بدلتے رہنا دنیا کی سب سے بڑی اور نمایاں خصوصیت ہے۔ دنیا کی ساری رونق‘ ساری رنگینی تبدیلی ہی سے تو ہے۔ اگر تمام زمانے یکساں نوعیت کے ہوتے تو پھر رنگینی ہم کہاں تلاش کرتے؟ ہر عہد کے انسان نے اپنے وجود اور ماحول کو بدلنے کی اپنی سی کوشش کی ہے اور اِس میں کبھی کامیاب ہوا ہے‘ کبھی ناکام۔ بہر کیف‘ تبدیلی ہی وہ حقیقت ہے جس سے ہم کسی بھی طور چشم پوشی نہیں کر سکتے۔
کیا کسی بھی تبدیلی کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ تبدیلیاں ہوتی ہی اس لیے ہیں کہ محسوس کی جائیں‘ اُنہیں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ہم کسی بھی اہم تبدیلی کو نظرانداز کرنے کی عادت اپنائیں تو اپنے لیے بگاڑ ہی پیدا کریں گے۔ ماحول میں بہت کچھ بدلتا رہتا ہے تاہم سب کا سب اس قابل نہیں ہوتا کہ اُس پر متوجہ ہوا جائے‘ اُس کے بارے میں زیادہ سوچا جائے۔ صرف وہ تبدیلیاں ہمارے لیے کسی بھی اعتبار سے اہم ہوتی ہیں جن کا ہماری زندگی سے کوئی براہِ راست تعلق ہو یا پھر جس کے نتیجے میں ماحول اس حد تک تبدیل ہو کہ ہم نظر انداز کرنے کے متحمل نہ ہو سکیں۔
عمومی سطح پر ہم سبھی تبدیلیوں کو محض نظر انداز کرنے کا رجحان یا میلان رکھتے ہیں۔ اِس کا سبب صرف یہ ہے کہ تبدیلیاں ہمارے لیے گھر کی مُرغی کی طرح ہوتی ہیں۔ جو یہ طے کر لیں کہ کسی نہ کسی طور آگے بڑھیں گے‘ اپنے آپ کو کچھ بنانے کی کوشش کریں گے وہی تبدیلیوں کو خاطر خواہ اہمیت دینے کی ذہنیت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر توجہ چاہتی ہے۔ کریئر کو پروان چڑھانے کی سوچ رکھنے والوں کے لیے لازم ہے کہ اپنے لیے کوئی واضح راستہ منتخب کریں اور اُس پر پوری دل جمعی سے گامزن رہیں۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو توجہ منتشر رکھتا ہے‘ انہماک کی راہ میں دیوار ثابت ہوتا ہے۔ اگر ہم ہر معاملے پر متوجہ ہوتے رہیں تو اپنے ہی وجود سے شدید نا انصافی کے مرتکب ہوں گے۔ ہر تبدیلی ہماری توجہ کی مستحق نہیں ہوتی۔ جن تبدیلیوں سے ہمیں کچھ نہ کچھ فائدہ یا نقصان پہنچ سکتا ہو صرف اُنہی کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے۔
عام آدمی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ خود کو بدلنا ہے۔ آپ اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے جو تبدیلیوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ جب ماحول میں بہت کچھ بدلتا جاتا ہے اور معاملہ ایسے لوگوں تک پہنچتا ہے تب اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ رائی کے دانوں نے مل کر پہاڑ کی شکل اختیار کرلی ہے۔
تحت الشعور کی سطح پر ہم سب اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اگر کچھ بننا ہے‘ کچھ کرنا ہے تو تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پھر بھی ہم تبدیلیوں کو نظر انداز ہی کرتے رہتے ہیں۔ کیوں؟ محض تن آسانی کے باعث۔ کسی بھی تبدیلی کو سمجھنے کے بعد اُس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا ہوتا ہے۔ یہ کام خود بہ خود نہیں ہوتا بلکہ کرنا پڑتا ہے۔ جہاں شعوری سطح پر کچھ کرنا ہو وہاں انسان جان چھڑانے والی ذہنیت کا اظہار کرتا ہے۔ عمومی مزاج تو یہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ معاشرے یا ماحول میں اکثریت اُن کی ہوتی ہے جو خود کو تبدیلیوں سے ہم آہنگ رکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ شدید نقصان دہ ہے مگر پھر بھی تبدیلیوں کو نظر انداز کرنے کی روش پر گامزن رہتے ہیں۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں کا پوری دیانت‘ غیر جانبداری اور حقیقت پسندی سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ترقی اور کامیابی صرف اُس وقت نصیب ہوتی ہے جب شعوری سطح پر کوشش کی جاتی ہے۔ شعوری سطح پر کوشش اُسی وقت ممکن ہے جب انسان تبدیلیوں کو ایک ناقابلِ تردید حقیقت کی حیثیت سے قبول کرے اور اُن سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیوں کے لیے تیار بھی ہو۔ ماحول میں جو کچھ بدل رہا ہوتا ہے وہ ہمیں بھی بدلنے کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ تحریک سے زیادہ دباؤ کا معاملہ ہے۔
تبدیلی کے معاملے میں سب سے اہم‘ بلکہ راز کی بات یہ ہے کہ اِس کے بارے میں نہ سوچا جائے تو اچانک بہت کچھ بدلا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ہم اپنے سامنے ایک پہاڑ سا پاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کو سمجھتے رہنے سے انسان اپنے آپ کو بدلتا جاتا ہے۔ کامیاب زندگی کا راز یہی ہے کہ انسان اپنے ماحول میں رونما ہونے والی ایسی تمام تبدیلیوں پر نظر رکھے جن کا اُس کی زندگی سے کسی نہ کسی حد تک تعلق بنتا ہو۔ یوں تبدیلیوں کو سمجھنے اور اُن کے مطابق تبدیل ہونے میں آسانی رہتی ہے۔
عمومی سطح پر مزاج کی سادہ لوحی کا یہ عالم ہے کہ ہر انسان بہت کچھ تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتا ہے مگر یہی سوچتا رہتا ہے کہ ایک دن اُس کی زندگی بھی بدل جائے گی۔ یعنی ذہن میں یہ تصور راسخ ہو چکا ہے کہ تبدیلیاں خود بہ خود رونما ہوں گی اور زندگی کا رخ تبدیل کردیں گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ماحول میں تبدیلیاں خود بہ خود رونما نہیں ہوتیں بلکہ کسی نہ کسی کی شعوری کوشش کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جب تک ہم پورے ماحول کو نہیں سمجھیں گے تب تک اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔
زندگی الرٹ رہتے ہوئے‘ پورے ہوش و حواس کے ساتھ اپنے وجود کو بروئے کار لانے کا نام ہے۔ یہاں‘ روئے ارض پر‘ کوئی بھی کام خود بہ خود نہیں ہوتا۔ کسی نہ کسی کی شعوری کوشش کسی تبدیلی کو جنم دیتی ہے اور پھر اُس تبدیلی کے نتیجے میں مزید تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ یوں دنیا کچھ کی کچھ ہوتی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ رہا ہے۔ تبدیلی ہی ہر عہد کی سب سے بڑی حقیقت رہی ہے۔ اگر یہ وصف نہ ہوتا تو ہم اب تک غاروں ہی میں بسے ہوئے ہوتے۔ آج ہمیں اپنے ماحول سمیت دنیا بھر میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ سب تبدیلیوں ہی کا نتیجہ ہے۔
جس وصف نے دنیا کو بدلا ہے وہ بھلا آپ کو کیوں نہ بدلے گا؟ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ آپ اپنے وجود کو کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرنے کے موڈ میں ہیں یا نہیں۔ عمومی سطح پر انسان اپنے آپ کو بدلنے سے دور رکھتا ہے اور یہی سوچ کر خوش ہوتا رہتا ہے کہ اُس نے اپنے آپ کو بچا لیا۔ یہ بچانے کا نہیں‘ اپنے آپ کو تباہی کی طرف لے جانے کا معاملہ ہے۔ تبدیلیوں سے بھاگنا انسان کے لیے صرف پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
ہر عہد میں وہی لوگ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے ماحول کو سمجھا‘ اپنی صلاحیت و سکت کا جائزہ لیا‘ ذہن بنایا‘ لگن پیدا کی‘ زندگی کو واضح رخ دینے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کی تعمیل کے لیے پورے خلوص اور انہماک کے ساتھ اپنے وجود کو بروئے کار لانے کی راہ پر گامزن ہوئے۔ آج بھی وہی لوگ کامیاب ہیں جو بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ ساتھ خود کو بدلنے کا مزاج اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا راستہ نہیں کہ چُن لیا اور چل پڑے۔ خود کو بدلنے کے لیے بہت کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ بہت کچھ کھونے کے بعد ہی کچھ پانے کی منزل آتی ہے۔
اگر ہم اپنے ماحول ہی کی بات کریں تو معاملات کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملے گی۔ ڈھائی تین عشروں کے دوران پاکستانی معاشرہ بھی ایسا بدلا ہے کہ بہت کچھ پہچانا نہیں جاتا اور اگر کسی طور پہچان بھی لیجیے تو سمجھنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ سوال صرف مادّی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا نہیں۔ اخلاقی اور روحانی سطح پر بھی بہت کچھ بدل گیا ہے۔ خاندانی نظام کمزور پڑگیا ہے۔ اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت نے آج کی نئی نسل کو شدید ذہنی الجھنوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ جدیدیت کے نام پر محض لچرپن کو زندگی کا حصہ بنانے کی ذہنیت عام ہے۔ قصہ مختصر‘ بہت کچھ بدلا ہے مگر ہم انفرادی سطح پر اپنے آپ کو بدلنے کے لیے زیادہ تیار دکھائی نہیں دے رہے۔ عمومی سطح پر یہی سوچا جارہا ہے کہ ہم خود بہ خود بدل جائیں گے۔ یہ سوچ پورے وجود کو چاٹ جانے والے زہر کے سوا کچھ نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved