مملکتِ خداداد کی ہرنسل اور ہر نوع کی اشرافیہ کو مبارک ہوکہ احتساب کا قانون ان کے گھر کی باندی بن چکا ہے۔سیاسی مخالفین کو سرنگوں اور زیر عتاب رکھنے کے لیے بنائے گئے اس ادارے کی طاقت ہی اس کی کمزوری بن گئی۔ہمارے ہاں سیاسی و انتظامی اشرافیہ کے علاوہ سرمایہ دار اشرافیہ کا کردار بھی انتہائی اہم اور ناقابلِ تردید ہے۔یہ وہ کھلاڑی ہیں جو حکمرانوں اور سرکاری بابوؤں کے ساتھ مل کر دونوں طرف کھیلتے ہیں اور ہر دورِ حکومت میں اپنی خدمات اور سہولت کاری کے عوض ہمیشہ نفع کا سودا کرتے ہیں۔ یوں اشرافیہ کی ٹرائیکا مملکت خداداد سے اپنا حصہ وصول کرتی چلی آئی ہے۔ نیب قوانین میں تبدیلی کے بعد اس اس گٹھ جوڑ میں جان سی پڑگئی ہے۔پچیس سال سے جاری احتساب ملک و قوم کو اس قدر مہنگا پڑا کہ رنگے ہاتھوں کے باوجود سبھی سستے چھوٹ گئے۔جن ہاتھوں پر خوف کے مارے رعشہ کا گماں ہوتا تھا اب وہ آہنی ہاتھ سے سبھی کسریں نکالیں گے جو ڈر کے مارے حسرت بن کررہ گئی تھیں۔جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اور اُن کے نتائج حکمرانوں کی نیتوں اور ارادوں کا پتہ دیتے ہیں۔ آئین سے لے کر قوانین تک‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ بدانتظامی سے لے کر بد عنوانی تک‘ بد عہدی سے خود غرضی تک‘ اقتدار کے بٹوارے سے وسائل کی بندر بانٹ تک‘ کبھی کسی نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو گھپ اندھیرے میں ایک امید کی کرن تجسس بن کر جاگی کہ کیا واقعی شریف برادران اور زرداری اینڈ کمپنی کے ساتھ اور دیگر نیب اسیران مکافاتِ عمل کی پکڑ میں آچکے ہیں؟ احتساب کے نام پر ملک بھر میں ایسا تماشا لگائے رکھاکہ معیشت سے لے کر عوام کی قسمت تک سب پر جمود طاری رہا۔ سیاسی اشرافیہ ہو یا افسر شاہی‘ ان کی کرپشن اور لوٹ مار کی داستانوں پر مشتمل سرکاری فائلوں کے انبار لگا کر ایسی سنسنی پھیلائی گئی کہ بس سبھی اپنے اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ایسا شور مچایا کہ قانون پوری طاقت سے حرکت میں آچکا ہے اور جلد ہی ملک و قوم کی لوٹی دولت کی ریکوری قومی خزانے کا حصہ بننے والی ہے۔ مگرخوشحالی اور معیشت کی بحالی کے دلفریب دعوے جھانسے ہی ثابت ہوئے۔عوام کی نفسیات اور جذبات سے اس طرح کھیلا گیا کہ مایوسی اور ناامیدی کے اندھے گڑھے مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔
پریس کانفرنسوں اور ٹاک شوز میں ڈھٹائی اور کس قدر پکے منہ سے کرپشن کے خلاف حکومتی کارروائیوں کا ڈھول بجایا جاتا ہے؟ اور نتیجہ روز نیا‘ منطق بھی روز نئی۔ احتساب کی یہ کہانی روز نیا موڑ مڑتی اپنے ہدف سے دور ہوتی چلی گئی۔ ٹی وی چینلز کے درجنوں مائیک سامنے لگا کر سرکاری خرچ پر بھاشن دینے والے پی ٹی آئی حکومت کے مشیر احتساب نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے ساتھ قوم کو اتنے مہنگے پڑے کہ سبھی سستے چھوٹتے چلے گئے اور موصوف آج بھی ان کڑے سوالوں کے نرغے میں ہیں جن کا جواب تحریک انصاف کے پاس نہیں ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں اقتدار کی مٹھی سے مدت کی ریت سرکتی چلی گئی پی ٹی آئی حکومت پرنیب کے خوف کے سائے اس لیے بھی لہرانے لگے کہ ان کے کئی شریک اقتدار سرکردہ شخصیات نیب کے ریڈار پر آچکے تھے اور محض اقتدار میں ہونے کی وجہ سے مکافاتِ عمل کی بلا ٹل رہی تھی۔ایسے میں پی ٹی آئی حکومت نے ایک آرڈیننس سے نیب کا ادارہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کرڈالا اور احتساب کی دہکتی ہوئی بھٹی پر اپنے دانوں کو بھننے سے بچا لیاجن میں اکثر کے گرد گھیرا تنگ تھا اور گرفتاری عین متوقع تھی۔
احتساب کے ادارے کا سہرا بھی نوازشریف کے سر ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کو استحکام اور اندھیر نگری پر اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے علاوہ ہر اس سربلند کو سرنگوں کرنے کے لیے یہ ادارہ بنایا تھا جو ان کے راستے کی رکاوٹ بن سکتا تھا۔سیاسی مخالفین کو کچلنے اور وفاداریاں تبدیل کرنے پہ مجبور کرنے کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈے اور سرکاری مشینری کا بے رحم استعمال کرکے احتساب کے ادارے کو خوف کی علامت بنا ڈالا۔پچیس سال بعدسیاسی اشرافیہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جب ایک حمام میں سبھی ننگے ہیں تو ایک دوسرے کا لباس بن کر اپنی اپنی لوٹ مار کو تحفظ دینے میں ہی سب کی عافیت ہے۔کمال کی واردات ہے یا کمال کی مہارت۔اشرافیہ کے ہاتھ اور دامن بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف ہے۔
کچھ عرصہ قبل مملکتِ خداداد پر شوقِ حکمرانی کے مزے لوٹنے والی اشرافیہ پر دہری شہریت کا سوال ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا ہے۔ تفصیلات طلب کی گئیں‘فہرستیں مرتب کی گئیں‘لیکن قانون اور ضابطوں کے ساتھ ساتھ غیرتِ قومی کو بھی دہری شہریت کے حامل اشرافیہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔کرپشن صرف مالی اور انتظامی ہی نہیں ہوتی۔ہماری اشرافیہ دنیا سنوارنے کی انجینئرنگ سے خوب واقف ہے۔سہانے اور محفوظ مستقبل کے لیے انہوں نے کیسے کیسے جگاڑ اور بندوبست کررکھے ہیں۔ معاملہ دہری شہریت سے نکل کردہری شہریت کی زوجیت جیسے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ ملک و قوم سے انتظامی اشرافیہ کی کمٹمنٹ اور اخلاص کا پیمانہ یہ ہے کہ مملکتِ خداداد کی دو خواتین افسران سمیت 120سے زائد اعلیٰ افسران کے جیون ساتھی غیر ملکی ہیں۔ اکثر نے صرف پاکستانی زوجہ پر انحصار کرنے کے بجائے بیرون ملک ایک اور شادی کر کے دہری زوجیت حاصل کر رکھی ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق اگر کسی سرکاری ملازم نے غیر ملکی خاتون یا مرد سے شادی کرنی ہو تو پہلے متعلقہ صوبے یا وفاق‘ جہاں کا وہ ملازم ہو‘سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے ورنہ اس کا یہ عمل مس کنڈکٹ کے زمرے میں آئے گا اور اس کے خلاف مجاز اتھارٹی انضباطی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود آج تک کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آسکی‘ گویا کہیں مس کنڈکٹ نہیں ہوا یا اس ملک میں کسی' مجاز اتھارٹی‘ کا وجود نہیں۔ اعلیٰ سرکاری افسران کی غیر ملکی خواتین سے شادیوں کو اگر قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ انتہائی اہمیت اور حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ ماضی میں اہم عہدوں سے سبکدوش ہونے والی متعدد شخصیات وطنِ عزیز کے بجائے بیرونی ممالک میں سکونت اختیارکیے ہوئے ہیں‘ کیا یہ قومی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم نہیں؟
لگتا ہے ہماری اشرافیہ ڈیپوٹیشن پرپاکستان آتی ہے۔ اشرافیہ کی رہائش گاہوں سے لے کر تمام مراعات اور تام جھام کی ذمہ داری حکومت پر ہے اور جب ان کا کام ختم ہو جائے گا تو یہ واپس چلے جائیں گے۔ وطنِ عزیز سے کمایا ہوا دھن وہ پہلے ہی مختلف ذرائع سے بیرونِ ملک بھیج رہے ہوتے ہیں۔ دل و دماغ بیرونِ ملک اور صرف جسم پاکستان میں۔ ہاتھ وطنِ عزیز کے وسائل کی جیب پراور دانت وسائل کی شہ رگ پر۔مملکت میں قانون اور ضابطوں سے لے کر پالیسیاں اور سبھی اقدامات اشرافیہ کی سہولت و مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔جہاں اشرافیہ پر مشکل وقت آیا وہاں مشکلات کو دور کرنے کے لیے یہ سبھی ہزار اختلافات کے باوجود سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ردِ بلا کے لیے وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں جو اِن کی کھال اور گردن بچا سکے۔پون صدی سے نسل در نسل مملکتِ خداداد پر حکمرانی کرنے والے ہوں یا اس کے وسائل پر موجیں کرنے والے‘یہ سبھی وہ اشرافیہ ہیں جو عوام کی ناقابل ِبیان حالتِ زار کے براہ راست ذمہ دار ہیں کیونکہ ملک عوام کا نہیں‘اشرافیہ کا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved