نیا جمہوری دور ابھی شروع ہی ہوا ہے اور سیلاب نے پھر پاکستان کے دروازے پر دستک دے دی ہے۔ جس طرح بالی وڈ کے فلم میکرز قابلِ رحم حد تک توہم پرست واقع ہوئے ہیں بالکل اُسی طرح بہت سے دوسرے مغالطوں کی طرح یہ مغالطہ بھی ہمارے سیاست دانوں کے ذہن میں گِرہ کی طرح پڑا ہوا ہے کہ ایک دن میں دو خطبے حکومت پر بھاری گزرتے ہیں! مسلم لیگ ن نے تیسرا دورِ حکومت ابھی شروع ہی کیا ہے کہ عیدالفطر جمعہ کی پڑگئی، یعنی ایک دن میں دو خطبے۔ گویا سَر مُنڈاتے ہی اولے پڑے! ایک دن میں دو خطبوں کے بھاری پڑنے کا عقیدہ خاصی آسانی پیدا کرتا ہے۔ کچھ بھی ہو جائے، دو خطبوں کے کھاتے میں ڈال دیجیے! کہنے میں کیا ہے کہ جمعہ کی عید اقتدار پر بھاری پڑگئی! اہلِ اقتدار تو ایک دن میں دو خطبوں کو بھاری قرار دیکر جان چُھڑالیتے ہیں، عوام کیا کہیں اور کس سے کہیں؟ کس پر الزام دَھریں؟ جمہوریت ہو یا آمریت، عوام کے لیے تو ہر دِن دو خطبوں والے دِن جیسا بھاری ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ اقتداری ٹولے کا پہاڑ سا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے اب پاکستان کا ہر شہری ہرکولیس کے خطاب کے لیے کوالیفائی کرچکا ہے! سیلاب نے ایک سال کے وقفے سے پھر دستک دی ہے تو ڈرنا کیا، گھبرانا کیا؟ دس بارہ سال سے جمہوریت کے ریلے بھی تو ہمارا سب کچھ تہس نہس کر ہی رہے ہیں۔ کیا ہے جو دہشت گردی کی لہریں اپنے ساتھ بہاکر نہیں لے گئیں؟ جو اقتدار میں آتے ہیں وہ من مانی کے ریلوں میں سبھی کچھ بہاکر لے جاتے ہیں۔ دریاؤں کی طغیانی کو کیا روئیں کہ ایک بڑا ریلا اختیارات سے تجاوز کا بھی تو ہے جو قومی وسائل کی زمین میں مسلسل کٹاؤ پیدا کر رہا ہے! تین سال قبل بھی سیلاب آیا تھا اور قدرے نامُراد لوٹا تھا۔ چند ادھورے ترقیاتی منصوبے تھے جن پر پانی پِھرا اور الزام سیلاب کے سَر گیا! اللہ یاروں کی ذہانت اور ’’موقع شناسی‘‘ کو سلامت رکھے کہ اُنہوں نے سب کچھ پہلے ہی اِدھر اُدھر کرلیا تھا! سڑکوں کے نام پر کچھ روڑی پڑی تھی اور پشتوں کے نام پر چند بڑے پَتّھر دریاؤں کے کنارے نصب تھے۔ اچھا تو نہیں لگتا نا کہ سیلاب اِتنے چاؤ سے آئے اور ہم اُس کی راہ میں دیواریں کھڑی کریں! ع وہ آئے، آئے کہ ہم دِل کشادہ رکھتے ہیں! خاصی توجہ اور محنت سے سیلاب کے خیر مقدم کا اہتمام کیا گیا۔ پھر جو سیلاب آیا تو بس آتا ہی چلا گیا۔ سیلاب کی وُسعتِ قلب کا کیا کہنا۔ یہ ہر الزام اپنے سَر لے لیتا ہے۔ کچی پکی سڑکیں بہہ جائیں تو الزام سیلاب کے سَر۔ سرکاری خرچ پر ناقص اور کمزور عمارتیں کھڑی کیجیے۔ گر جائیں تو الزام سیلاب کے سَر۔ کوئی سرکاری منصوبہ شروع کرنے میں تاخیر ہو تو سیلاب کو موردِ الزام ٹھہرا دیجیے۔ اگر ادھورا رہ جائے تو یہ تہمت اُٹھانے کے لیے بھی سیلاب حاضر ہے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ سیلاب کی تباہ کاری بھی اپنے دامن میں چند خوش نصیبوں کے لیے سات نسلوں کی روزی روٹی کا بندوبست لیکر آئی! جن کا نصیب سویا ہوا تھا اُنہوں نے تھوڑی بہت حرکت پذیری سے اپنے لیے خوش نصیبی کا اہتمام کیا۔ کچھ سیلاب تو آیا اور کچھ آنے دیا گیا تاکہ دُنیا کو تباہ کاری کے مناظر دِکھاکر بھیک مانگی جاسکے۔ کشکول پھیلانے کی عادت بھی کیسے کیسے ہُنر سِکھا دیتی ہے۔ دُنیا والے اب تک نہیں سمجھ پائے کہ مِٹّی کو سونا بنانا کِتنا آسان ہے۔ ایک ذرا سا ہاتھ بڑھاکر کشکول ہی تو پھیلانا ہے۔ اور جب کشکول پھیلانا ہی ٹھہرا تو شرم کیسی؟ سیلاب ہو یا زلزلہ، ساری دُنیا سے امداد بٹور کر ہر قدرتی آفت کی زمین پر ذاتی منفعت کی فصل کھڑی کی جاسکتی ہے! جنہیں اللہ نے ’’دانش‘‘ سے نوازا ہے وہ زحمت کی کوکھ سے رحمت برآمد کرلیا کرتے ہیں! دریا جب جوش میں آتے ہیں تو کناروں کو بھول جاتے ہیں۔ مگر اُن کی طغیانی میں بھی کچھ لوگ اپنے لیے کنارے تلاش کرلیتے ہیں۔ بس، دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہیے۔ علامہ اقبالؔ نے خوب کہا ہے ؎ ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدۂ دِل وا کرے کوئی! جو سیلاب بہتوں کا بہت کچھ، بلکہ سب کچھ بہاکر لے جاتا ہے وہ کچھ لوگوں کے لیے بہت کچھ بہا بھی لاتا ہے۔ چار پائیاں اور جانور تو آپ نے بہتے دیکھے ہوں گے۔ دیدۂ بینا ہو تو سیلاب میں ڈالر کی موجیں بھی آپ کو آتی ہوئی دِکھائی دے جائیں گی! تحسین اور تبریک کے لائق ہیں وہ لاکھوں، بلکہ کروڑوں مفلوک الحال پاکستانی جو سیلاب اور دوسری قدرتی آفات کے ہاتھوں تباہ ہوکر اعلیٰ طبقے کے چند غریبوں کو تجوریاں بھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں! اب پھر (اصلی) غریبوں کے دِل دَہلے ہوئے ہیں۔ مون سون نے زور پکڑا تو غریبوں نے التجا کی ؎ وہ نقابِ رُخ اُلٹ کر ابھی سامنے نہ آئیں کوئی جاکے اُن سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں مگر سیلاب نے ایک نہ سُنی اور چہرے سے نقاب اُلٹ کر بہت کچھ پلٹ دیا ہے۔ یہ بھی کِتنی عجیب بات ہے کہ تباہی کا خوف اُنہیں لاحق ہے جن کے پاس کچھ رہا ہی نہیں! سیلاب کو اپنے علاقوں کی طرف بڑھتا دیکھ کر لاکھوں افراد سہمے ہوئے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں ڈالر کے ریلے اپنی طرف آتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں! قدرتی آفات غریبوں کے چولھے ٹھنڈے کرتی ہیں مگر دوسری طرف عالمی برادری کو متحرک اور امداد کا بازار گرم بھی کرتی ہیں۔ ایک زمانے سے سُنتے آئے ہیں کہ موسم چار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں پانچ موسم ہیں۔ اگر نفع خوری کو کچھ دیر کے لیے بھول جائیں تو پانچواں موسم سیلاب کا ہے۔ اور اِس میں بھی کھری کمائی ہے۔ دُرست کہ سیلاب سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ مگر فصلوں کا جو حصہ رہ جاتا ہے اُن کا انڈیکس پلک جھپکتے میں شُوٹ کر جاتا ہے! سیلاب ہمیں ٹکے ٹکے کی سبزیوں کا محتاج کر دیتا ہے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ سبزیوں کی فصل بھی نقد آور فصل میں تبدیل ہوجاتی ہے، کپاس اور تمباکو سے مہنگی بکتی ہے! اب ہمارے ہاں سب کچھ فطرت کے اُصولوں کے مطابق ہو رہا ہے۔ ڈیم نہیں بنائے جارہے اِس لیے سیلاب آتا ہے۔ سیلاب آتا ہے تو فصلیں تباہ ہوتی ہیں، دیہی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بے روزگاری بڑھتی ہے یعنی افلاس زور پکڑتا ہے تو جرائم کی شرح بلند ہوتی ہے۔ افلاس قتل اور خود کشی کی طرف بھی لے جارہا ہے۔ یعنی سب کچھ عین فطری انداز سے ہو رہا ہے۔ مگر خیر، مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہماری اسٹاک مارکیٹ اب بھی فطرت کے اُصولوں کے خلاف جانے پر تُلی ہوئی ہے۔ یہ وہ مچھلی ہے جو دھارے کے خلاف زیادہ اچھا تیرتی ہے! ہم نے سیلابی موسم میں بھی اسٹاک مارکیٹ کو استثنیٰ سے ہمکنار پایا ہے۔ دُنیا حیران ہے کہ پاکستان کے حالات دگرگوں ہیں مگر اسٹاک مارکیٹ بلندی پر رہتی ہے۔ حالات کا گراف تحت الثریٰ میں اور اسٹاک مارکیٹ کا گراف اوجِ ثُریّا پر! جو سیلاب سب کچھ پلٹ دیتا ہے وہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے! جی میں آتا ہے کہ جب بھی کوئی دریا بپھرنے کے مُوڈ میں ہو تو اسٹاک مارکیٹ کو اُس کے سامنے کھڑا کردیں۔ پھر دیکھتے ہیں وہ کیسے بپھرتا ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved