فیس بک پر لیہ کے انگریزی کے پروفیسر چاند رضوی صاحب کا سٹیٹس پڑھا تو دل ڈوب سا گیا۔ پروفیسر لالہ میرو انتقال کر گئے۔ ان کی مخصوص اور دل کو موہ لینے والی مسکراہٹ آپ دوبارہ نہیں دیکھ پائیں گے۔ گہری اداسی نے دل پر غلبہ پالیا۔ اگرچہ مجھے لالہ میرو سے ملے کئی برس گزر چکے تھے لیکن ان سے میری کچھ یادیں تھیں‘ دراصل وہ میرے بڑے بھائیوں کے کلاس فیلوز اور دوست تھے۔ ایک خوبصورت رویے اور مسکراہٹ کے مالک۔یاد آیا کہ میں نے جرنلزم میں داخل ہونے کے لیے جس بندے سے پہلا سفارشی رقعہ لیا تھا وہ لالہ میرو ہی تھے۔
میں ملتان یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی لٹریچر کی ڈگری لے کر فارغ ہوا تو 1994ء میں دو تین ماہ میں نے فرنٹیئر پوسٹ ملتان کے بیوروآفس میں انٹرشپ کی جس کی سفارش ڈاکٹر انوار احمد نے بیوروچیف مظہر عارف صاحب کو کی تھی۔ وہاں مظہر صاحب کے ساتھ دو تین ماہ گزارنے کے بعدمیں زندگی کا بڑا فیصلہ کر چکا تھا کہ میں نے کوئی سرکاری بابو یا لیکچرر نہیں بننا۔ میرے اندر وہ جذبات یا قابلیت نہیں ہے جو ایک سرکاری افسر یا لیکچرر بننے کیلئے درکار ہوتی ہے۔ مجھے لگا صحافت میرے مزاج کو سوئٹ کرتی ہے۔پھر جب فیصلہ کر لیا تو خاندان کی مخالفت کے باوجود مشکل راستے کو چن لیا۔ خیر میری بدقسمتی جونہی فیصلہ کیا کہ اب صحافی بننا ہے تو انہی دنوں اس انگریزی اخبار پر زوال آگیا اور انہوں نے ملتان کا بیوروآفس بند کر کے مظہر عارف کو پشاور ہیڈ آفس بھیج دیا۔ میں فارغ ہوگیا۔مجھے یوں لگا میرے اوپر سے کسی نے چھت اور نیچے سے زمین ایک ساتھ کھینچ لی ہو۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔لگاکیرئیر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ملتان میں دل لگ گیا تھا‘نئے یار دوستوں کی محفلوں کا عادی ہوچکا تھا‘ اب کون ملتان چھوڑ کر واپس گائوںجائے؟
اسی پریشانی میں ایک دن میں لیہ گائوں گیا اوروہاں سے دل کیا کہ کالج جا کر اپنے استادوں سے ملوں اور اپنے اس ہوسٹل کا چکر لگائوں جہاں چار سال گزارے تھے اور ابھی تک دل وہیں اٹکا ہوا تھا۔ زندگی کے وہ چار برس کبھی نہیں بھولیں گے جہاں کیا کمال دوست بنے اور بچھڑے۔ہوسٹل کے ان اداس کمروں میں جا کر پرانے دوست تلاش کرنے کی کوشش کی جہاں کچھ اجنبی چہرے قیام پذیر تھے جنہیں پتہ نہیں تھا کہ کبھی انہی کمروں میں ہمارے کیسے کیسے دوست رہتے اور سارا دن گپیں چلتی تھیں۔ بوائز ہوسٹل کے وارڈن پروفیسر ظفر حسین ظفر یاد آئے جن کی مجھ پر خاصی مہربانی رہی اور ان کے چند احسانات تو ایسے تھے جنہوں نے میری زندگی بدل دی۔اپنے ہوسٹل کے کمرے میں گیا تو کمرے کے دروازے پر کافی دیر اداس کھڑا رہا۔ اپنے چار سالوں کے مختلف روم میٹس‘ کبریا خان سرگانی‘ ذوالفقار سرگانی‘ فتح پور سے تعلق رکھنے والے محمد رفیق‘حنیف‘ ظفر بلوچ‘ سہیل اورعارف کو یاد کیا۔ پتہ نہیں وہ سب دوست کہاں ہوں گے جن کے بغیر دن رات نہیں گزرتے تھے۔ کمرے کے دروازے پر دستک دینے ہی لگا تھا کہ خیال آیا اب نہ جانے اندر کون رہتا ہوگا‘ انہیں کیا بتائوں گا میں کون ہوں اور کس کی تلاش میں ایک طویل سفر طے کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ہاتھ وہیں رک گیا اور ہوسٹل سے باہر نکل آیا۔
باہر نکلا تو اچانک سرور باجوہ صاحب مل گئے جو میرے لیے بڑے بھائی کی طرح تھے۔ لیہ کالج کی شان۔ وہ اکثر پروفیسر بابر خان صاحب کے ساتھ کالج میں اکٹھے پھرتے دیکھے جاتے۔ کالج میں کسی جگہ کوئی گڑ بڑ کرنے کی کوشش بھی کرتا تو وہاں پروفیسر بابر صاحب اور سرور باجوہ کی ایک جھلک ہی کافی ہوتی‘ سب ڈر کے مارے بھاگ جاتے۔ باجوہ صاحب نے پکڑ لیا‘ کینٹین پر لے گئے۔ پوچھنے لگے‘ کیا ہورہا ہے۔ میں نے بتایا میں صحافی بننے کے چکر میں ہوں۔ پوری کہانی سنائی تو بولے: یار لالہ میرو لاہور میں یونیورسٹی میں پڑھتا رہا ہے‘ وہ کافی دوستوں کے نام لیتا رہتا ہے‘ چلیں اس سے ملتے ہیں شاید کسی کو جانتا ہو۔سرور باجوہ صاحب نے مجھے اپنی بائیک پر بٹھایا اور لیہ شہر کی طرف چل پڑے۔ ان کا خیال تھا کہ کسی تھڑے یا چائے کی دکان پر لالہ میرو پایا جائے گا۔تھوڑی دیر بعد سرور باجوہ صاحب نے لالہ میرو کو تلاش کر لیا۔باجوہ صاحب نے کہا: اسے جانتے ہو؟ لالہ میرو نے مجھے دیکھا تو مسکرا کر کہا :جانا پہنچانا لگتا ہے۔ باجوہ صاحب نے انہیں بتایا: یار سلیم اور نعیم کا چھوٹا بھائی ہے۔ لالہ میرو نے سنا تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ مزید پھیل گئی۔ مجھے قریب کیا اور پوچھنے لگے :کیا حال ہے ڈاکٹر نعیم کا؟ سرور باجوہ نے بتایا‘ یار یہ مسئلہ ہے لاہور میں کوئی واقفیت ہے؟لالہ میرو نے کہا: ہاں اپنا یار ہما علی ہے ناں‘لاہور پریس کلب کا صدر ہے۔اپنا یارِ غار ہے۔ یونیورسٹی اکٹھے پڑھے ہیں۔مجھ سے پوچھاوہ کچھ کرسکتا ہے ؟میں اچھل پڑا اور کہا: وہ تو لاہور فرنٹیئر پوسٹ کے چیف رپورٹر ہیں‘ پریس کلب کے صدر ہیں‘ انہیں کون انکار کرسکتا ہے۔مجھے ملتان میں بے شک انٹرشپ پر رکھ لیں جیسے پہلے چل رہی تھی۔لالہ نے ادھر ادھر دیکھا اور ہوٹل والے لڑکے کو کہا زرا کاغذ اور قلم لائو۔لالہ نے پھرکہا: ہما علی اپنا یار ہے‘ کیسے نہیں کرے گا۔ یہ کہتے ہوئے لالہ کی آنکھوں میں چمک ابھری جو کسی پرانے دوست کو یاد کرکے ابھرتی ہے۔لالہ میرو جھک کر بڑی محبت سے وہ رقعہ ہما علی کے نام لکھتے رہے۔رقعہ تہہ کر کے مجھے دیا اور کہا: لاہور جائو اور ہما علی کو یہ دے دو۔ اسے بتائو لالہ میرو نے بھیجا ہے۔ نام ہی کافی ہے۔ جگر ہے اپنا۔
میں نے رقعہ پڑھے بغیر جیب میں ڈالا۔سلیم بھائی سے ان کے بینک جا کر لاہور جانے کا کرایہ لیا اور اسی رات لیہ سے لاہور چلا گیا۔ صبح سویرے مینار پاکستان کے پاس اڈے پراترا وہاں سے ویگن پکڑ کر چیئرنگ کراس پر واقع دفتر پہنچ گیا۔ سورج نکلنے کا انتظار کیا اور دفتر پہنچا تو پٹھان چوکیدار کو بتایا کہ ہما علی صاحب سے ملنا ہے۔ وہ مجھے دیکھ کر ہنسا اور بولا: بھائی اخبار کا دفتر تو شام کو چلتا ہے‘ ابھی کہاں۔ وہ دوپہر یا شام کو آئیں گے‘ پھر آنا۔اب لاہور میں سارا دن گزارنا تھا۔ نہ جان نہ پہچان۔دوپہر کے بعد دفتر کا چکر لگایا تو چوکیدار بولا: اوپر چلے جائو‘ ہما علی اوپر ہیں۔ اوپر گیا تو آفس بوائے سے پوچھا تو اس نے ایک طرف اشارہ کیا جہاں ایک خوبصورت نوجوان نظر آیا جو چند دوستوں کے ساتھ شاید شطرنج کھیل رہا تھا۔ اس ہینڈسم اور قد کاٹھ کے مالک نوجوان کو دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے بازی گر کے ہیرو بابر زمان سے مل رہا ہوں۔میں قریب گیا تو مجھے مڑ کر دیکھا۔ میں نے جیب سے رقعہ نکالا اور کہا: لیہ سے لالہ میرو نے بھیجا ہے۔ایک لمحے کے لیے ہما علی کی آنکھوں میں چمک ابھری۔ رقعہ پڑھا اور کہا: لیکن اس وقت اخبار خود بحران میں ہے‘ابھی کوئی جگہ کہیں نہیں ہے۔ اتنا کہا اور مجھے رقعہ واپس تھمایا اور دوبارہ شطرنج کھیلنے لگے۔مجھے لگا آسمان سر پر گر گیا ہو۔ رات بھر کا امید بھرا اتنا طویل سفر بمشکل ایک منٹ سے کم وقت میں ختم ہوگیا ۔ آفس بوائے نے مجھے صدمے کا شکار دیکھ کر اشارہ کیا اور میں دوڑ کر اخبار کی سیڑھیاں اتر گیا۔آج برسوں بعد لالہ میرو کا وہ خوبصورت مسکراتا چہرہ یاد آیا جنہیں میں کبھی یہ بتانے کا حوصلہ نہ کرسکا کہ کام نہیں ہوا تھا کہ کہیں ان کا دل نہ ٹوٹ جائے۔
لالہ میرو کی موت کی خبر پڑھ کر عجیب سی اداسی طاری ہوئی۔ جنہوں نے مجھے جرنلزم میں انٹری کیلئے ایک محبت بھرا رقعہ اپنے دوست کے نام دیا تھا۔ ان 28 برسوں میں مجھے زندگی کہاں سے کہاں لے آئی لیکن ہمارے لیہ کے لعل لالہ میرو کا وہ محبت اور پیار سے لکھا گیا رقعہ ہمیشہ میرے دل میں محفوظ رہا جس کی لذت آج تک اپنے اندر دور تک محسوس کرتا ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved