تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     18-09-2022

سیلاب زدگان کیلئے چین کی فکر مندی

پاکستان کے چاروں صوبے بلاشبہ سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں‘ تاہم جولائی کے ابتدائی ایام میں صرف بلوچستان میں سیلابی ریلوں سے تباہی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ گمان نہیں تھا کہ اس قدر وسیع پیمانے پر نقصان ہو گا مگر وقت کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی حد تک سیلاب سے تباہی کا احساس گہرا ہونے لگا تو رفاہی ادارے اور سرکاری سطح پر امدادی ٹیمیں سیلاب زدگان کی مدد کو پہنچیں۔ اس دوران سیلابی ریلوں میں لوگوں کے مال مویشی اور انسانوں کے بہہ جانے کی ویڈیوز سامنے آئیں تو قومی سطح پر یہ تقاضا کیا جانے لگا کہ حکومت بلوچستان کے مکینوں کو سیلاب سے محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کرے اور جانی و مالی نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ سیلاب کی تباہی بارے جب پاکستان کے لوگ پوری طرح آگاہ نہیں تھے تب بھی چین کے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے خاموشی کے ساتھ بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کر رہے تھے۔
باوجود اس کے کہ سیلاب سے سی پیک کے منصوبے بھی متاثر ہوئے مگر چینی سفارت خانے کا بلوچستان میں تعینات عملہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہو گیا۔ سی پیک کے سماجی تعاون سے متعلق فریم ورک کے تحت پہلے مرحلے میں چار ہزار ٹینٹ‘ پچاس ہزار کمبل اور دیگر سامان فراہم کیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں 25ہزار ٹینٹ اور ضروریات کا سامان بھیجا گیا۔ چین کی فضائیہ کارگو طیاروں کے ذریعے مسلسل امدادی سامان پہنچا رہی ہے۔ چین کی ریڈ کراس سوسائٹی پاکستان میں ہلال احمر کے اشتراک سے سیلاب متاثرین کی امداد کر رہی ہے۔ تین لاکھ ڈالر ہلال احمر کو دیے گئے ہیں ۔جبکہ پاک چین تاجروں کی تنظیم نے بھی وزیراعظم کے فلڈ ریلیف فنڈ میں کروڑوں روپے کے عطیات دیے ہیں۔ سی پیک پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں نے بھی اپنے اپنے طور پر سیلاب متاثرین کی مدد کی ہے۔پاک چین دوستی کے جذبے کے ساتھ حال ہی میں دو چینی کمپنیوں نے پاکستان میں متاثرین سیلاب کے لیے تین کروڑ 22لاکھ روپے مالیت کی امددا فراہم کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ امداد لاڑکانہ‘ نوڈیرو‘ خیرپور‘ سانگھڑ‘سوات اور مردان میں تعمیر نو کے لیے خرچ کی جائے گی۔ چینی حکومت اب تک 400 ملین یوآن کی امداد پاکستان کو دے چکی ہے جو13ارب روپے سے زائد بنتے ہیں۔اسی طرح چین میں پاکستان کے قونصلیٹ نے جب امداد کی اپیل کی تو محض ایک ہفتہ کے دوران 12 ملین یوآن جمع ہو گئے۔ غذائی اجناس کی قلت کے پیش نظر چین پیاز اور ٹماٹر بھی بھجوا رہا ہے۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض کی روک تھام کیلئے چینی ڈاکٹرز کی ایک ٹیم بھی پاکستان پہنچ رہی ہے۔پاکستان سے چین کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین کے عوام نے دل کھول کر عطیات دیے ہیں‘ حتیٰ کہ سکولوں کے طالب علموں نے اپنی پاکٹ منی سیلاب متاثرین کی امداد میں جمع کرا دی۔
پاکستان پر مشکل کی اس گھڑی میں برادر اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے ممالک نے بھی کھل کی مدد کی ہے جبکہ چین کی اعلیٰ قیادت‘ چین کے پرائیویٹ سیکٹر اور عوام کی طرف سے بھی مثالی جذبے کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ چینی سفیرنے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خود جا کر حالات کا جائزہ لیا ہے ۔بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں جب انہیں معلوم ہوا کہ متاثرین کو سب سے زیادہ خیموں کی ضرورت ہے تو انہوں نے فوری طور پر 25 ہزار خیمے مہیا کرنے کی منصوبہ بندی کی ۔ کوویڈ وبا کے دوران بھی چین کی جانب سے پاکستان کو وسیع پیمانے پر امداد فراہم کی گئی۔ ماسک اور وینٹی لیٹرز سے لے کر کورونا ویکسین تک یہ سلسلہ جاری رہا جس سے ثابت ہوا کہ پاکستان اور چین سدابہار سٹریٹجک شراکت دار اور مضبوط دوستی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں‘ جنہوں نے ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔حالیہ سیلاب کی صورتحال کے حوالے سے چینی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ابھی تو ریسکیو اور بحالی کا عمل جاری ہے‘ جب متاثرین کی آباد کاری کا مرحلہ آئے گا تو پاکستان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔
نہ صرف یہ کہ چین حالیہ مشکلات میں پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے بلکہ آئندہ سیلاب جیسی آفات کے نقصانات سے بچنے کیلئے چینی کمپنیاں پاکستان کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں‘ کیونکہ چین نے بہترین منصوبہ بندی سے سیلاب جیسی آفات کے نقصانات کو کم کرنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ چین کے نیشنل گلیشیر پرمافراسٹ اینڈڈیزرٹ سائنس ڈیٹا سنٹر کی ویب سائٹ پر دس برسوں میں چائنا پاکستان میں زلزلے کا ڈیٹا سیٹ‘ گزشتہ ایک سو سال میں درجہ حرارت کی تبدیلیوں کا ڈیٹا سیٹ حتیٰ کہ ایک سو سال کی بارش کا وقتی اور مقامی ڈیٹا سیٹ دیکھ سکتے ہیں۔یہ سی پیک کو قدرتی آفات کی روک تھام میں بنیادی ڈیٹا کی مدد فراہم کرتا ہے۔اگست میں چین کی لان چو یونیورسٹی کا بیلٹ اینڈ روڈ لیزر ریڈار نیٹ ورک کا پشاور سٹیشن مکمل ہوا ہے‘ یہ مشاہداتی نیٹ ورک مختلف قسم کے جدید سیٹلایٹ ریموٹ سینسنگ مشاہدات کو مربوط کرتے ہوئے خطے میں جامع نگرانی کا نظام وضع کرے گا جس سے موسمیاتی آفات کی پیشگوئی‘ درستگی اور ریزولیوشن پر مبنی قبل از وقت وارننگ کا بہترین نظام قائم ہو جائے گا۔ اسی طرح چائنا انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کوآپریشن ایجنسی کے ڈائریکٹر لووچاؤہوئی نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق سے ملاقات کے دوران اظہار کیا کہ پاکستان اور چین ہر موسم کے سٹریٹجک اور باہمی تعاون کی روایت کے حامل بھائی ہیں۔قدرتی آفات کی پیشگوئی اور روک تھام مشکل ہے تاہم آفات کی پیشگی وارننگ‘ ہنگامی امداد اور آفات کے بعد تعمیرنو میں تعاون سے آفات کے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک ایسے موقع پر شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی ہے جب پاکستان کو سیلاب کی وجہ سے معاشی بحران کا سامنا ہے۔علاقائی فورم پر وزیر اعظم کی شرکت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔انہوں نے پاکستان کا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھا اور پاکستان میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ذکر کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی کی تجویز پیش کی تو ایس سی او رکن ممالک نے ان کی حمایت کی۔ چینی صدر شی جن پنگ نے وزیر اعظم شہباز شریف کے بارے جو الفاظ کہے اس سے پاک چین تعلقات کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چینی صدر نے کہا کہ شہباز شریف عملیت پسند اور کارکردگی کی حامل شخصیت ہیں۔ چینی صدر نے کہا کہ چین اور پاکستان قریبی پڑوسی ہیں اور ان کی تقدیر آپس میں جُڑی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی صورتحال میں جو بھی تبدیلی آئے چین اور پاکستان ایک دوسرے کے قابل اعتماد سٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی روسی صدر‘ ایرانی صدر‘ ترکیہ کے صدر اور خطے کے دیگراہم رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں جن کے مثبت نتائج مرتب ہوں گے کیونکہ ایس سی او رکن ممالک کی باہمی تجارت میں مقامی کرنسیوں کا حصہ بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل رکن ممالک دنیا کی تقریباً 40فیصد کی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں‘ ہماری خوش قسمتی ہے کہ چین جیسے پڑوسی ملک سمیت ایس سی او ممالک کے ساتھ پاکستان کے مثالی تعلقات ہیں۔ چین کے تعاون سے پاکستان خود انحصاری کی طرف گامزن ہے‘ اگر اس راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوئی تو یہ سفر ترقی پر منتج ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved