حصہ بن جاتی ہیں جن کا ہمارے دین اور اخلاقی اقدار سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ٹرانس جینڈربل 2018ء پاکستان میں نافذ ہو گیا جو بظاہر تو ان لوگوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن تھا جو مخنث یعنی نہ تو مکمل مرد ہوتے ہیں نہ ہی مکمل عورتیں اور جن کو ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا کہا جاتا ہے۔ یقینا کسی بھی انسان کی کمزوری کی وجہ سے اس سے نفرت کرنا یا اس کو حقیر جاننا درست نہیں ہے اور یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی کمزوری کے شکار انسان کی بحالی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ لیکن بدنصیبی سے اس بل کی آڑ میں ملک میں غیر اخلاقی معاملات کو فروغ دینے کا راستہ بھی واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ اس بل میں‘ اگر کوئی بھی مرد اپنی خواہش سے عورت بننا چاہے تو اس کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے اور کوئی بھی عورت اگر اپنی خواہش سے مرد بننا چاہے تو اس کے لیے بھی راستوں کو کھلا رکھا گیا ہے۔
حالیہ ایام میں سینیٹر مشتاق احمد خان نے ٹرانس جینڈر بل کے حوالے سے سینیٹ میں آواز اُٹھائی ہے۔ اس آواز نے بہت سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور یہ بات سمجھ میں آئی کہ اس بل کی آڑ میں ہم جنس پرستی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم جنس پرستی ایک بہت بڑی لعنت ہے اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے لوگ اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی پکڑ اور اس کے عذاب کا نشانہ بنے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر قومِ لوط کے عمل شنیع کا ذکر بڑی وضاحت سے کیا ہے جن میں سے ایک اہم مقام سورہ ہود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ہود کی آیات 77تا 83میں قومِ لوط پر آنے والے عذاب کی کیفیت بیان فرماتے ہیں: ''اور جب آئے ہمارے قاصد (فرشتے) لوط کے پاس‘ وہ مغموم ہوا ان کی وجہ سے اور تنگ ہوا ان کی وجہ سے (اپنے) دل میں اور کہا (کہ) یہ دن بہت سخت ہے۔ اور آئے اس کے پاس اس کی قوم (کے لوگ) (گویا کہ) وہ سختی سے ہانکے جا رہے تھے اس کی طرف اور پہلے سے ہی برے کام کیا کرتے تھے۔ اس (حضرت لوط ) نے کہا: اے میری قوم! یہ میری (قوم کی) بیٹیاں ہیں وہ زیادہ پاکیزہ ہیں تمہارے لیے تو اللہ سے ڈرو اور نہ رسوا کرو مجھے میرے مہمانوں میں‘ کیا نہیں ہے تم میں کوئی بھلا آدمی۔ انہوں نے کہا: بلاشبہ یقینا تو جان چکا ہے (کہ) نہیں ہے ہمارے لیے تیری (قوم کی) بیٹیوں میں کوئی حق (رغبت) اور بے شک تو یقینا جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اس نے کہا: کاش! واقعی ہوتی میرے لیے تمہارے مقابلے کی طاقت یا میں پناہ لیتا کسی مضبوط سہارے کی طرف۔ انہوں (فرشتوں)نے کہا: اے لوط! بے شک ہم قاصد ہیں تیرے رب کے‘ ہرگز نہیں وہ پہنچ سکیں گے آپ تک‘ سو لے چل اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں اور نہ پیچھے مڑ کر دیکھے تم میں سے کوئی ایک سوائے تیری بیوی کے، بے شک یہ (یقینی بات ہے کہ) پہنچنے والا ہے اسے (وہ عذاب) جو پہنچے گا انہیں‘ بے شک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے‘ کیا نہیں ہے صبح بالکل قریب؟ پھر جب آیا ہمارا حکم تو ہم نے کر دیا اس کے اوپر والے حصے کو اس کے نیچے والا اور ہم نے برسائے اس (بستی) پر پتھر کھنگر (کی قسم) سے تہہ بہ تہہ۔ (جو) نشان زدہ تھے تیرے رب کے ہاں سے اور نہیں وہ (بستی ان ) ظالموں سے ہرگز دور‘‘۔
قومِ لوط کے اس واقعے سے انسانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ غیر فطری اعمال پر کس قدر ناراض ہوتے اور کس انداز میں اپنے عذاب کا نزول فرماتے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس میں کسی ایسے قانون کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں جس سے معاشرے کی اخلاقی اقدار متاثر ہوں اور کتاب وسنت کی تعلیمات پر حرف آئے۔ سینیٹر مشتاق صاحب نے یقینا درست نشاندہی کی ہے اور اس حوالے سے ملک کی تمام مذہبی جماعتوں کو مشترکہ طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ملکِ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک پاکیزہ ریاست کے طور پر برقرار رکھا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو وطن عزیز کو ایک پاک و صاف ملک کے طور پر برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے‘ آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved