''اے وہ لوگو‘ جن کے بس میں کچھ بھی ہے‘ اٹھو اور وہ کچھ کر ڈالو جس سے یقین کی دولت حاصل کی جا سکے‘‘۔
مکرم و محترم مجیب الرحمن صاحب شامی کے کالم کا یہ آخری جملہ ہے۔معلوم نہیں کہ اس جملے سے جھلکتے اضطراب‘دکھ اورمایوسی کو آپ کتنا محسوس کر سکے۔میں نے پڑھا تو ڈر گیا۔ یہ اتفاق ہے کہ کچھ ہی دیرپہلے میں نے ملک کے حالات پر استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کا ایک انٹر ویو بھی سنا۔انٹر ویو کیا تھا‘یوں سمجھیے کہ جو بات شامی صاحب نے کہی‘بالفاظِ دیگر وہی کچھ انہوں نے بھی کہا۔پیغام ان کا بھی وہی تھا جو شامی صاحب کا ہے۔
علم اور صحافت کی ان بڑی شخصیات کا منصب متقاضی ہے کہ وہ مایوسی کی بات نہ کریں۔اگر ایسے لوگ بھی مایوس ہو نے لگیں تو قوم کی ڈھارس کون بندھائے؟چاہتے وہ بھی یہی ہیں مگر شایدمایوسی اتنی ہے کہ وہ اسے چھپانے میں پوری طرح کامیاب نہیں رہے۔کم ازکم مجھ جیسوں سے نہیں جسے ان کا قرب حاصل رہا اور جو خود کو ان کے مزاج شناسوں میں شمار کر سکتا ہے۔احساس میرا بھی کچھ اسی طرح کا تھا مگربڑوں کے منہ سے یہ سب سن کر میں تومزید سہم گیا۔
شامی صاحب نے میاں شاہ دین ہمایوں کے معروف شعر پر بات ختم کی جس کا مصرع ہے: ' اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی‘۔ جاوید صاحب نے الطاف حسین حالیؔ کو یاد کیا: 'اے خاصہ خاصانِ رسل‘ وقتِ دعا ہے‘۔ سب جانتے ہیں کہ وقتِ دعا سے ہم کیا مرادلیتے ہیں۔یہ الفاظ اس وقت کہے جاتے ہیں جب اسباب کی دنیا میں موجود امکانات دم توڑ دیں اور ہم اس امید کے ساتھ آسمان کی طرف ہاتھ اورنگاہیں اٹھا لیں کہ معجزات اب بھی ممکن ہیں۔
ان بزرگوں کی مایوسی سے‘میں یہ سمجھا ہوں کہ وہ درپیش مسائل کی شدت کو بیان کر نا چاہتے ہیں۔ان کا یہ مفہوم ہر گز نہیں کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا یا واپسی کے سب راستے بند ہو گئے۔یہ حضرات یہ چاہتے ہیں کہ جیسا شدید بحران ہے‘اس سے نکلنے کی کوشش بھی ویسی ہی شدت کے ساتھ ہونی چاہیے۔منظم‘ مربوط اور جامع۔یہ جامعیت اسی وقت آئے گی جب قوم کو یہ احساس ہوگا کہ اسے کس نوعیت کے بحران کا سامنا ہے۔
شامی صاحب نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد کے حالات کا حوالہ دیا جب راکھ سے چنگاری پھوٹی اور شعلہ جوالا بن گئی۔ان کا سوال ہے اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟میرا احساس ہے ان کے پاس اس سوال کا جواب موجود ہے لیکن وہ اسے بیان کرنا خلافِ مصلحت سمجھتے ہیں۔ جاوید صاحب بھی نے اپنے انٹر ویو میں اصلاحِ احوال کے لیے چار نکات بیان کیے ہیں۔میں جانتا ہوں کہ اربابِ حل و عقدابھی ان سے اتفاق نہیں کریں گے۔جاوید صاحب بھی یہ بات جانتے ہیں لیکن ان کا منصب بھی یہی ہے کہ امید کے چراغ کو بجھنے نہ دیں۔
حالی اور شاہ دین ہمایوں کا تعلق عہدِ غلامی سے تھا۔انگریز یہاں کا حاکم تھا اور مسلم قوم پر بد دلی چھائی ہو ئی تھی۔حالی 1914ء میں دنیا سے رخصت ہوئے اور شاہ دین 1918ء میں۔حالی کو تو سب جانتے ہیں۔شاہ دین ہمایوں علامہ اقبال کے دوستوں میں سے تھے۔غلام ہندوستان میں پنجاب کے پہلے مسلمان چیف جسٹس۔تعلق لاہور سے تھا۔ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے ان کی یاد میں ''ہمایوں‘‘ کا اجرا کیا۔اس جریدے میں علامہ اقبال کی نظمیں شائع ہو تی تھیں۔ ان حضرات نے جو نوحے لکھے‘ان کا جواب آیا۔ قافلے کو اقبال جیساحدی خواں ملا جن کی لاہوتی لے دلوں میں اترتی چلی گئی۔پھر قائد اعظم شریکِ سفر ہوگئے۔
مجھے اس وقت تاریخی مباحث میں الجھے بغیر یہ عرض کر نا ہے کہ سیاسی عمل نے ایک رخ اختیار کیا اورپاکستان بن گیا۔ابتدائی بحرانوں پر بھی ہم نے اس طرح قابو پا لیا کہ بقاکی جنگ میں فاتح ہوئے۔مسائل البتہ موجود رہے۔بسا اوقات ایسا محسوس ہو اکہ ہم بند گلی میں کھڑے ہیں۔ہم اس گلی سے نکلتے رہے مگر کچھ نہ کچھ گنوا کر۔آج ہم پھر بند گلی میں ہیں۔آج کی صورتِ حال لیکن مختلف ہے۔اب ہمارے پاس گنوانے کو کچھ باقی نہیں بچا۔اس لیے باہر نکلنے کا راستہ بھی سجھائی نہیں دے رہا۔
مسئلہ معاشی عدم استحکام ہے۔یہ فوری حل چاہتا ہے۔ایک ایک دن ہم پر بھاری ہے۔مہنگائی چالیس فیصد سے زیادہ ہے۔عوام کیا‘ خواص میں بھی مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی۔میرے پاس اس سوال کا کوئی عقلی جواب موجود نہیں ہے کہ خطِ غربت سے نیچے رہنے والے کروڑوں لوگ کیسے زندہ ہیں۔اس کا جواب صرف مذہب ہی دے سکتا ہے کہ رزق کی ذمہ داری چونکہ اللہ نے اٹھائی ہے‘اس لیے ان لوگوں کو کہیں نہ کہیں سے رزق مل رہا ہے۔ اس کی کوئی دوسری توجیہ میرے پاس تونہیں ہے۔
آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے باوجود‘روپیہ سنبھل نہیں پا رہا۔حکومتی مساعی کا حاصل صرف یہ ہے کہ ہمیں کہیں سے قرض مل جائے۔آج قرض مل جائے گا لیکن کل ہمیں اسے سود کے ساتھ ادا کر نا ہے۔ اس پہلو پر غور کی کسی کو فرصت نہیں۔اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ سیلاب نے نکال دی۔اس کیفیت میں‘یہ بحث عملاً غیر متعلق ہو چکی ہے کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے۔ ہم یہاں تک پہنچے کیسے؟آج تو اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ہمیں فوری راستہ چاہیے۔
فوری راستہ کیا ہے؟ انتخابات؟سب جانتے ہیں کہ اس عمل کا اگر آج آغاز ہو تو بھی چھ ماہ چاہئیں۔ دوسرا یہ کہ آج اس کا آغاز ہو بھی نہیں سکتا۔ آدھاملک سیلاب کا شکار ہے۔زندگی جب تک معمول کی طرف نہیں لوٹتی‘انتخابات ممکن نہیں۔ایک وجہ متعلقہ قوتوں کا اتفاقِ رائے بھی ہے جو اس وقت موجود نہیں۔اس کے ساتھ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجودہے کہ انتخابات معاشی بہتری کی ضمانت کیسے ہو سکتے ہیں؟
سب سے اہم بات قومی اتفاقِ رائے ہے۔یہ ممکن نہیں کہ ایک کے کہنے پر کسی کو چور مان لیا جائے یا کسی کو فتنہ۔'چور‘بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور 'فتنہ‘ بھی۔جو ادارے یہ اتفاق رائے پیدا کر سکتے تھے‘وہ متنازع ہو چکے۔سب کے وجود کو تسلیم کیے بغیر بات آگے بڑھ نہیں سکتی۔ لازم ہو گیا ہے کہ اربابِ حل و عقد کوایک چھت تلے بٹھایا جائے اور ان کو پابند کیاجائے کہ وہ جب تک ایک حل پر آمادہ نہ ہوں‘ یہاں سے اُٹھ نہیں سکتے۔ان میں سیاسی جماعتوں‘سول سوسائٹی‘ فوج‘ عدلیہ اوربار کے لوگ شامل ہوں۔
اب انہیں اکٹھا کون کرے؟میری تجویز ہے کہ شامی صاحب ا ور غامدی صاحب جیسے لوگ میزبانی کریں۔وہ اس کے داعی بنیں اورقومی اتفاقِ رائے کا ڈول ڈالیں۔سیدنا عمرؓ کو جب یقین ہو گیا کہ ان کی دنیا سے رخصتی کا وقت آگیا ہے تو انہوں نے معاملات کو ان چھ افراد کے سپرد کیا‘جن کی طرف عوام راہنمائی کے لیے دیکھتے تھے۔انہیں پابند کیا کہ وہ ایک جگہ جمع ہوں اور جب تک کسی اتفاق رائے تک نہ پہنچیں‘وہ باہر نہیں آ سکتے۔دروازے پر انہوں نے پہرہ بٹھا دیا۔
آج بھی حل یہی ہے کہ سیدنا عمرؓ کی سنت پر عمل کیا جائے۔جو بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں یا کر رہے ہیں‘انہیں ایک حل پر متفق کیا جائے۔وہ اس تاریخی چیلنج کو سمجھیں اورشخصی و گروہی مفادات سے آزاد ہو کر قوم کی راہ نمائی کریں۔یہاں پہرہ آئینِ پاکستان کا ہو۔اس طرح شاید غامدی صاحب اور شامی صاحب سمیت‘ہم سب کو قرار آجائے اور معیشت کو بھی۔شامی صاحب اسی کو یقین کی دولت کہہ رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved