پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے 'دنیا نیوز‘ کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ ذاتی مفادات کے لیے انتخابات کی جلدی نہیں ہے۔ خان صاحب کا کہنا تھا کہ اگر حکومت صاف اور شفاف الیکشن کا اعلان کرے تو ہر چیز پر بات چیت ہو سکتی ہے۔عمران خان صاحب کے ان بیانات سے ملک کی متلاطم سیاست میں نسبتاً سکون کا احساس پیدا ہوتا ہے۔اس انٹرویو سے قبل گوجرانوالہ میں اپنے سیاسی جلسے میں خان صاحب حکومت کے خلاف تحریک‘ جسے وہ ''حقیقی آزادی کی تحریک‘‘ کہتے ہیں‘ کے اگلے فیز کا اعلان کر چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیز میں وہ صاف اور شفاف انتخابات کی کال ایشو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ہر طرح کی تنقید کے باوجود پی ٹی آئی کے چیئرمین نے سیلاب کی سنگین صورتحال کو نظر انداز کرتے ہوئے‘ احتجاجی جلسوں کے سلسلے کو ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا بلکہ 28 اگست کو گوجر خان میں زور دے کر کہا تھا کہ ہر حالت میں اپنی اس تحریک کو جاری رکھیں گے۔ تاہم اپنے تازہ انٹرویو میں خان صاحب نے جس طرح بات چیت پر آمادگی کا عندیہ دیا ہے‘ اس سے سیاسی کشیدگی میں کسی حد تک کمی کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔مگر انٹرویو کا سب سے اہم حصہ پاک فوج کے سربراہ کی تقرری کے حوالے سے تھا۔
پچھلے دنوں فیصل آباد میں ایک جلسۂ عام کے دوران عمران خان صاحب نے پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی کے طریقہ کار کے حوالے سے جو متنازع بیان دیا تھا اسے عوامی‘ سیاسی اور دفاعی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ فوج کے تعلقاتِ عامہ کے شعبے کو ایک بیان جاری کرنا پڑا جس میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے پاک فوج کی سینئر قیادت کے بارے میں ہتک آمیز اور انتہائی غیر ضروری بیان پر پاکستان آرمی میں شدید غم و غصہ ہے۔بیان میں کہا گیا تھا کہ ایک ایسے وقت میں پاک فوج کی سینئر قیادت کو متنازع بنانے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے جب پاک فوج‘ قوم کی سکیورٹی اور حفاظت کیلئے ہر روز جانیں قربان کر رہی ہے۔بیان میں واضح کیا گیا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے طریقہ کار کی آئین میں واضح موجودگی کے باوجود سینئر سیاستدانوں کی جانب سے اس عہدے کو متنازع بنانے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے۔
پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی کے بارے میں آئین کی دفعات واضح ہیں۔ ان دفعات کے تحت یہ کلیتاً چیف ایگزیکٹو یعنی وزیر اعظم کا اختیار ہے۔ اس اختیار کو استعمال کرتے وقت ایک مروجہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور اس تعیناتی کے مسئلے کو کبھی متنازع نہیں بنایا گیا۔ اس سوال پر کہ خان صاحب کا یہ مطالبہ کیسے تسلیم کیا جائے کہ نئے انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی حکومت نئے سپہ سالار کی تعیناتی کرے عمران خان کا جواب تھا کہ اس کی کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ عمران خان کے اس انٹرویو کو ملکی سیاسی کشیدگی میں کمی کی طرف ایک اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کے انٹرویو میں اٹھائے گئے سوالات کے جوابات پاکستان کے دیرینہ سیاسی اور معاشی مسائل کا مستقل حل پیش کرتے ہیں تو یہ غلط فہمی ہو گی۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ موجودہ بحران میں جس سوال کو مرکزی حیثیت حاصل رہی اور اب بھی ہے‘ وہ انٹرویو میں شامل نہیں تھے‘حالانکہ عمران خان اپنے جلسوں میں ایسے متعدد نکات کی نشاندہی کر چکے ہیں جن پر سوال بنتے ہیں اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے یہ سوال پوچھنے چاہئیں۔
خان صاحب کے انٹرویو سے یہ تاثر ملتا تھا جیسے پاکستان کے مسائل کی اصل جڑ سیاستدان ہیں حالانکہ گزشتہ 75 برس کی تاریخ بتاتی ہے کہ سیاستدان اہم اور نازک مواقع پر مسائل کا حل ثابت ہوئے ہیں۔ اس کا ثبوت 1956ء کے دستور کی تشکیل ہے۔ اس کا ثبوت قومی شکست کے ماحول میں قومی اتفاقِ رائے پر مبنی 1973ء کا آئین ہے۔ اس کا ثبوت 1991ء کا دریائی پانی کے استعمال پر بین الصوبائی معاہدہ ہے۔ اب بھی اگر سیاستدانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو چارٹر آف ڈیموکریسی (2006ء) جیسے معاہدے تشکیل پا سکتے ہیں مگر پاکستان کی جمہوریت کی گاڑی کو کبھی پٹڑی پر زیادہ دیر چلنے نہیں دیا جاتا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ سیاستدانوں ہی میں سے کچھ لوگ حکومتوں کو کمزور کرنے اور گرانے کی سازشوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
اقتدار سے الگ ہونے کے بعد عمران خان کو جو عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہے‘ اس کی بنیاد پر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین خوف میں مبتلا ہیں کیونکہ وہ اگلے انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے جیت جائیں گے۔ ان سے سوال پوچھنا چاہیے کہ وہ دو تہائی اکثریت سے پاکستان کے کون سے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں؟ اگرچہ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کے حوالے سے کوئی واضح اور دوٹوک بیان دیکھنے میں نہیں آیا مگر جاوید ہاشمی جیسے ان کے قریبی ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ خان صاحب صدارتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں۔ چونکہ پاکستان کی تاریخ میں پارلیمانی نظام کے خاتمے کا مطلب پاکستان کی وفاقی ریاست کو وحدانی ریاست میں تبدیل کرنا سمجھا جاتا رہا ہے‘ اس لیے 2010ء میں منظور کردہ‘ اٹھارہویں آئینی ترمیم اگر خان صاحب کی زد سے بچی رہی تو اس پر حیرانی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے‘ لیکن پی ٹی آئی کے رہنما سے عرض کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ارادوں کی تکمیل سے پہلے برصغیر کی تاریخ کا جائزہ لے لیں۔ اگر کانگرس‘ مسلم اکثریت والے علاقوں کیلئے مسلم لیگ کی طرف سے صوبائی خود مختاری کی تجاویز مان جاتی (قائد اعظم کے چودہ نکات) تو برصغیر میں دس لاکھ افراد کی ہلاکت اور ایک کروڑ سے زیادہ کی نقل مکانی کی نوبت نہ آتی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کا مضبوط مرکز کی بنیاد پر ریاستِ پاکستان کی تشکیل پر اصرار تھا۔
عمران خان پاکستان کے واحد حکمران نہیں جن کے ذہن میں صدارتی نظامِ حکومت اور وحدانی ریاست کا خیال آتا ہے‘ جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ملک کے نئے دستور کی تیاری ہو رہی تھی تو ذوالفقار علی بھٹو نے نئے دستور کو صدارتی نظام کے اصول پر استوار کرنے کی کوشش کی تھی‘ مگر اپنی بے پناہ مقبولیت اور قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے۔ انہیں جلد معلوم ہو گیا کہ صدارتی نظام ملک کو متحد نہیں رکھ سکے گا‘ اس لیے وہ متحدہ اپوزیشن کا مطالبہ منظور کرنے پر آمادہ ہو گئے اور ملک کا متفقہ آئین پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پا یا۔ اس لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین سے پوچھے جانے والے سوالات میں یہ بھی شامل ہونا چاہئے کہ سیاسی اقتدار‘ جو کہ ان کا حق بنتا ہے‘ حاصل کرنے کے بعد اسے کس مقصد کیلئے استعمال کریں گے؟کیا عمران خان کی ساری جدوجہد کا مقصد ریاست اور ریاستی اداروں کی استعداد اور وسائل کو تصرف میں لا کر اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنا ہے؟ اور اگر ادارے آئین کا پاس کرتے ہوئے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیں اور سیاسی لڑائی سیاستدانوں تک محدود رہنے دیں تو کیا اداروں کو بدنام کیا جائے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved