''عمران خان سیاست دان نہیں ہیں۔ خان تو مروجہ سیاست کے خلاف اعلانِ بغاوت کا نام ہے جو کرپشن سے آلودہ ہو چکی: ایک سادہ منش آدمی جو سیاست کی اصلاح چاہتا ہے۔ اس کا سیاست کے روایتی داؤ پیچ سے کیا کام‘‘۔
یہ ہے وہ مقدمہ جو خان صاحب کے سادہ لوح پیروکاروں نے قائم کر رکھا ہے۔ اس مقدمے کو سچ مان کر وہ لوگ بھی خان صاحب کی طرف متوجہ ہوئے جنہیں روایتی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس میں وہ ڈگری یافتہ نوجوان طبقہ بھی شامل ہے‘ جس کا خیال ہے کہ سیاست ایک سادہ عمل ہے‘ جس کی اصلاح کے لیے یہی بہت ہے کہ حکومت کی باگ کسی دیانت دار کے ہاتھوں میں دے دی جائے۔ یہ مقدمہ کتنا درست ہے‘ آج اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
سیاست کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں‘ یہ وہ عمل ہے جس کا تعلق ایک معاشرے کے سیاسی نظم سے ہے۔ اسے ہم ریاست کہتے ہیں۔ سیاست‘ ریاست کی صورت گری اور اس کے روز مرہ امور کی تنظیم ہے۔ اس سے سیاسی نظام وجود میں آتا ہے۔ اچھا سیاست دان وہی ہے جو سیاسی نظام کو سمجھتا ہے۔ اس کی خوبیوں سے واقف ہے اور اس کی کمزوریوں کو بھی جانتا ہے۔ اسے جب اقتدار ملتا ہے تو خوبیوں کو کام میں لاتا اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی نظر ان تاریخی تجربات پر بھی ہوتی ہے جو نظمِ سیاسی کے باب میں کیے گئے۔
سیاست کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق 'اقتدار کی سیاست‘ (Power Politics) سے ہے۔ یہ اُس عمل کا فہم ہے جس کے تحت کسی ملک میں اقتدار تک رسائی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ملک میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ وہاں وہی اقتدار تک پہنچ سکتا ہے جو حلقہ ہائے انتخاب میں کامیاب رہتا اور مقابلتاًزیادہ نشستیں حاصل کر لیتا ہے۔ وہ حلقۂ انتخاب کے سیاسی حقائق کی بنیاد پر ایک ایسی حکمتِ عملی اختیار کرتا ہے جس سے‘ انتخابی کامیابی سہل ہو جا ئے۔ جہاں پارلیمانی نظام نہیں ہے‘ وہاں سیاسی حکمتِ عملی مختلف ہوگی۔
جہاں تک اقتدار کی سیاست کا تعلق ہے‘ عمران خان صاحب نے اس میں پوری مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے سیاسی بندو بست کے ان تمام گوشوں کو اچھی طرح سمجھا جن تک رسائی سے کوئی اقتدار تک پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے ان سب پر کام کیا اور اپنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے‘ منصبِ اقتدار تک پہنچ گئے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو وہ بلاشبہ ایک سیاست دان ہیں بلکہ دوسروں سے بڑھ کر اس کے ماہر ثابت ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اقتدار کیسے ملتا ہے؟ ایک تو یہ کہ آپ کے پاس ایک پاپولر بیانیہ ہو۔ اس بیانیے کے چند اجزائے ترکیبی ہیں۔ جیسے مذہب (عصر ی اصطلاح میں مذہبی ٹچ)‘ نیشنل ازم‘ امریکہ کی مخالفت‘ کرپشن سے نفرت‘ بھارت کی مخالفت۔ اقتدار کے متمنی‘ ان اجزا کو حسبِ ضرورت اپنے بیانیے کا حصہ بناتے رہے ہیں۔ جیسے قومی اتحاد اور اسلامی جمہوری اتحاد نے مذہب کو کامیابی سے استعمال کیا۔ متحدہ مجلسِ عمل نے مذہب اور اینٹی امریکن ازم کو جمع کیا۔
عمران خان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان سب اجزائے ترکیبی کو ملا کر ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا ہے جس میں متضاد عوامل بھی باہم متحد دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے مذہب اور لبرل ازم۔ ریاستِ مدینہ اور چینی ریاست۔ اسلام اور مغرب۔ تصوف اور توہینِ آدمیت۔ انہوں نے اینٹی امریکن ازم اور قوم پرستی کو بھی کمال مہارت کے ساتھ اس بیانیے کا حصہ بنا دیا۔ اس کے ساتھ کامیاب ابلاغی مہم سے انہوں نے خود کو ایک اوتار کا روپ دے دیا۔ یہ شخصی حصار اتنا توانا تھا کہ اس نے متاثرین کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیا۔ اس کے بعد سوال کا تو امکان باقی نہیں رہا‘ صرف توجیہہ کا راستہ کھلا ہے۔ مذہب اور سیاست میں کلٹ اسی طرح وجود میں آتے ہیں۔
جن کا خیال ہے کہ خان صاحب کے حلقۂ دام میں رہتے ہوئے بھی وہ ذہنی طور پرآزاد ہیں‘ انہوں نے اپنے اطمینان کے لیے تنقید کے بجائے توجیہہ کا راستہ اختیار کیا۔ اب ان کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ خان صاحب کے فرمودات کی تائید میں دلائل تراشیں۔ اگر وہ ایک وقت میں کسی شخصیت کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جمہوریت پسند قرار دیں تو وہ اس مقدمے کو ثابت کرنے میں لگ جائیں۔ دوسرے وقت میں وہ اسے میر جعفر بنا دیں تو وہ اسے کلمہ حق ثابت کر نے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔
بیانیے کے سا تھ‘ پاکستان میں اقتدار تک پہنچنے کے لیے‘ مزید دو عوامل اہم تر ہیں۔ ایک ان لوگوں کو ایک چھتری تلے جمع کرنا جو اپنا حلقۂ انتخاب رکھتے اور الیکشن میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ وہ کس شہرت کے حامل ہیں۔ انہیں ہم الیکٹ ایبلز کہتے ہیں۔ دوسرا عامل اس ریاستی بندوبست کے ساتھ ساز باز اور خفیہ تعلق ہے جو کسی کو اقتدار تک پہنچانے اور اتارنے میں مہارت رکھتا ہے۔ خان صاحب نے ان دو عوامل کو بھی بہت کامیابی کے ساتھ اپنی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ بنایا۔ عمران خان صاحب اقتدار کی سیاست کے ایک ماہر کے طور پر سامنے آئے ہیں اور اقتدار تک پہنچ کر‘ انہوں نے اس مہارت کا عملی ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ کیا ایک سادہ منش آدمی ایسی سیاسی کامیابیاں سمیٹ سکتا ہے؟
دوسرے سیاست دان‘ ان کے حامی بھی جانتے ہیں کہ وہ اقتدار کی سیاست کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں کسی کو یہ غلط فہمی کبھی نہیں ہوئی کہ وہ سادہ منش لوگ ہیں جو عوام کی محبت میں دبلے ہو رہے ہیں۔ میں پیپلز پارٹی یا نون لیگ کے کسی ایسے حامی سے نہیں ملا جو یہ سمجھتا ہو کہ زرداری صاحب یا نواز شریف صاحب زمین پر ا وتار یا حق و باطل کا پیمانہ اور زمین پر خدا کا اتارا ہوا میزان ہیں۔ سب انہیں نارمل انسان قرار دیتے ہیں جو خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ انہیں اگر دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں تو عقلی دلیل کی بنیاد پر نہ کہ وجدان کی اساس پر۔ اگر کسی موقف کی بنیاد عقلی دلیل پر ہو تو اس پر تنقید گوارا کی جاتی ہے۔ معاملہ عقیدے کا ہو‘ وہ مذہبی ہو یا سیاسی تو پھر مکالمہ نہیں ہو سکتا۔
اب رہی وہ سیاست‘ جو ایک کارِ خیر اور ایک سیاسی مصلح کے پیشِ نظر ہوتی ہے‘ تو خان صاحب اس کے ماہر ہیں اور نہ ہی یہ سیاست ان کے پیشِ نظر ہے۔ اس میں بنیادی اہمیت اقدار کی ہوتی ہے۔ سچ اور جھوٹ میں تمیز کی جاتی ہے۔ سیاسی مخالفین سے اختلاف کیا جاتا ہے مگر ان آداب کے ساتھ جن کا تعلق تہذیب اور سماجی اقدار سے ہوتا ہے۔ اقتدار اور اقدار میں انتخاب کا مرحلہ آئے تو اقدار کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے کہیں انحراف ہو جائے کہ سیاست ممکنات کے زیرِ اثر آگے بڑھتی ہے۔ یہ انحراف لیکن ایک واقعہ ہو سکتا‘ عادت نہیں بن سکتا۔
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع یا نئے سپہ سالار کے تقرر میں تاخیر‘ دو مختلف باتیں نہیں ہیں اور یہی بات فواد چودھری صاحب نے بھی کہی ہے۔ لیکن ان میں فرق کرنا خان صاحب کی اس مہارت کی دلیل ہے جو انہوں نے اقتدار کی سیاست میں حاصل کی ہے۔ اس سیاست میں یہ گنجائش ہوتی ہے کہ کبھی کان کو ایک طرف سے پکڑ یں‘ کبھی دوسری طرف سے۔ عمران خان صاحب کے مداحوں کو نوید ہو کہ وہ اب مکمل سیاست دان بن چکے ہیں۔ توجیہہ کے محاذ پر سرگرم کارکنوں کے افکارِ تازہ اب سوشل میڈیا کی زینت ہوں گے جو باور کرائیں گے کہ توسیع اور تاخیر دو مختلف باتیں ہیں جو خان صاحب جیسا صاحبِ بصیرت ہی جان سکتا ہے۔ اس سیاست کو سمجھنا ہماشما کے بس کا روگ نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved