اگست میں بجلی کے بل کیا بھیجے گئے‘ گویا ہر گھر میں موت کا پروانہ بھیج دیا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں‘ بارہ سے چالیس ہزار روپے تک بجلی کے بل لہرا کر جس طرح چیخ و پکار کر رہی اور بین ڈال رہی تھیں‘ وہ منا ظر دیکھے نہیں جاتے تھے۔ اوور سیز پاکستانیوں کی مدد سے کچھ ایسی بیوائوں اور معذور افراد کے بل ادا کرائے جو بالکل ہی لاچار اور عاجز تھے لیکن یہ تعداد متاثرین کی تعداد کے حساب سے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی۔ اب اس مہینے‘ ایک بار پھر‘ جو بجلی کے بل موصول ہو رہے ہیں‘ انہوں نے پچھلے ماہ کی رہی سہی کسریں بھی نکال کر رکھ دی ہیں۔ اخبارات میں شائع شدہ یہ خبر دل دہلا رہی ہے کہ پندرہ ہزار روپے کا بجلی کا بل دیکھنے کے بعد معذور باپ کی بیٹی نے خودکشی کر لی۔ لاہور میں مزنگ کے علاقے کی لڑکی بجلی کا بل زیادہ آنے پر اپنے ہلکے سے سونے کے ٹاپس اور ناک کا کوکا لیے سناروں کی دکانوں کے چکر کاٹ رہی تھی لیکن جس قدر بجلی کا بل اسے آیا تھا‘ اس حساب سے رقم نہیں مل رہی تھی۔ اس کا مجرم کون ہو گا‘ یہ فیصلہ کرنے والی یقینا خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ لاہور، راولپنڈی، ملتان اور فیصل آبادسمیت ملک کے ایک ایک حصے میں جا کر دیکھئے‘ اپنی چادروں کو فریاد کی صورت میں پھیلائے ہوئے‘ احتجاج کرتی بیوائوں کی ایک فوج ملے گی جو بجلی کے بلوں کو ایسے پکڑے ہوئے ہو گی جیسے اس کو کہیں سے موت کا پروانہ مل گیا ہو۔ جب بھی ٹی وی آن کریں تو اس میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کا اعلان سننے کو ملتا ہے۔ اب تو لوگ ڈرتے ہوئے ٹی وی دیکھنے سے بھی پرہیز کرنے لگے ہیں کیونکہ یقین ہوتا ہے کہ انہیں ایسی خبریں ہی دیکھنے کو ملیں گی جس سے ان کا بلڈ پریشر بڑھے گا۔ اسلام آباد کا مزدوری کرنے والا ایک رہائشی روتے ہوئے احتجاج کر رہا تھا کہ اس کی کُل تنخواہ بیس ہزار ہے‘ سات ہزار وہ دو کمروں کے ایک چھوٹے سے گھر کا کرایہ دیتا ہے اور ان دو کمروں والے گھر کا بل 18 ہزار آیا ہے۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ اپنی تنخواہ سے وہ بجلی کا بل ادا کرے یا گھر میں راشن ڈالے؟ کوئی ایک دن کی بات ہو تو بے بس اور لاچار عوام صبر کر لیں مگر محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست نے مہنگائی کے دُرّے مارنا اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔
پاکستان میں آئے روز بجلی کے نرخوں میں اضافے کی روایت کب شروع ہوئی تھی‘ اس وقت تختِ شاہی پر کون براجمان تھا‘ ان سوالوں کا جواب تلاش کرتے ہوئے جب ذہن پر زور دیں تو بس اتنا یاد آتا ہے کہ ہم پر جب یہ ظلم ڈھانے کی ابتدا ہوئی تھی تو وہ یکم اپریل 1991ء کی ایک دوپہر تھی۔ یہی وہ روزِ سیاہ تھا جب یکایک بجلی کی قیمتوں میں 12 فیصد اضافہ کر کے عوام کو ''اپریل فول‘‘ بنایا گیا تھا۔ چند ماہ بعد‘ جنوری 1992ء میں بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر ڈھائی فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ اگلے ہی ماہ‘ فروری میں ایک بار پھر ڈھائی فیصد، اپریل 92ء میں دوبارہ ڈھائی فیصد اور ستمبر 92ء میں 16 فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ مارچ 93ء میں ڈھائی فیصد، نومبر میں لگ بھگ 25 فیصد اور جولائی 95ء میں ساڑھے اکیس فیصد اضافہ کیا گیا۔ یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جو آج ریکارڈ کا حصہ بن کر تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ اب اگر بجلی کے نرخوں پر اضافہ کے اس چارٹ پر ایک نظر ڈالیں اور مہنگائی کا بوجھ عوام پر لادنے والے ان چہروں کو پہچاننے کی کوشش کریں تو عوام کے غم میں گھلنے والی‘ دو غم گسار جماعتوں‘ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نام ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ قدرت کا کھیل دیکھیں کہ یہی وہ دو مرکزی جماعتیں ہیں‘ جو تین دہائیوں بعد عوام کو پی ٹی آئی کی ''نااہل حکومت‘‘ کی پیدا کردہ مہنگائی سے نجات دلانے کے نام پر بر سر اقتدار آئیں اور اب بجلی کے نرخ بڑھانے کے کھیل میں اس طرح مست ہیں کہ نہ تو انہیں عوام کی چیخیں سنائی دیتی ہیں اور نہ غریبوں کی خود کشیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی بے نیازیاں دیکھئے کہ بجائے حکومتی اخراجات کم کرنے کے‘ آئے روز پانچ‘ سات نئے مشیر بھرتی کر کے معیشت کی جھکی ہوئی کمر کو زمین کے ساتھ لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
آج کی نسل یقینا یہ جاننا چاہے گی کہ بجلی کا تازیانہ کب، کس نے اور کیوں برسایا تو اس کیلئے سادہ لوح عوام سے گزارش ہے کہ وہ ایک بار امریکہ کے مشہور تحقیقاتی صحافی اور رائٹر Greg Palast‘ جنہیں دنیا بھر میں 'بیسٹ سیلر‘ اور تحقیقاتی کتابوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے‘ کا ایک مضمون پڑھ لیں جس میں ہمارے ملک میں مہنگی بجلی کی بنیاد رکھنے کے بہت سے رازوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ گریگ پلاسٹ کے مطابق‘ امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی کمپنیاں مختلف ملکوں کے ساتھ اپنی پسند کی شرائط پر بجلی کی فروخت کے معاہدے کرتی ہیں۔ بدلے میں بدعنوان حکمرانوں کو 'کک بیکس‘ کی شکل میں بھاری رقوم بیرونِ ملک فراہم کی جاتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے عوام کے ''غم خوار اور ہمدرد‘‘ سیاست دان ہائیڈل پاور منصوبوں کو شجرِ ممنوعہ قرار دے دیتے ہیں اور ایسا واویلا کرتے ہیں جیسے پانی سے بجلی پیدا کرنا یا ڈیم بنانا انتہائی نقصان کا سودا ہے اور پھر بجلی کا ایک بحران پیدا کیا جاتا ہے جس کے بعد آئی پی پیز کو مسیحا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اپنی کک بیکس کی خاطر آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے جاتے ہیں اور سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ 1997ء میں جب میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت میں آئے تھے تو ایک برس بعد ہی حکومت پاور پلانٹس سے خریدی گئی بجلی کے واجبات ادا کرنے میں ناکام ہو گئی تھی اور اس کا نتیجہ سود کی بلند ہوتی شرح کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔ ساتھ ہی ان پلانٹس سے خریدی جانے والی بجلی کے سبب بلوں کا بوجھ بھی ناقابلِ سکت حد تک بڑھانا شروع کر دیا گیا اور پھر ان کمپنیوں کے 'بادشاہ گروں‘ نے دبائو ڈال کر حکومت سے زبردستی ادائیگیاں کروائیں۔ 1998ء میں اُس وقت کے وزیراعظم نے ایک سکیورٹی ادارے کے سربراہ سے کہا تھا کہ وہ 36 ہزار افسران اور جوانوں کو واپڈا میں بھیجنے کا آرڈر جاری کریں تاکہ وہ ہر گھر سے بجلی کا بل اکٹھا کریں۔ اولاً اس پر خاصی لے دے ہوئی مگر پھر ہر گائوں، قصبے اور شہر کے گلی محلوں میں جوانوں کو بھیجا جانے لگا‘ جس سے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے معاملات کافی بہتر ہو گئے۔ اس حوالے سے ہیلری کلنٹن کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ ''حکومت کے اس اقدام سے رقوم کی ادائیگی میں کافی بہتری آئی ہے‘‘۔
دو دہائیاں قبل‘ جب ایک آمر حکمران تھا تو خیبر سے کراچی تک‘ پاکستان کی ملیں اور کارخانے تین تین شفٹوں میں کام کر رہے تھے‘ لوڈ شیڈنگ بہت کم تھی‘ بجلی کے بل پر ہر صارف کو حکومت کی طرف سے سبسڈی دی جاتی تھی۔ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹا کر حکومت سنبھالنے والوں نے کبھی عوام کو بتایا کہ انہوں نے کس کس سے مہنگی بجلی کے معاہدے کیے تھے اور پانی سے بجلی کی پیداوار کے کتنے منصوبے شروع کیے تھے؟ اس وقت تیرہ جماعتی اتحادی حکومت کے دور میں عام صارف 36 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ نصف درجن سے زائد جبری ٹیکسز لگانے کے بعد یہ قیمت ساٹھ‘ ستر روپے فی یونٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ عمران خان کو لوگ ایسے ہی اب یاد نہیں کر رہے‘ جس نے کورونا کے سخت حالات میں بھی ملک بھر کے دکانداروں کو بجلی کے بلوں پر رعایت دی تھی۔ اُس دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان تک نہ تھا‘ پھر آج لوڈ شیڈنگ کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا بجلی کی پیداوار میں کمی آئی ہے؟ یا پھر لوڈشیڈنگ کر کے بھاری بھرکم بلوں کا عذاب کچھ کم کر کے عوامی اشتعال کو خاص حد عبور کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک چینل پر ایک خاتون ہاتھ میں بجلی کا بل لہراتے ہوئے روہانسی آواز میں بتا رہی تھی کہ وہ ایک فیکٹری میں پندرہ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرتی ہے‘ اس کے تین بچے ہیں اور اسے بارہ ہزار روپے کا بجلی کا بل بھیج دیاگیا ہے جبکہ اس کے پاس ایک پیڈسٹل فین اور تین انرجی سیور ہیں۔ حالیہ دنوں میں پکڑے جانے والے کئی چوروں نے اس جرم کی یہی وجہ بتائی ہے کہ مہنگائی اور بجلی کے بلوں نے انہیں اس راہ پر ڈال دیا ہے، اس شدید حبس اور گرمی میں رات بھر بچوں کا رونا اور چیخنا برداشت نہیں ہوتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved