تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-09-2022

ہیرو، ولن یا پھر کامیڈین؟

ہر انسان اپنے اندر ایک کہانی لیے پھرتا ہے۔ ہم زندگی بھر جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں اُسے اگر موزوں ترتیب کے ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو ایک واضح کہانی کی شکل ابھرتی ہے۔ کہانی کیا ہے؟ واقعات کا تسلسل اور ربط۔ ہر انسان کا یہی معاملہ ہے۔ جو کچھ ہم کہتے ہیں اور کرتے جاتے ہیں اُسی کو جوڑتے رہنے سے کہانی کے نقوش ابھرتے ہیں۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی کو ایک کہانی کے طور پر لے تو جینے کا لطف بڑھ بھی سکتا ہے کیونکہ کہانی کو کسی بھی وقت کوئی اچھا، موزوں موڑ دینا بہت حد تک ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ ہم زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ ایک کہانی کو باضابطہ شکل دیتے جاتے ہیں۔ کبھی ہم شعوری طور پر ایسا کرتے ہیں اور کبھی تحت الشعور کی سطح پر۔ بہر کیف‘ اتنا تو طے ہے کہ ہم جسے زندگی سمجھتے ہیں وہ محض روز و شب کا گزرنا نہیں۔ وہ سانسوں کی گنتی بھی نہیں ہے بلکہ اِس سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔
زندگی کی کہانی مکمل طور پر ہمارے بس میں نہیں ہوتی۔ ہم بہت کچھ لکھتے ہیں مگر بہت کچھ ایسا ہے جو دوسرے لکھتے ہیں اور وہ ہماری کہانی میں جُڑتا چلا جاتا ہے۔ دوسروں کا لکھا ہوا جو کچھ بھی ہماری کہانی میں جُڑتا ہے اُسے ہم اپنی محنت سے ایک خاص حد میں رکھنا سیکھ سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے معاملات میں لاپروائی کے مرتکب ہوتے ہیں تب دوسروں کو ہماری کہانی میں ایسے موڑ پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے جو ہمارے لیے صرف الجھنوں کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ہماری زندگی چونکہ ہماری اپنی کہانی ہے اِس لیے اِسے لکھنے‘ اور جہاں ضروری ہو وہاں ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کا‘ اختیار صرف ہمارا ہے۔ کسی اور کو غیر ضروری ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اپنی کہانی میں آپ کیا بننا پسند کریں گے؟ ہیرو یا ولن؟ یا کامیڈین؟ یا پھر محض ایک ہدف؟ جو کچھ بھی طے کرنا ہے وہ آپ کو طے کرنا ہے۔ زندگی کی کہانی کو ترتیب دیتے وقت ہوش و حواس برقرار رکھنا لازم ہے۔ اگر اس معاملے میں لاپروائی برتی جائے تو ایسا بہت کچھ ہماری زندگی کا حصہ بنتا جاتا ہے جو کسی بھی اعتبار سے ہماری مرضی کا ہوتا ہے نہ ہمارے مفاد ہی میں ہوتا ہے۔ کسی کی بھی خواہش نہیں ہوتی کہ اپنی ہی کہانی میں ہیرو (یا ہیروئن) سے ہٹ کر کچھ ہو۔ ولن بننے کی خواہش تو بہت دور کی بات ہے، لوگ کامیڈین کہلوانا بھی پسند نہیں کرتے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ اپنی کہانی میں ہیرو بنے رہیں۔
کیا سبھی اپنی کہانی میں ہیرو بن پاتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہوتا نہیں۔ بہت کوشش کرنے پر بھی بہت سے لوگ اپنی ہی کہانی میں اور کچھ بنیں یا نہ بنیں، ہیرو تو بالکل نہیں بن پاتے۔ بہت سوں کی زندگی کی کہانی میں شدید ناموافق ڈرامائی موڑ آتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنی ہی کہانی میں ولن بن کر رہ گئے ہیں۔ جن کی زندگی ایک اچھی کہانی کی طرح چل رہی ہو، ترتیب پاچکی ہو وہ بھی کبھی کبھی ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے سبھی کچھ ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ یہ احساس بلا جواز نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی معاملات اچانک یوں پلٹتے ہیں کہ انسان محض دیکھتا اور سوچتا رہ جاتا ہے۔ اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ کبھی کبھی حالات انسان کے بس میں نہیں ہوتے اور اُن کے پلٹنے سے بہت کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ پھر بھی سب کچھ حالات کے کھاتے میں ڈال کر سُکون کا سانس نہیں لیا جاسکتا۔
مکمل شعور کی حالت میں زندگی بسر کرنے کی صورت میں ہم سب اپنی اپنی کہانی میں بہترین واقعات شامل کرتے جاتے ہیں۔ کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ اُس کی زندگی بُرے واقعات پر مشتمل کہانی کی شکل اختیار کرے۔ پھر بھی زندگی بہت سے بُرے یا ناپسندیدہ واقعات کی حامل ہوتی جاتی ہے۔ جہاں انسان کے بس میں کچھ زیادہ نہ ہو وہاں اُسے موردِ الزام ٹھہرایا نہیں جاسکتا تاہم جن معاملات میں سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق ہوسکتا ہو وہاں تو انسان کو کسی بھی طور تغافل شعار نہیں ہونا چاہیے۔ زندگی ہم سے بار بار یہی تقاضا تو کرتی ہے کہ ہم جو کچھ بھی لکھیں اُس پر متوجہ رہیں یعنی زندگی کی کہانی میں کوئی فضول موڑ پیدا نہ ہو اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کسی کو دانستہ ہماری کہانی میں دخل دینے اور ناموافق موڑ پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔ ہر انسان کو اپنے حصے کے ناپسندیدہ افراد مل کر رہتے ہیں۔ ناپسندیدہ یعنی وہ افراد جو کسی ٹھوس جواز کے بغیر خرابیاں پیدا کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بچنا بھی انسان کے لیے ایک بڑا کام ہے۔ اگر اس معاملے میں تساہل اور تغافل سے کام لیا جائے تو سمجھ لیجیے کشتی کا ڈوبنا مقدر ٹھہرا۔ زندگی کی کہانی جُوں جُوں آگے بڑھتی ہے، واقعات کا باہمی ربط باضابطہ شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔ ہر انسان کو قدرت کی طرف سے یہ صلاحیت عطا کی گئی ہے کہ اپنی کہانی کے واقعات میں جتنی بھی ہم آہنگی پیدا کرسکتا ہے کرے‘ یا کم از کم بھرپور اور مخلصانہ کوشش تو ضرور کرے۔ ہم عمر کے ہر حصے میں اس امر کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ لوگ اپنی زندگی کو کہانی کے طور پر نہیں لیتے یا پھر کہانی کے طور پر لیتے بھی ہیں تو اُسے لکھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اگر آپ کو اپنی کہانی میں ہیرو بننے کا شوق ہے تو محض خواہش کرلینے سے ایسا نہیں ہو جائے گا۔ آپ کو عملاً ہیرو بننا پڑے گا، وہ سب کچھ کرنا پڑے گا جس کی کسی ہیرو سے توقع کی جاتی ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو کوئی اور آپ کو ولن بنانے کی کوشش کرے گا اور اِس کوشش میں وہ کامیاب بھی ہو رہے گا۔ یہ پورا کھیل شعوری کوشش اور ٹائمنگ کا ہے۔ اگر آپ اپنی کہانی پوری توجہ سے نہیں لکھیں گے تو ٹائمنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی اور آپ کی کہانی میں اپنی مرضی کے موڑ ڈال دے گا اور یوں کہانی کے حتمی انجام پر آپ کا زیادہ اختیار نہیں رہے گا۔
جو لوگ اپنی زندگی کو کہانی سمجھنے اور پورے شعور، اخلاص اور محنت کے ساتھ لکھنے پر مائل نہیں ہوتے وہ بالآخر ایسے واقعات کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں جو اُنہیں ہدف میں تبدیل کرکے دم لیتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے اِس سے زیادہ پریشان کن بات کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی ہی کہانی کے واقعات کا ہدف بن کر رہ جائے؟ زندگی اصلاً خالص شعوری معاملہ ہے۔ ہر قدم پر چوکنّا رہنے کی صورت ہی میں ہم اپنی کہانی کو اپنی مرضی کے موڑ دیتے ہوئے خوش گوار انجام کی طرف بڑھانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔آپ اپنی زندگی کو کس طور لیتے ہیں؟ کسی میچ یا مقابلے کی شکل میں؟ یا پھر ناول، کہانی وغیرہ کی شکل میں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم زندگی بھر صرف اور صرف واقعات سے نمٹتے رہتے ہیں۔ جنہیں ہم اپنے لیے حادثات سمجھتے ہیں وہ بھی اپنی اصل میں واقعات ہی ہوتے ہیں۔ بہر کیف، زندگی وہ کہانی ہے جو کسی بھی مرحلے پر تغافل اور تساہل کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ہمارا ہر قدم اِس کہانی کو ایسی سمت لے جاتا ہے جو ہماری طے کردہ نہیں ہوتی۔ ایسے میں لازم ہے کہ ہم زندگی کے حوالے سے بالغ نظری، شعور اور اخلاص کا مظاہرہ کرتے رہیں۔ کامیاب زندگی کے بارے میں جو کچھ بھی ہمیں پڑھنے اور سُننے کو ملتا ہے وہ ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ پہلے تو اپنے لیے ایک حتمی راہ متعین کریں اور پھر اُس پر پُھونک پُھونک کر قدم رکھتے رہیں۔ زندگی سراسر شعور کا معاملہ ہے۔ بے شعوری کی حالت میں معیاری انداز سے زندگی بسر کی ہی نہیں جاسکتی۔
زندگی ڈھنگ سے اُسی وقت بسر کی جاسکتی ہے جب اِسے سنجیدگی سے لیا جائے۔ سنجیدگی ہی طے کرتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اگر کہانی کے طور پر لیں گے تو اُس میں کس طرح کے موڑ شامل کرنا پسند کریں گے۔ ہر موڑ ایسا ہونا چاہیے جو کہانی میں آپ کی دلچسپی برقرار رکھے۔ لاپروائی سے کام لینے پر آپ اپنی کہانی کو صرف بگاڑیں گے اور یوں شدید خواہش کے باوجود ہیرو بننا ممکن نہ ہوگا۔ لاپروائی کا سلسلہ دراز ہو تو انسان اپنی کہانی میں ولن بھی نہیں بن پاتا۔ ایسے میں صرف کامیڈین بننے کا آپشن بچتا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved