گزشتہ چار پانچ روز سے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان صاحب کی باتیں سننے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی پیدا کردہ سیاسی تنازعات کو سلجھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حال ہی میں سنیئر صحافی اور اینکر پرسن کامران خان صاحب کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اور اس سے قبل دیگر پلیٹ فارمز پر دیے گئے بیانات سے انہوں نے واضح اشارہ دے دیا ہے کہ وہ احتجاجی تحریک کے ذریعے اپنی من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوششوں کے بجائے مذاکرات کے آپشن پر غور کررہے ہیں‘ گوکہ خان صاحب ایک لمحے سیاسی تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے عوام کو احتجاج کی کال دیتے نظر آتے ہیں لیکن یہ اُن کی مخالفین پر دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے؛ تاہم مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وہ ایک ایک کرکے اپنے ہی بیانیوں کا قلع قمع کر رہے ہیں۔ انہوں نے بالخصوص بیرونی مداخلت اور اندرونی سازش جیسے بیانیوں سے پیچھے ہٹنا شروع کردیا ہے۔ یہ تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ وہ نوشتۂ دیوار پڑھ چکے ہیں کہ وہ جتنے بھی سیاسی جلسے جلوس کر لیں‘ جتنے بھی زیادہ کارکن نکال لیں‘ اس طرح ان کی دال نہیں گلنے والی۔ حکومت کی رخصتی یا نومبر میں ہونے والی ایک اہم تعیناتی جیسے معاملات کو وہ احتجاجی سیاست سے اپنی من مرضی کا رنگ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے اپنے سیاسی جلسے جلوسوں میں الزامات در الزامات اور بیانیہ سازی سے جو بھی نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی‘ فی الحال وہ حاصل نہیں کر پا رہے۔ انہی سطور میں پہلے بھی کئی مرتبہ یہ بات ہو چکی ہے کہ خان صاحب کو سیاسی و جمہوری رویہ اپناتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کرنی چاہیے‘ مذاکرات کی ٹیبل پر جانا چاہیے۔ بلا شبہ خان صاحب کی ایک کال پر چند گھنٹوں میں ہزاروں لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ عوامی طاقت کے بل پر خود کو آئین و قانون سے بالا تر سمجھیں اور ہر معاملے میں آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ دیں۔ عالمی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ بڑے سے بڑے مسئلے کا حل مذاکرات کی ٹیبل پر ہی نکلتا ہے۔ جنگ کے بعد بھی آخر کار فریقین کو مذاکرات کرنا پڑتے ہیں تو پہلے کیوں نہیں؟ خان صاحب جس طرح جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں‘ اس نے ان کی سیاسی راہیں مسدود کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کا بھی کافی نقصان کیا ہے۔
خان صاحب بیرونی مداخلت اور اندرونی سازش کے نام پر جس بیانیے کی مارکیٹنگ کرتے رہے ہیں‘ اس سے پیچھے ہٹنا تذبذب میں جکڑے ہمارے نظام کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ خان صاحب نے امریکہ مخالف بیانیے کو سچ ثابت کرنے کے لیے جس سفارتی سائفر کا استعمال کیا تھا ایسے سفارتی سائفر ریاستوں کے مابین معمول کی خط و کتابت کے لیے استعمال ہوتے رہتے ہیں لیکن چونکہ ہمارے یہاں روایتی طور پر امریکہ مخالف جذبات کو عوام میں بہت پذیرائی ملتی ہے‘ اس لیے خان صاحب نے اسی عوامی تعصب کو مدِنظر رکھا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ اپوزیشن میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ وہ اُن کی حکومت گرا سکتی‘ یہ تو دراصل رجیم چینج آپریشن تھا جس کے پیچھے امریکی ڈالرز اور دماغ تھے جس کے ذریعے عمران خان کی مقبول ترین حکومت کو گرایا گیا۔ خان صاحب کی اس بیانیے کی مسلسل مارکیٹنگ کو اُن کے پرستاروں نے تو بہت پسند کیا مگر انہیں خود کو یہ بات جلد ہی سمجھ آنے لگی کہ امریکہ بہادر سے بگاڑنے میں اُن کا اپنا نقصان ہے۔ اگر وہ ممکنہ طور پر دوبارہ حکومت میں آتے ہیں تو کیا وہ معاشی بدحالی کے اس دور میں امریکہ کے بغیر حکومت چلا سکتے ہیں‘ جس کی آنکھ کے ایک اشارے سے آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف الٹی چال چلنے لگتے ہیں۔ کیا مسئلہ کشمیر سمیت کسی بھی اور معاملے پر امریکی حمایت کے بغیر عالمی سطح پر آواز بلند کی جا سکتی ہے؟ یہ تو چھوڑیں‘ کیا امریکی حمایت کے بغیر ملک کے اندر بھی سیاسی جماعتوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں؟ عمران خان کو اس بات کا ادراک کب ہوا‘ اس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے لیکن امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے ساتھ ان کے اور فواد چودھری کے رابطے ہوں یا سابق امریکی ڈپلومیٹ‘ سی آئی اے کی تجزیہ کار اور لابسٹ رابن رافیل سے ملاقات ‘ یا پھر امریکہ میں 25 ہزار ڈالر ماہانہ پر پی آر فرم کو ہائر کرنا ہو‘ یہ سب عوامل چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ خان صاحب کی سٹریٹجی تبدیل ہو گئی ہے۔ اسی لیے تو اُن کے سیاسی جلسوں میں بھی امریکہ پر تنقید اب مدھم ہوتی ہوتی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
بیرونی مداخلت کے بعد اب اندرونی سازش کا بیانیہ بھی اپنی موت آپ مررہا ہے۔ خان صاحب کی نومبر میں ہونے جارہی اہم تعیناتی کو نئی حکومت بننے تک مؤخر کرنے کے اشارے سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں اس عہدے پر متمکن شخصیت کو ایکسٹینشن دیے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ تعیناتی تو تبھی موخر ہو سکے گی جب موجودہ عہدیدار کو توسیع دی جائے گی۔ اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ خان صاحب مقتدرہ کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھولنا چاہتے ہیں اور دوسرا ‘سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول‘ خان صاحب کی سیاست اس اہم تقرری کے گرد گھومتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خان صاحب اہم تقرریوں پر سیاست سے گریز کریں۔ خان صاحب کا یہ موقف کہ میاں نواز شریف یا آصف علی زرداری اس تقرری کے حوالے سے جو فیصلہ کریں گے وہ غلط ہوگا اور جو فیصلہ میں کروں گا وہ صحیح ہوگا‘ قطعاً درست نہیں ہے۔ یہ تقرری آئینی طریقہ کار کے مطابق میرٹ پر ہی ہونی ہے‘ چاہے اس پر دستخط شہباز شریف کریں یا عمران خان۔
دراصل اس وقت سیاسی مارکیٹ کے سینہ گزٹ میں یہ بات چل رہی ہے کہ ملک کے جامد سیاسی ماحول میں آگے بڑھنے کے لیے راہیں تلاش کی جارہی ہیں تاکہ تمام فریقوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرکے اگلا الیکشن لڑنے کیلئے برابری کے مواقع دیے جائیں۔ خان صاحب چاہتے ہیں کہ ملک میں اگلے عام انتخابات کا انعقاد جلد از جلد ممکن بنایا جائے لیکن حکومت اگست 2023ء میں الیکشن کا انعقاد چاہتی ہے۔ ایسے میں جب صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی یہ کہتے ہیں کہ میں سیاسی معاملات کو سلجھانے کیلئے بات چیت کی کوششیں کررہا ہوں تو صاف ظاہر ہے ایسی کوئی بھی کوشش تمام سٹیک ہولڈرز کی مرضی کے بغیر تو ممکن نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف رانا ثناء اللہ جب یہ کہتے ہیں کہ نئے عام انتخابات اگلے سال وسط کے بجائے سال کے شروع میں بھی ہو سکتے ہیں تو اس سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ موجودہ حکومت جلد روانہ ہونے کو بھی تیار ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہوسکے گا جب اُس کے مقاصد پورے جائیں گے جن میں میاں نواز شریف کی واپسی کا پروانہ اور شفاف انتخابات کی گارنٹی شامل ہے۔ اس تناظر میں عمران خان کے اہم تعیناتی کے حوالے سے تازہ ترین بیان کو دیکھنا چاہیے جو لیول پلیئنگ فیلڈ فارمولے کے تحت اسے اگلی حکومت کی صوابدید پر رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم امید ہے کہ خان صاحب کو اب اپنی اس غلطی کا احساس ہوگیا ہوگا کہ انہیں کسی بھی صورت پارلیمنٹ نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔ اگر وہ پارلیمنٹ میں موجود ہوتے تو نہ صرف حکومت کے خلاف کسی بھی وقت عدم اعتماد کی تحریک لا سکتے تھے بلکہ اہم معاملات مثلاً نگران حکومت کی تشکیل‘ چیئرمین نیب کی تقرری اور چیف الیکشن کمشنر کے مواخذے میں مؤثر اِن پٹ دے سکتے تھے لیکن پارلیمنٹ چھوڑ کر انہوں نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved