اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ عمران خان نے اپنی غیر متوقع جارحیت اور پسپائی کی حکمت عملی سے ملکی نظام پر چھایا وہ جمود توڑ دیا ہے جس نے پچھترسال سے آسیب کی طرح ہماری روحوں کو محاصرے میں لیا ہوا تھا۔ ادارہ جاتی اقدار اور متعین سیاسی روایات‘ جنہیں کسی نہ کسی صورت تحفظ حاصل تھا‘ اب روبہ زوال دکھائی دیتی ہیں۔ جن امور پر پہلے خواص بھی رائے دینے میں ہچکچاتے تھے‘ ان ایشوز کی پیچیدہ جزئیات اب کوچہ و بازار میں زیرِ بحث ہیں۔ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتمادکے ذریعے انتقالِ اقتدار کا آئینی عمل ہو، اہم اداروں کی تعیناتیاں ہوں یا نظامِ عدل سے متعلق معاملات‘ یہ سب اب بازیچۂ اطفال کی طرح‘ سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنائے جا رہے ہیں۔ شاید یہی تراشیدہ مظاہر ہمارے فرسودہ سیاسی بندوبست کے تحلیل ہونے کی علامات اور کسی نئے سیاسی تمدن کے احیا کا پیش خیمہ ہوں۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ 2014ء سے نمودار ہونے والے غیرمعمولی تغیرات ہی ہماری ابھرتی ہوئی مملکت کے معاشی و سیاسی عدم استحکام اور جمہوری ثقافت کی کثافت کا وسیلہ بنے ہیں۔
اپنی تمام تر سیاسی مہارت اور اپنے پُرشکوہ دعووں کے باوجود پی ڈی ایم کی قیادت تاحال مملکت کے معاشی اور سیاسی امور پر گرفت مضبوط نہیں کر سکی۔ کمرتوڑ مہنگائی، افراطِ زر کا عفریت اور سی پیک کو رول بیک کرنے جیسے جن ایشوز کو جواز بنا کر پی ڈی ایم نے عمران خان کی حکومت کے خلاف سیاسی بیانیہ تشکیل دیا تھا‘ وہ تمام مسائل ان کی اپنی حکومت میں زیادہ گمبھیر ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب سترہ کروڑ ڈالرز کی قسط سے توقعات باندھ کر وسیع پیمانے پر بیرونی امداد کے حصول کی جس امید پر بنیادی بجلی، گیس اور تیل کی قیمتیں بڑھائی گئی تھیں‘ وہ بر نہیں آ سکی۔ عالمی مارکیٹ میں کوکنگ آئل اور پٹرول کے نرخ گزشتہ کئی ماہ کی کم ترین سطح پر آنے کے باوجود ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل صاحب عوام کے دکھوں پہ آنسو تو بہا سکتے ہیں مگر انہیں کوئی ریلیف دینے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ شہبازشریف صاحب کی کمزورحکومت پی ڈی ایم کی سیاست کا واٹرلو ثابت ہو گی۔ کوئی شک نہیں کہ ایک مضبوط حکومت ہی ہمیں امن اور معاشی نظم و ضبط دے سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے ہمارے نظامِ سیاست پر چند افراد کے تصرف نے ہمیں معاشی انحطاط جیسے خطرات، سیاسی طور پر احساسِ شکست اور غربت کے خوف سے دوچارکر دیا ہے۔ لوگوں کے پاس اب اپنی سانسوں کے سوا کچھ نہیں بچا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم اپنی بدحال اور بے توقیر ہوتی زندگیوں کو دیگر انسانوں کی تفریحِ طبع میں ضائع کرنے کے بجائے بہادرانہ انداز میں مقابلہ کریں۔
بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کی بدولت کارخانے بند اور زرعی پیدوار میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے بجلی کے ٹیرف میں تبدیلی کرکے کولڈ سٹوریج کو صنعتی سے کمرشل نرخوں پر منتقل کرنے سے درجنوں کولڈ سٹورز کے بند ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیاجا رہا ہے۔ جس سے پھل، سبزیاں اور خاص طور پر آلو کو ذخیرہ کرنے کی استعداد کم ہو جائے گی اور حتمی طور پر حکومت کو آلو کی درآمد پر بھی کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ سی پیک اور اس سے جڑے تمام پروجیکٹ بتدریج زوال پذیر ہیں۔ چینی انجینئرز کی ہلاکت کے بعد داسو ڈیم کاکام تعطل کا شکار رہا۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی مین ٹنل بیٹھ جانے سے وہاں پر چینی کمپنیوں کا تکنیکی عملہ کام کرنے سے انکاری ہو گیا۔ دریائے کنہار پہ سکی کناری ہائیڈرو پاور پروجیکٹ‘ جس کا تقریباً 80 فیصدکام ہو چکا تھا‘ کئی نادیدہ مسائل کا شکار ہو کر بند ہونے کے دہانے پر ہے۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے مہند اور منڈا ڈیم کو نقصان پہنچنے سے سی پیک سے منسلک یہ منصوبے بھی بند ہو چلے ہیں۔ یہ واقعاتی شہادتیں عمران خان کی طرف سے 'امپورٹڈ حکومت‘ کی پھبتی کو سچ ثابت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
حکومتی اتحاد میں ابھرنے والے اختلافات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ایک طرف ایم کیو ایم اپنی راہیں جدا کرنے کا سوچ رہی ہے اور دوسری جانب اہم تعیناتیوں پر پیپلزپارٹی اور نواز لیگ میں بھی اختلافات گہرے ہو رہے ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں مفادات کے ٹکرائو کی وجہ سے اجتماعی ذہانت کو بروئے کار لانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ فیصلہ سازی کے اسی بحران کی بدولت پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں گورنرز کی تعیناتی پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ اتحادی جماعتوں کو راضی کرتے کرتے وزیراعظم شہبازشریف معاشی تنزل کی نچلی ترین حدوں کو چھونے والے ملک کی پشت پر ستر کے لگ بھگ وزرا، وزرائے مملکت اور مشیران کا بوجھ لاد چکے ہیں۔ ''کوٹے‘‘ کے مشیروں پر مشتمل تازہ کھیپ میں کوئی ایک بھی اس قابل دکھائی نہیں دیتا جس کی صلاحیتوں سے مملکت کو کوئی فائدہ ملنے کی امید وابستہ کی جا سکے۔ ممکن ہے سندھ، بلوچستان اورخیبرپختونخوا کی گورنری کے لیے اصرار کرنے والی پیپلزپارٹی کو چھ مشیروں کا حصہ دے کر خیبرپختونخوا میں جے یو آئی اور سندھ میں ایم کیو ایم کے گورنرز تعینات کرنے کی راہ نکالی گئی ہو لیکن اس طرح کی سودے بازیوں سے مملکت مزید کمزور ہوتی جائے گی۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پیپلزپارٹی اپنا اصل سیاسی حریف نواز لیگ ہی کو سمجھتی ہے۔ اس کے خیال میں تحریک انصاف ہمارے سیاسی نظام کے بہتے دھارے کا عارضی جوار بھاٹا ہے اور عمران خان کے بعد اس جماعت کا کوئی مستقبل نہیں؛ چنانچہ زرداری صاحب تحریک انصاف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے بلکہ پی ٹی آئی کے ساتھ مستقبل میں باہم مل کر کام کرنے کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب بھی کسی خاموش معاہدے کے تحت عمران خان سندھ کا رخ کرتے ہیں نہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ونگ پیپلز پارٹی کی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے کیونکہ اس وقت دونوں جماعتوں کا ہدف ایک ہی ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شہبازشریف کی وزارتِ عظمیٰ نے نون لیگی ورکرز کو غیر فعال اور پارٹی کے بیانیے کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ شاید اسی لیے مریم نواز لندن جا کر پارٹی کی روزبروز گرتی ساکھ کے مبینہ اسباب پر میاں نوازشریف سے مشاورت کرنا چاہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے مزے تو پی ڈی ایم کی سبھی اتحادی جماعتیں لوٹ رہی ہیں لیکن نتائج کے مضمرات کا وبال صرف نواز لیگ کے حصے میں آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی ، جے یو آئی، ایم کیو ایم اور دیگر چھوٹی جماعتیں وزارتیں، مشاورتیں اور ترقیاتی فنڈز لے کر اپنے انتخابی حلقوں میں ووٹرز کو نوازنے کے علاوہ ملک کو بحران سے نکالنے کی کسی مساعی کا حصہ نہیں بنتیں اور مملکت کواقتصادی اور سیاسی بحران سے نکالنے کا سارا بوجھ وزیراعظم شہبازشریف کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے جو دن رات بھاگ دوڑ کرنے کے باوجود سسٹم کو ریگولیٹ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایسے میں عمران خان کی سیاسی یلغار کی بدولت حکومت نت نئے بحرانوں کی دلدل میں اترتی جا رہی ہے۔ خان صاحب نے اپنی جارحانہ حکمت عملی سے اس وقت سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسی لیے کسی بھی سطح پر سیاسی اور ادارہ جاتی توازن قائم نہیں ہو پا رہا۔ ملک بدستور ناقابلِ توضیح بحران کی لپیٹ میں آتا جا رہا ہے۔ گویا پی ٹی آئی کے بعد پی ڈی ایم بھی سسٹم کی بحالی میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ اب یہ معلوم نہیں کہ ہمیں قومی قیادت کی صلاحیتوں کے بحران کا سامنا ہے یا پھر کسی سوچی سمجھی سکیم کے تحت قوم کو منجمد سیاسی ونظریاتی تصورات سے نکالنے کی خاطر نفسیاتی و ذہنی ساخت میں تبدیلیوں کے تجربات سے گزارا جا رہا ہے۔ بلاشبہ پیراڈائم شفٹ کے نازک مرحلے پر یہ اندرونی خلفشار ہمارے بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
عام طور پہ عالمی طاقتیں داخلی انتشار کے شراروں میں الجھی ریاستوں کو قیام امن کے نام پر کبھی نہ تھمنے والے خانہ جنگیوں کی آگ میں جھونک دیتی ہیں، جیسے سوڈان، لبنان، شام اور لیبیا میں ہو رہا ہے لیکن اس وقت دنیا میں قومی ریاستوں سے ارفع کوئی مؤثر اتھارٹی موجود نہیں جو ایسے پیچیدہ تنازعات کی ثالثی کر سکے؛ تاہم انتشار زدہ ماحول میں اپنی طاقت کو بڑھانے والا رویہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے تنازعات کو مزید بڑھا رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved