تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     20-09-2022

مؤخر تقرری‘ فوری انتخابات

میں کئی ہفتے ملک سے باہر گزار کر گھر لوٹا ہوں۔ میں جہاں بھی گیا وہاں اس مسافر نے بہت کچھ بدلا ہوا پایا۔ مگر وطنِ عزیز ویسے کا ویسا ہے‘ حالات جوں کے توں ہیں۔ بقول شاعر:
نہ تم بدلے‘ نہ ہم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں
جس طرح سے جناب عمران خان گزشتہ چار پانچ ماہ سے نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے‘ آج بھی وہی مطالبہ زور و شور سے کر رہے ہیں۔ اب تو انہوں نے دو ہفتے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ عمران خان نے سیاست کو ایک نئی جہت دی ہے۔ وہ جب اپوزیشن میں تھے تو حکومت کو نہیں مانتے تھے جب وہ خود حکمران بن گئے تو اپوزیشن کو نہیں مانتے تھے۔
اب خان صاحب دوبارہ اپوزیشن میں آ گئے ہیں تو وہ حکومت کو دل سے تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ عمران خان نرگسیت کا ایک دلکش شاہکار ہیں۔ وہ خود کو ہر طرح کے حساب کتاب اور احتساب سے ماورا سمجھتے ہیں۔ خان صاحب نے سیاسی اختلاف کو نفرت اور دشمنی میں بدل دیا ہے۔
پہلے تحریک انصاف کے چیئرمین اداروں پر گرجتے برستے رہے۔ اب لگتا ہے کہ خان صاحب اپنے سابقہ مؤقف کو حقیقت پسندی سے باور کرنے لگے ہیں کہ حصول اقتدار یا تبدیلیٔ اقتدار کے لیے مقتدرہ کی اشیرباد ضروری ہے؛ تاہم وہ اس حقیقت پسندی کا اعتراف بھی نہیں کرتے۔ عمران خان کبھی تفتیشی اداروں اور ماتحت عدالتوں کو آنکھیں دکھاتے اور کبھی آنکھیں جھکاتے ہیں۔ غرضیکہ خان صاحب کے اندر بہت کچھ ناقابلِ تصور کہہ دینے کی استعداد ہے اور پھر انہیں پندار کا صنم کدہ زمیں بوس کرنے میں بھی کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اب خان صاحب کا دو لفظی مطالبہ یہ ہے کہ نومبر کے مہینے تک ہو جانے والی تقرری مؤخر کی جائے۔ عام انتخابات کے فوری انعقاد کا اعلان کیا جائے۔ خان صاحب کی منطق یہ ہے کہ سپہ سالار کی تقرری جانے والی نہیں آنے والی حکومت کرے گی۔بادی النظر میں عمران خان کے دونوں مطالبے خلافِ آئین ہیں۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل نے اپنے چیئرمین کے مؤقف کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ ''امپورٹڈ‘‘ حکومت کو یہ اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ نئے آرمی چیف کا تقرر کرے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اسد عمر ایک صاحبِ مطالعہ دانشور ہیں۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ آپ یہ مطالبہ کس بنیاد پر کر رہے ہیں۔ کیا ملک کو آئین و دستور کے مطابق چلنا ہے یا اسے آپ کی خواہشات کے سامنے سرنگوں ہونا ہے۔ فواد چودھری اسد عمر سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے‘ اُن کا کہنا یہ تھا کہ اگر موجودہ حکومت نے نئے سپہ سالار کا تقرر کیا تو اگلے تین سال یہ تقرری متنازع رہے گی۔ عمران خان کے سامنے چار آپشنز ہیں۔ پہلا تو یہ کہ وہ چین کی بانسری بجائیں اور اُن کے بقول خودبخود گرتی اور پستی کی طرف لڑھکتی ہوئی حکومت کو دھمکیاں دینے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ جب مہنگائی‘ بجلی اور گیس کے ناقابلِ برداشت بلوں سے لوگ بلبلا اٹھیں گے تو وہ وقت انہیں کال دینے اور سڑکوں پر لانے کا ہو گا۔موجودہ حکومت کو نقطۂ عروج کی غیر مقبولیت پر پہنچانے کے لیے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل ہی کافی ہیں۔ اُن کا تازہ ترین ارشاد یہ ہے کہ جرمنی میں بجلی کا ایک یونٹ 250 روپے کا جبکہ پاکستان میں یہ یونٹ 35 روپے کا ہے۔ اس طرح کا موازنہ کرنے والے سیاست دان یا تو بالکل حال مست ہوتے ہیں یا زمینی حقائق سے بے خبر۔ بھلا جرمنی کا پاکستان سے کیا مقابلہ اور موازنہ۔ جرمنی اور پاکستان کی فی کس آمدنی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
عمران خان کے پاس دوسرا آپشن حکومت کے ساتھ مذاکرات کا ہے۔ اس سلسلے میں صدرِ پاکستان جناب عارف علوی مصالحانہ کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ عام انتخاب کے دوچار ماہ آگے پیچھے ہونے سے اگر معاملات سدھر جائیں تو یہ مفاہمتی راستہ اختیار کر لینا چاہیے۔ اب کچھ اس طرح کی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ عمران خان پس پردہ مقتدرہ سے مفاہمت و مصالحت کی پالیسی اختیار کر چکے ہیں۔ اگرچہ وہ کور کمیٹی میٹنگ میں ملاقات کرنے والوں کو سرزنش بھی کر چکے ہیں۔ خان صاحب کے پاس تیسرا آپشن یہ ہے کہ وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو توڑ کر نئے انتخابات کا مطالبہ کریں۔ اس طرح اُن کے مطالبے میں وزن محسوس کیا جائے گا۔ اب ایک طرف تو تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہو چکے ہیں اور دوسری طرف خان صاحب ضمنی انتخابات لڑنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ بظاہر یہ کھلا تضاد ہے۔
جناب عمران خان کا چوتھا آپشن یہ ہے کہ پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دیں۔ بلاشبہ خان صاحب کو مقبولیت عامہ حاصل ہے مگر انہوں نے گہرائی کے ساتھ غالباً یہ اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ ان کے مداحوں کے اندر طویل دھرنوں اور لانگ مارچوں کے لیے کتنی قوتِ مزاحمت ہے؟ خان صاحب کو چاہیے کہ وہ آخری آپشن کو سنبھال کر رکھیں۔ ابھی اُن کے بارے فارن فنڈنگ کیس اور عدالتوں کے فیصلے آنے ہیں۔ تب خدانخواستہ اگر خان صاحب پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو اس وقت دیکھنا ہو گا کہ اُن کی عوامی مقبولیت کیسے ردِعمل کا اظہار کرتی ہے۔ اگر بار بار کی احتجاجی کالوں سے خان صاحب نے اپنے مداحوں کو ابھی سے تھکا دیا اور عوامی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکال دی تو پھر کل جب ضروری احتجاج کا موقع آئے گا تو اس وقت تھکی ہاری عوامی مقبولیت مطلوبہ ردِعمل نہ دے پائے گی۔
اس وقت عالمی سطح پر معاشی صورتِ حال دگرگوں ہے‘ اسے دیکھتے ہوئے خان صاحب کو تخت و تاج کے حصول کے لیے زیادہ بے تابی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ساری دنیا بدترین قسم کی کسادبازاری سے دوچار ہونے والی ہے۔ اس بینک نے دنیا کی تمام حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سپلائی کو زیادہ سے زیادہ بڑھائیں تاکہ رسد و طلب کے درمیان توازن قائم ہو سکے۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ساری دنیا میں قیمتیں تیز ی سے بڑھ رہی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دو برس کے دوران پاکستان میں چیزوں کی قیمتیں تین تین اور چار چار گنا تک بڑھ چکی ہیں۔ ان قیمتوں کو نیچے لانا اور روپے کی قدر میں اضافہ کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ خان صاحب کے پاس یقینا کوئی الہ دین کا چراغ نہیں۔ انہیں باور کر لینا چاہیے کہ ان حالات میں کرسیٔ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا تاج ہے۔ خان صاحب کا مسئلہ بقول غالب یہ ہے:
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
جناب عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ محض مقبولیت یا اس مقبولیت کے سہارے حصولِ اقتدار فی نفسہٖ کوئی ہدف نہیں۔ خان صاحب کو اگلے چھ سات ماہ کی مدت کو غور و فکر اور سیاسی و معاشی استحکام کے لیے منصوبہ بندی پر صرف کرنی چاہیے۔ انہیں پِتہّ مار کر ہوم ورک کرنا ہو گا۔خان صاحب کی اصل کامیابی یہ ہو گی کہ اگر وہ کوئی ایسا قابلِ عمل منصوبہ قوم کے سامنے پیش کریں جس پر عمل کر کے ہمیں مستقلاً کشکولِ گدائی سے نجات مل جائے اور معیشت قرضوں پر نہیں اپنے قدموں پر کھڑی ہو جائے۔ سیاسی استحکام ایسا ہو کہ جو برسراقتدار آئے صاف شفاف انتخابات کے ذریعے آئے اور پانچ برس تک برسراقتدار رہے۔
ہماری رائے میں جناب عمران خان کو حصولِ اقتدار کے لیے کسی ماورائے آئین مفاہمت و مصالحت کی خواہش کو دل سے نکال دینا چاہیے۔آئین کی بالادستی میں ہی ہم سب کا بھلا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved