حالیہ دنوں ایک تحریر نظر سے گزری جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس دنیا میں اللہ کا جو عذاب آتا ہے‘ وہ ہوتا ہی مسلمانوں کے لیے ہے۔ غیرمسلموں کے لیے تو معاملہ آخرت تک مؤخر کردیا جاتا ہے۔ دنیا میں انہیں ڈھیل دی جاتی ہے کہ خوب عیش کر لیں۔ میں اصل الفاظ نقل کر دیتا ہوں تاکہ سوئے فہم کا امکان باقی نہ رہے۔ لکھا گیا: ''دنیا میں اللہ کا غصہ‘ ناراضی اور غضب تو ہوتا ہی مسلمانوں کے لیے ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو واحد مالک و مختار ماننے کے بعد‘ اس کے احکام پر عمل نہیںکرتے‘‘۔
فاضل مصنف اس سے پہلے‘ غیر مسلموں کے بارے میں اپنے فہم کے مطابق‘ ا للہ کا قانون کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: ''اللہ کی ناراضی‘ عذاب یا آزمائش کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ آپ اللہ کے منکر ہو جائیں‘ ملحد بن کر اس کی ذات کا انکار کریں اور اپنی زندگیاں سیکولر‘ لبرل اور روشن خیال طرزِ حیات پر گزارنے لگیں۔ اللہ ایسے لوگوں کی جزا وسزا روزِ قیامت پر رکھ چھوڑتا ہے‘‘۔
یہ مقدمہ قائم کرنے کے تھوڑی دیر بعد‘ فاضل مصنف اسے فراموش کر بیٹھے۔ آگے چل کر‘ وہ غیر مسلم اقوام کا ذکر کرتے ہیں جنہیں اپنی مادی قوت پر بہت زعم تھا اور اللہ نے انہیں دنیا میں برباد کر دیا۔ وہ ایسی اقوام کی پُر زور مذمت کرتے ہوئے جو سیلاب جیسی آفات کے خلاف اپنے انتظامات پر بھروسا کرتی ہیں‘ لکھتے ہیں: ''کاش یہ تدبیر کے غلام صرف گزشتہ چند سالوں میں آنے والے دو المیوں کا مطالعہ کر لیں کہ اللہ نے عقل و دانش اور تدبیر کے بنائے ہوئے تمام انتظامات غارت کر دیے اور ایک نئے طریقے سے عذاب بھیج دیا۔ جاپان نے خود کو زلزلہ پروف بنا لیا تو اللہ نے 11مارچ 2011ء کو سونامی بھیج کر 360 ارب ڈالر کا انتظام غارت کر دیا۔ اور 2020ء میں حفظانِ صحت کے اصولوں کی معراج والے ممالک میں کورونا بھیج کر 65 لاکھ 16ہزار لوگوں کو لقمۂ اجل بنا دیا‘‘۔
پہلے یہ اصول بیان فرمایا کہ عذاب صرف مسلمانوں پر آتا ہے۔ آگے چل کر مثالیں پیش کیں تو غیر مسلموں کی۔ اگر اللہ تعالیٰ غیرمسلموں کو اس دنیا میں عذاب نہیں دیتا تو پھر جاپان والوں اور ا میر ملکوں پر‘ جو غیرمسلم ہیں‘ ''ایک نئے طریقے سے عذاب‘‘ کیوں بھیجا؟ پھر یہ کہ کورونا صرف ان کی طرف نہیں آیا جنہوں نے انتظامات کیے تھے‘ ان پر بھی نازل ہوا جنہوں نے کوئی انتظام نہیں کیا تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟
فاضل مصنف کی نظر میں آزمائش‘ عذاب اور اللہ کی ناراضی میں بھی کوئی جوہری فرق نہیں۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔مذکورہ تحریر سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ تدبیر کرنا یا تدبیر پر بھروسا کرنا بری بات ہے۔ بطور دلیل‘ ان واقعات کا ذکر ہے جب انسانی تدبیر کارگر ثابت نہ ہوئی اور انسان آفات کی زد میں آگیا۔ یہ تصورات بعض غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں اور بعض کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے‘ ان پر تنقیدی نظر ڈالنا لازم ہے۔
اللہ کی لاکھوں رحمتیں ہوں امام حمید الدین فراہی پر‘ جنہوں نے نظمِ کلام کو تفہیمِ قرآن کے باب میں ایک فیصلہ کن اصول قرار دیا۔ اسے نظر انداز کرنے سے قرآن مجید کی تفسیر میں اتنے امکانات پیدا کر دیے گئے کہ کسی ایک تفسیر پر اتفاق کا امکان ہی ختم ہو گیا۔ اللہ نے قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے کی نشانی یہ بتائی تھی کہ اس میں اختلاف نہیں ہے۔ نظمِ کلام کے اصول کو نظر انداز کر دیا جائے تو اختلاف کا دروازہ بند کیا ہی نہیں جا سکتا۔
تفسیر بالرائے کا باب کھلتا ہی اس وقت ہے جب قرآن مجیدکی تفسیر کو داخلی وسائل سے بے نیاز کرکے‘ اسے خارجی وسائل کی بنیاد پر سمجھا جاتا ہے۔ داخلی وسائل میں قرآن کی زبان اور اس کا نظم سرِفہرست ہیں۔ خارجی وسائل میں 'عہدِ حاضر‘ سے لے کر من پسند تاویلات تک کچھ بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ''تدبرِ قرآن‘‘ کے مقدمے میں ان دونوں طرح کے وسائل کو صراحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ ان کو نظرانداز کرنے سے جو نتیجہ نکلتا ہے‘ علامہ اقبال نے اسی سے خبر دار کیا ہے:
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
قرآن مجید نے جو چند باتیں واضح کی ہیں‘ انہیں نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
1۔ ابنِ آدم کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے۔ موت و حیات کو اسی مقصد کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر دائمی زندگی کا فیصلہ ہونا ہے۔ ہر انسان اس آزمائش میں مبتلا ہے۔ اس میں مسلم‘ غیرمسلم‘ مرد و عورت‘ عربی عجمی‘ کسی کا کوئی استثنا نہیں۔
2۔ قیامتِ کبریٰ‘ جو اس دنیا کے اختتام پر برپا ہونی ہے‘ اس کے لیے بطور شہادت‘ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی کبھی کبھی قیامتِ صغریٰ برپا کرتا رہا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً کسی ایک قوم کا انتخاب کرتے اور اس میں اپنے رسول کو اپنی عدالت بنا کر بھیجتے تھے۔ انہیں بتا دیا جاتا کہ اگر وہ ایمان لائیں گے ا ور اعمالِ صالح کریں گے تو انہیں دہرا اجر ملے گا۔ ایک اس دنیا میں اور ایک آخرت میں۔ اگر رسول کا انکار کریں گے تو دہرا عذاب ملے گا۔ ایک اس دنیا میں اور ایک آخرت میں۔ یہ واقعہ آخری بار رسالت مآب سیدنا محمدﷺ کی بعثت کے ساتھ ہوا۔ آپﷺ کا انکار کرنے والوں کو اس دنیا میں عذاب دیا گیا۔ ختم نبوت و رسالت کے ساتھ‘ عذاب کی یہ صورت ختم ہو گئی۔ اس واقعے کو تاریخ نے محفوظ کر لیا اور اب یہ قیامت تک حجت بنا رہے گا۔
3۔ آزمائش نیک کے لیے ہوتی ہے اور برے کے لیے بھی۔ حتیٰ کے پیغمبر بھی اس سے گزرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو آزماتا ہے۔ یہ سلسلہ مرتے دم تک باقی رہتا ہے۔
4۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو تنبیہ بھی کرتا ہے‘ جب ان کی غفلت بڑھ جاتی ہے۔ یہ سیلاب‘ زلزلے یا کسی صورت میں ہو سکتی ہے۔ یہ اس بات کی یاد دہانی ہوتی ہے کہ عالم کا پروردگار یہ دنیا بنا کر اس سے لاتعلق نہیں ہو گیا۔ انسان خبردار رہے کہ اس کے حضور میں سب نے پیش اور جواب دہ ہونا ہے۔
5۔ قرآن مجید نے یہ بات یہود کے بارے میں کہی کہ وہ کتاب اللہ کی بعض باتوں کو مانتے اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ یہاں کتاب اللہ سے مراد تورات ہے۔ انہیں اس پر خبر دار کرتے ہوئے سخت سزا کی وعید سنائی گئی۔ دنیا میں عذاب یا خدا کی ناراضی کا ہدف صرف مسلمان نہیں ہیں۔ یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔
6۔ قدرتی آفات سے بچنے کی تدبیر دین کا حکم ہے۔ اس کی نفی حماقت ہے۔ جس بات سے دین نے منع کیا ہے‘ وہ تدبیر پر انحصار کرتے ہوئے‘ خدا کی قدرت اور موجودگی سے غافل ہونا ہے۔ بیماری کا علاج کیا جائے گا اور اس سے بچنے کی کوشش بھی کی جائے گی؛ تاہم یہ لازم نہیں کہ یہ تدبیر ہمیشہ کارگر ہو۔ دین یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ انسان قادرِ مطلق نہیں۔ اس سے بڑی ایک ہستی موجود ہے جو ہر تدبیر کو غیر مؤثر کر سکتی ہے۔
کوئی اس مقدمے کے دلائل کو تفصیل سے سمجھنا چاہے تو اسے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر ''تدبرِ قرآن‘‘ یا استادِ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب کے ترجمہ قرآن اور مختصر حواشی ''البیان‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مولانا مودودی نے بھی ''تفہیم القرآن‘‘ میں بعض نکات کو بہت اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved