دنیا کے امیر ترین فرد کا اعزاز کئی بار اپنے نام لکھوانے والے بل گیٹس کی (سابقہ) اہلیہ میلنڈا گیٹس کہتی ہیں کہ ہر وہ عورت بہت طاقتور ہے جس کی کوئی آواز ہو مگر ہاں! آواز کو تلاش اور شناخت کرنا بہت محنت طلب معاملہ ہے۔ سوال صرف عورت کا نہیں بلکہ ہر انسان کا ہے۔ ہر وہ انسان طاقتور ہے جس کی کوئی واضح آواز ہوتی ہے۔ آواز سے کیا مراد ہے؟ سوچ و فکر‘ اور کیا! سوچ ہوتی ہے تو آواز بھی ہوتی ہے۔ آپ نے ہر شعبے میں اور ہر سطح پر ایسے لوگ دیکھے (اور شاید بھگتے بھی) ہوں گے جو کسی جواز کے بغیر بولتے رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اُن کا بولنا اصلاً اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ اپنی موجودگی کو محسوس کرانا چاہتے ہیں۔ اپنی موجودگی محسوس کرانا اچھی بات ہے مگر اس کے لیے ٹھوس سوچ اور رائے کا ہونا بھی تو لازم ہے۔ اگر کوئی محض بولتا رہے تو اُس کا بولنا کس کام کا؟ بات تو جب ہے کہ بات میں دم ہو، انسان جب کچھ بولے تو محسوس ہو کہ کچھ بولا جارہا ہے۔
ٹھوس رائے کا حامل ہونا دنیا کے ہر انسان کے لیے لازم ہے۔ جب تک انسان سوچنے کے ہنر سے اچھی طرح واقف نہ ہو‘ تب تک کسی بھی معاملے میں ٹھوس اور جامع رائے کا حامل نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچنے کے معاملے میں غیر معمولی مہارت پیدا کیے بغیر کوئی بھی اپنے آپ کو کسی اعلیٰ مقام تک نہیں پہنچا سکتا۔ جب انسان سوچنا سیکھتا ہے تب ہی کسی بھی معاملے میں ایک واضح رائے کا حامل ہونے کے قابل ہو پاتا ہے۔ عمومی سطح پر ہم جسے سوچ کہتے ہیں وہ محض ردِعمل ہوتا ہے۔ جب ہم کوئی بات سنتے ہیں یا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تب ذہن میں کچھ نہ کچھ ہلچل مچتی ہے۔ ہم اس ہلچل ہی کو سوچنا سمجھ لیتے ہیں جبکہ یہ محض رِسپانس ہوتا ہے۔ عمومی سطح کا رسپانس اصلاً ہمارے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ یہ ہمارے معمولات کا حصہ ہوتا ہے۔ ہم بہت کچھ تحت الشعور کی سطح پر کرتے ہیں یعنی ہمیں خود بھی کچھ خاص اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
دنیا کا ہر انسان دماغ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ دماغ یعنی ایک لوتھڑا۔ اِس لوتھڑے ہی میں ذہن ہوتا ہے۔ ذہن یعنی دماغ کی کارکردگی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دماغ عطا کیا ہے۔ اِسے ذہن بنانا ہمارا کام ہے۔ دماغ کو ذہن بنانے میں ایک عمر لگتی ہے۔ یہ بہت بھاری پتھر ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اِسے محض چوم کر رکھ دیتے ہیں۔ اور دوسرے بہت سوں کا تو یہ حال ہے کہ اس بھاری پتھر کو دیکھ کر دور ہی سے راستہ بدل لیتے ہیں!
عام آدمی بالکل عمومی سطح پر زندگی بسر کرتا ہے۔ اِسی لیے تو وہ عام آدمی کہلاتا ہے۔ جو اس سطح سے بلند ہونا چاہتے ہیں اُنہیں بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم پورے جوش و جذبے سے اسے بسر کریں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ اگر یہ کام آسان ہوتا تو ہر انسان کر گزرتا، اُس کی زندگی میں بہت سی ایسی رنگینیاں دکھائی دے رہی ہوتیں جو اس وقت دکھائی نہیں دے رہیں۔ ہر انسان اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ دوسروں سے بلند اور نمایاں ہونے کے لیے اسے چند بھاری فیصلے کرنا پڑتے ہیں، چند قربانیاں دینا پڑتی ہیں، چند معاملات میں ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔ جب کوئی یہ طے کرتا ہے کہ اپنے وجود کو معنویت بخشنی ہے، کچھ سوچنے کے قابل ہونا ہے اور کچھ کر دکھانا ہے تب سوچنے کا فن سیکھنے پر بھی متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ سوچنے کا فن‘ یعنی سوچنے کی صلاحیت پروان چڑھائے بغیر ہم کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کرسکتے۔
جب ذہن پنپتا ہے، سوچ کوئی واضح سمت اختیار کرتی ہے تب انسان بولنے کے قابل ہو پاتا ہے یعنی اُس کی ایک آواز ہوتی ہے اور وہ سنائی بھی دینے لگتی ہے۔ دنیا کے ہر انسان کی آواز واضح ہونی چاہیے تاکہ سنائی دے، شخصیت کی طاقت کا احساس دلائے۔ انسان جو کچھ سوچتا اور کرتا ہے اُس کی بنیاد پر اُس کی شخصیت کے رنگ نکھرتے ہیں۔ جب شخصیت پروان چڑھتی ہے تبھی انسان دوسروں کو دکھائی دیتا ہے۔ اپنی موجودگی کا احساس دلانا آسان نہیں۔ مختلف شعبوں میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو آپ نے دیکھا ہوگا۔ وہ راتوں رات یا محنت کے بغیر کچھ نہیں بن گئے بلکہ انہوں نے اپنے دن رات ایک کیے، جسم و جاں کو شدید تھکن سے چُور کرنے والی محنت کی راہوں پر گامزن ہوئے‘ تب جا کر وہ کچھ بن سکے یا بننے کے قابل ہو پائے۔ تبھی وہ کچھ کر پائے اور لوگوں کو اپنی حیثیت‘ اپنا وجود محسوس کرا پائے۔
ہر انسان کو اپنے مقصدِ تخلیق کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ہم کسی واضح مقصد کے بغیر خلق نہیں کیے گئے۔ ایک مقصد تو وہ ہے جو ہمارے خالق نے طے کیا ہے اور جو ہمارا ازلی و حقیقی مقصد ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک مقصد وہ بھی ہے جو ہمیں طے کرنا ہے۔ ہر انسان کو اپنی صلاحیت و سکت کو پہچاننا ہے تاکہ وہ کچھ کرسکے، دنیا کو اپنی موجودگی کا احساس دلاسکے۔ اس ہجوم سے کچھ بلند ہو سکے۔ یہ کسی بھی اعتبار سے آسان کام نہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنے وجود کو پوری گہرائی و گیرائی کے ساتھ شناخت کرنا اور اُسے دنیا کے سامنے پیش کرنا کسی کے لیے بھی کوئی کھیل نہیں۔ اپنی آواز کو تلاش اور شناخت کرنا ہر اُس انسان کے لیے لازم ہے جو دوسروں سے منفرد دکھائی دینے کا متمنی ہے۔ بھیڑ کا حصہ بنے رہنے کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ ساری محنت اس بات میں ہے کہ انسان اپنے آپ کو بھیڑ سے الگ کرے، منفرد دکھائی دے اور وہ کرے جو کسی نے نہ کیا ہو یا کم ہی لوگوں نے کیا ہو۔ اپنے آپ کو پہچاننے میں کبھی کبھی زمانہ لگتا ہے۔ کم ہی لوگ ہیں جو بہت چھوٹی عمر سے یعنی زندگی کی ابتدا ہی میں اپنے وجود کو اچھی طرح پہچان لیتے ہیں اور پھر موزوں ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اپنے وجود کی گہرائی و گیرائی سے بخوبی آشنا ہو جانے والوں کو اپنی پریزنٹیشن کا خوب موقع ملتا ہے۔ اپنی پریزنٹیشن کا مطلب ہے اپنے وجود کو دنیا کے سامنے رکھنا اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کی راہ ہموار کرنا۔ یہ سب کچھ کسی کے لیے کبھی آسان نہیں رہا۔ سبھی چاہتے ہیں کہ لوگ اُنہیں سُنیں مگر اپنی آواز کو قابلِ سماعت بنانا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ شخصیت کو پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ فی زمانہ ہر انسان‘ ذرائع ابلاغ کی بے مثال ترقی کے ہاتھوں‘ انتہائی غیر کارآمد باتوں اور یکسر لاحاصل معاملات میں گم ہوچکا ہے۔ میڈیا کے ذریعے ایسی بہت سی باتیں ہم تک پہنچتی رہتی ہیں جن کا ہماری شخصیت یا زندگی سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ بیشتر معاملات میں ہم بہت سے معاملات میں خواہ مخواہ دلچسپی لے رہے ہوتے ہیں جبکہ دانش کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہم خود کو بچائیں، فضول معاملات میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔ فضول معلومات کے پیدا کردہ لاحاصل شور میں ہمارے باطن کی اصل آواز دب کر رہ جاتی ہے یعنی ہم جو کچھ بن سکتے ہیں وہ نہیں بن پاتے۔
آج ہر انسان حالات کے شدید دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کون اپنے آپ سے اور معاشرے سے کتنا مخلص ہے یا کتنا بدنیت۔ سبھی کو حالات کے ہاتھوں مختلف النوع ذہنی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ جو اپنی سوچ مثبت رکھیں وہ حتمی تجزیے میں کامیاب ٹھہرتے ہیں کیونکہ اُن سے دوسروں کو کچھ نہ کچھ فائدہ ہی پہنچتا ہے۔ فی زمانہ اگر کوئی اپنی زندگی کا کوئی مقصد تلاش یا متعین کرنا چاہتا ہے تو غیر معمولی ذہنی الجھنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے جو انتہائی حوصلہ شکن ہے۔ جن میں قوتِ فیصلہ زیادہ ہو وہ ڈٹے رہتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے افراد خال خال ہیں۔ عمومی سطح پر پیچیدگیاں اس قدر ہیں کہ جن کی زندگی میں نظم و ضبط اور ربط پایا جاتا ہو وہ دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے باطن کی آواز سُنتے ہیں اور اُسے دنیا کے سامنے لانا بھی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ وہ اپنے اندر سن رہے ہیں اُسے دنیا والے بھی سُنیں اور کچھ نہ کچھ فیض پائیں۔ جو اپنی آواز کو تلاش یا شناخت کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے وہی کچھ ایسا کر پاتا ہے کہ لوگ سراہیں اور یاد رکھیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved