تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-09-2022

کہانی زورِ بازو کی

زندگی کس کے بل پر گزرتی ہے؟ یہ سوال کسی سے بھی پوچھ دیکھیے، جواب یہی ملے گا کہ اپنے بل پر۔ پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ محض آسروں پر جی رہے ہوتے ہیں۔ آسروں پر جینا انسان کو صرف ناکامی کی طرف دھکیلتا ہے۔ آسروں پر جینے کا مطلب ہے اپنے زورِ بازو پر یقین نہ رکھتے ہوئے اور اپنے وسائل کو بروئے کار نہ لاتے ہوئے اِس امید کے ساتھ جینا کہ سارا بوجھ دوسرے برداشت کریں یا ہر وقت اِتنی مدد کرتے رہیں کہ زندگی آسان ہوتی رہے۔
کیا ہم تنہا نہیں جی سکتے؟ کیا لازم ہے کہ ہر معاملے میں کسی نہ کسی سے مدد مانگی جائے؟ بات کچھ یوں ہے کہ دنیا کا کاروبار اِسی طور چلتا ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ اشتراکِ عمل کے بغیر ہم چند قدم بھی ڈھنگ سے نہیں چل سکتے۔ کسی بھی ماحول میں آپ اشتراکِ عمل کا آسانی سے مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں تو کچھ ہو پاتا ہے۔ اشتراکِ عمل اور کسی کے آسرے پر جینے میں بہت فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھے بغیر ہم معیاری انداز سے جینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہر معاشرے میں اشتراکِ عمل ایک بنیادی قدر ہے۔ سب اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور اپنے عمل سے دوسروں کو مستفید کرتے ہیں تو کچھ ہو پاتا ہے۔ کاروباری معاملات ہوں یا خالص معاشرتی تعلقات، ہر معاملے میں اشتراکِ عمل ہی اہم ترین معاملہ ہے۔ اس اہم ترین معاملے کو نظر انداز کرنے کا متحمل کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔ خالص انفرادی نوعیت کی کارکردگی بھی دوسروں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔ ایسے میں یہ سوچنا محض سادہ لوحی ہے کہ کوئی بھی انسان دوسروں سے مدد لیے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔ اشتراکِ عمل کے ذریعے ہی ہم سب کی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ کوئی بھی انسان دوسروں سے کٹ کر، دور ہٹ کر ڈھنگ سے جی نہیں سکتا۔
تو پھر زورِ بازو کس چیز کا نام ہے؟ اشتراکِ عمل کی صورت میں ہم دوسروں سے کچھ لیتے ہیں اور انہیں کچھ دیتے ہیں۔ اگر سارا کھیل اشتراکِ عمل ہی کا ہے تو پھر انسان کی اپنی محنت اور اپنے زورِ بازو کی بنیاد پر کچھ کرنے کی ذہنیت کیا ہوئی؟ بات تھوڑے سے الٹ پھیر کی ہے۔ اشتراکِ عمل کو کسی بھی سطح پر محتاجی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ دنیا اشتراکِ عمل ہی سے چلتی ہے۔ سب مل کر اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں تو وہ سارا کام مل کر ایک واضح شکل اختیار کرتا ہے۔ کسی فیکٹری میں کام کرنے والے دراصل اشتراکِ عمل کا نمونہ ہیں مگر اُن میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ دوسروں پر کوئی احسان کر رہا ہے۔ اشتراکِ عمل میں کوئی کسی کا محتاج نہیں ہوتا اور کوئی کسی پر کوئی احسان بھی نہیں کر رہا ہوتا۔ یہ تو مل جل کر کام کرنے کا معاملہ ہے۔ اِس کے بغیر تو دنیا چل ہی نہیں سکتی۔ ہاں، اپنے زورِ بازو کی بنیاد پر کچھ کرنے کے معاملے میں انسان اشتراکِ عمل کے سانچے اور ڈھانچے سے ہٹ کر کچھ‘ بلکہ بہت کچھ کر رہا ہوتا ہے۔ اپنے زورِ بازو پر جینے کا مطلب ہے بھیڑ سے ہٹ کر، اپنے بل پر کچھ کرنے کی کوشش۔ اشتراکِ عمل میں سب اپنے اپنے حصے کا کام کرکے ایک بڑے کام کو ممکن بناتے ہیں۔ اِس معاملے میں کوئی اپنے زورِ بازو کے حوالے سے ڈینگ نہیں مار سکتا۔ اِس کے برعکس اپنے بل پر جینے کی صورت میں انسان زیادہ اور بہتر کام کرتا ہے، اُس کا کوئی خاص مقصد ہوتا ہے جس کا حصول یقینی بنانے کے لیے وہ کسی بھی حد سے گزرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ جب کوئی بھی انسان اپنے بل پر کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے تب کامیابی کا پورا کریڈٹ لے سکتا ہے اور ناکامی کا پورا ڈِس کریڈٹ بھی اُسی کو ملنا ہوتا ہے۔
کسی بھی ماحول میں ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کے بل پر جی رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مسائل حل کرنے پر متوجہ ہونے کے بجائے اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ کہیں سے کوئی آکر اُن کے مسائل حل کرے، اُن کی مشکلات دور کرے اور اُن کے لیے بھرپور کامیابی و خوش حالی کی راہ ہموار کرے۔ یہ سوچ شخصی ارتقا کے حوالے سے انتہائی خطرناک ہوتی ہے کیونکہ دوسروں کی طرف سے مدد کا انتظار کرنے والے اپنے بیشتر حسین اور پُرکشش مواقع ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ قدرت نے ہر انسان کو غیر معمولی قوت سے نوازا ہے۔ دنیا کا ہر انسان بہت سے خواب دیکھ سکتا اور اُن خوابوں کو شرمندۂ تعبیر بھی کرسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کوئی ایسا کرنے کا ارادہ کرتا ہے یا نہیں۔ اگر ارادہ کرلیا تو پھر آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ غیر معمولی کامیابی یقینی بنانے کے لیے انسان کو صرف اپنے وجود پر بھروسا کرنا ہوتا ہے۔ معمول کے معاملات میں تو لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں لیکن جب معاملہ کچھ کر دکھانے کا ہو تب کوئی بھی آگے بڑھ کر دوسروں کی زیادہ مدد نہیں کرتا۔ اگر کسی کو کہیں پہنچنا ہو تو لفٹ مل سکتی ہے مگر یہ سہولت بالعموم تھوڑے سے فاصلے کے لیے ہوتی ہے۔ سوال جب کیریئر کا ہو تب انسان کو اپنے ہی زورِ بازو پر بھروسا کرنا ہوتا ہے۔ کیریئر کے معاملات میں کوئی کسی کی زیادہ مدد نہیں کرسکتا۔ انسان جب کسی شعبے میں کچھ غیر معمولی کرنے کا سوچتا ہے تب منصوبہ سازی بھی کرتا ہے۔ وہ ایک ایسا نظام العمل تیار کرتا ہے جس کی پاس داری کی صورت میں اُس کے لیے اپنی صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا ممکن ہو پاتا ہے۔ ہر انسان کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا کرسکتا ہے، کہاں تک جاسکتا ہے۔ زندگی سب کو آگے بڑھنے کے بھرپور مواقع فراہم کرتی ہے اور یہ مواقع مختلف مراحل میں ملتے ہیں۔ انسان اگر شاندار اور پُرکشش مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہو تو زندگی کا رخ تبدیل کیا جاسکتا ہے، وہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے جس کا محض خواب ہی دیکھا جاتا رہا ہو۔ ہر دور کے انسان کے لیے کامیابی اور ترقی اُسی وقت ممکن ہوسکی جب اُس نے اپنے وجود کو بروئے کار لانے کے حوالے سے کوئی ٹھوس فیصلہ کیا اور اپنے زورِ بازو کو بنیادی سہارا بنایا۔
کسی بھی شعبے کا جائزہ لیجیے، آپ اِسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ بھرپور کامیابی اُنہی کو ملی جنہوں نے زندگی کو سنجیدگی سے لیا، کچھ طے کیا اور پھر اپنے ہی بل پر آگے بڑھنے کی ٹھان کر چلے۔ کسی بھی میدان میں فتح کا مدار بالآخر اپنے زورِ بازو پر ہوتا ہے۔ کسی اور سے تھوڑی بہت مدد مل سکتی ہے مگر کلیدی کردار تو خود ہی کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ کامیابی کے بنیادی تقاضوں میں سنجیدگی سرِفہرست ہے۔ اِس کے بعد صلاحیت و سکت کو پروان چڑھانے کی باری آتی ہے۔ اِس مرحلے سے گزرنے کے بعد انسان کو بھرپور لگن پیدا کرنے کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ فیصلہ بھی کرنا پڑتا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے‘ خود ہی کرنا ہے۔ زندگی سب پر مہربان ہوتی ہے۔ مواقع ملتے رہتے ہیں مگر اُن کے لیے زیادہ مواقع ہوتے ہیں جو کسی اور کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے وجود کو بنیاد بناکر آگے بڑھتے ہیں۔ انسانی ذہن اور مزاج میں پائی جانے والی بڑی پیچیدگیوں میں کسی کے آسرے پر جینا بھی نمایاں ہے۔ کسی بھی ماحول میں اکثریت اُن کی ہوتی ہے جو اپنی شاندار کامیابی کے لیے کسی نہ کسی کی طرف سے مدد کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ انتظار شعور کی سطح پر بھی ہوسکتا ہے اور تحت الشعور کی سطح پر بھی۔
کوئی کچھ بھی کہے، کامیابی کا حقیقی لطف اُسی وقت محسوس کیا جاسکتا ہے جب انسان اپنے وجود پر اعتماد رکھے، اپنے زورِ بازو پر بھروسا رکھے اور جو کچھ بھی کرسکتا ہے وہ کر گزرے۔ کسی کی طرف سے مدد کے ملنے کا انتظار کرتے رہنے میں آسانیاں کم اور مشکلات کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ در حقیقت اُنہی کا احترام کرتے ہیں جو اپنے بل پر کچھ بنتے ہیں، کچھ کر دکھاتے ہیں۔ یہ بھی انسانی فطرت ہی کا ایک اہم جُز ہے کہ وہ اپنے لیے تو سہارے تلاش کرتا ہے مگر دوسروں کو اُس وقت احترام کی نظر سے دیکھتا ہے جب وہ اپنے بل پر جی رہے ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved