کیسا اتفاق ہے جن دنوں میں ٹورونٹو میں تھا سب رنگ والے شکیل عادل زادہ بھی ٹورونٹو آئے ہوئے تھے اور ٹورونٹو کے علاقے Brampton میں اپنے بیٹے شرجیل کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔وہ مجھ سے ایک روزپہلے ہی یہاں پہنچے تھے۔ فون پر بات ہوئی تو انہوں نے سفر کا احوال سنایا۔ وہ ابھی تک تھکن کے حصار میں تھے۔ کہنے لگے :جلد ملاقات ہو گی۔ اگلے روز میں ٹورونٹو کے خوشگوار موسم کا لطف اٹھا رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی‘ یہ ٹورونٹو میں رہنے والے منیر سامی صاحب کا فون تھا۔ سامی صاحب ٹورونٹو میں ادبی سرگرمیوں کی جان ہیں اور یہاں کی فعال تنظیم پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں۔ منیر سامی کہہ رہے تھے: چند دوست ڈنر کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں‘ شکیل عادل زادہ صاحب بھی تشریف لا رہے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ڈنر میں شریک ہوں۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے وہ کہنے لگے :ہمارے دوست وقار رئیس جو Pickring میں رہتے ہیں آپ کو گھر سے پک کرکے مسی ساگا (Mississauga)لے آئیں گے۔ میرے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی‘ میں نے سامی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور کہا ان شاء اللہ میں ضرور آؤں گا۔ مقررہ دن اور وقت پروقار رئیس صاحب اپنی گاڑی لے کر آ گئے اور مسی ساگا کی طرف روانہ ہو گئے۔ وقار رئیس کراچی یونیورسٹی کے گریجوایٹ ہیں اور ٹورونٹو میں کراچی الومینائی ایسوسی ایشن (Alumni Assiation)کے صدر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں مستحق طالب علموں کے لیے وہ ہر سال سکالرشپس کا اہتمام کرتے ہیں۔ باتوں باتوں میں اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ وہاں ہمارے میزبان منیر سامی صاحب اور ان کی بیگم نے ہمارا استقبال کیا۔ وہیں پر ندیم صاحب سے ملاقات ہوئی۔آپ ٹورونٹو کے اخبار پاکستان ٹائمز کے مدیر ہیں اور ایک باغ و بہار شخصیت ہیں۔ کچھ ہی دیر میں شکیل عادل زادہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ریستوران میں داخل ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا شرجیل‘ اس کی بیگم اور دو ننھے منے بچے بھی تھے۔ سامی صاحب نے شکیل عادل زادہ اور میری نشستیں ساتھ ساتھ رکھی تھیں۔ اب گفتگو کا آغاز ہوا کوئی متعین موضوع نہیں تھا۔ ہمارے سامنے دیوار پر لاہور کی ایک خوب صورت پینٹنگ تھی جو دیارِ غیر میں اپنے وطن کی یاد تازہ کر رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں میز پر کھانا سجنا شروع ہو گیا۔ سامی صاحب نے پُرتکلف دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ یہ ایک یادگار شام تھی جس میں ہم سب گفتگو میں شریک تھے۔ ہم جانتے تھے کہ یہ قیمتی لمحات پھر لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ ہم باتوں میں ایسے محو ہوئے کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ اب رات ڈھل رہی تھی اور شکیل بھائی کو Bramptonواپس جانا تھا۔ اتنی دیر میں کسی نے اعلان کیا کہ باہر زوروں کی بارش شروع ہو گئی ہے۔ ہم باہر نکلے تو واقعی موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ سامی صاحب نے سب کا شکریہ ادا کیا اور خدا حافظ کہتے ہوئے ہمیں یاد دلایا کہ بہت جلد شکیل عادل زادہ کے ساتھ ایک محفل کا انعقاد ہو گا۔ اس کے ساتھ انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا کہ چونکہ آپ نے شکیل صاحب کے بارے بہت لکھا ہے ہم چاہیں گے کہ شکیل صاحب کے ساتھ محفل میں آپ ان پر گفتگو کریں۔
سات اگست کو شکیل عادل زادہ کے ساتھ محفل کا انعقاد کیا گیا۔ اس روز بھی وقار رئیس صاحب نے مجھے گھر سے پِک کیا اور ہم مسی ساگا کے لوِنگ آرٹ سنٹر (Living Art Center) کی طرف روانہ ہوئے۔ آج ٹریفک معمول سے زیادہ تھی اس لیے ہمارے سفر کی رفتار آہستہ تھی۔ ادھر سے بار بار سامی صاحب کے فون آرہے تھے کہ آپ کہاں تک پہنچے۔ مسئلہ یہ تھا کہ وقار رئیس صاحب کی ذمہ داری رجسٹریشن ڈیسک پر تھی جس سے ہو کر مہمان ہال میں جا سکتے تھے۔ جب ہم آڈیٹوریم پہنچے تو وقار رئیس صاحب یہ دیکھ کر مطمئن ہو گئے کہ ندیم صاحب نے رجسٹریشن ڈیسک سنبھالا ہوا تھا۔ ہال میں داخل ہوئے تو لوگوں کی بڑی تعداد پہلے سے نشستوں پر بیٹھی تھی۔ میں بھی شکیل بھائی کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر میں ہال کی تمام نشستیں بھر گئیں۔ وقار رئیس صاحب نے نظامت کا فریضہ سنبھالا اور تقریب کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا۔انہوں نے کراچی میں مستحق طلبہ کے لیے سکالرشپس کے بارے میں جامع بتایا اور پھر تقریب کے حوالے سے تعارفی کلمات کہے۔ ان کے بعد پرویز سامی صاحب نے شکیل عادل زادہ اور سب رنگ کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی۔ اس کے لیے انہوں نے شکیل عادل زادہ پر لکھی گئی تحریروں کا تفصیل سے مطالعہ کیا تھا۔ ان کے بعد وقار سید اور امیر جعفری نے مختصراً سب رنگ کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ آخر میں مجھے اظہارِ خیال کے لیے بلایا گیا‘ جس کا خلاصہ یہ تھا ''سب رنگ ایک رسالہ نہ تھا۔ ایک جذبہ تھا‘ ایک عہد تھا‘ ایک تہذیب تھی‘ ایک جنون تھا‘ ایک نشہ تھا۔ دراصل سب رنگ ایک شخص کی آشفتہ سری اور جنوں کیشی کا شاخسانہ تھا۔ جسے دنیا شکیل عادل زادہ کے نام سے جانتی ہے۔سب رنگ شہاب ثاقب کی طرح آیا‘ادب کے آسمان پر ان دیکھے رنگ بکھیرے او ر پھر اپنے چاہنے والوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد بک کارنر جہلم نے ''سب رنگ کہانیاں‘‘ کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کی ہیں جو سب رنگ میں چھپنے والی بدیسی کہانیوں کا خوب صورت انتخاب ہے۔‘‘
اب شکیل بھائی سے سوال و جواب کی باری تھی۔سب سے پہلے پرویز سامی صاحب نے سوالات کا آغاز کیا اور اس کے بعد ہال میں بیٹھے سامعین نے جی بھر کر سوال پوچھے۔ ٹورونٹو کی مصروف ترین زندگی میں کسی تقریب میں ہال کا کھچا کھچ بھر جانا اور پھر لوگوں کاا تنی دیر تک جم کر بیٹھے رہنا اردو اور ادب سے محبت کرنے والوں کے لیے نیک فال ہے۔ اب سب لوگ اپنی نشستوں سے اُٹھ کر سٹیج پر آ کر تصویریں بنوا رہے تھے‘ اسی دوران چار نوجوان میرے پاس آئے اور کہنے لگے :ہم آپ کے کالم شوق سے پڑھتے ہیں۔ کیا ممکن ہے کہ آپ یہاں سے نکل کر ہمارے ساتھ کسی کافی شاپ پر کافی پئیں؟میں نے کہا: میں آپ کے ہمراہ ضرور چلتالیکن میں وقار رئیس صاحب کے ساتھ آیا ہوں اور وہی مجھے گھر ڈراپ کریں گے ان میں سے ایک نے کہا :میرا نام یعقوب ہے اور میں آپ کو گھر ڈراپ کروں گا۔ اب بتائیے ؟میں نے ان نوجوانوں کی آنکھوں میں محبت کی چمک دیکھ لی تھی۔ میں نے کہا: چلیں میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ یہاں سے نکل کر ہم Tim Hortonsچلے گئے۔یہ سب پڑھے لکھے نوجوان تھے جو کتابوں کے رسیا تھے۔ ان میں یعقوب ملک‘ قسور محمود‘ خالد بزدار اور بابر شامل تھے۔ ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا۔ کافی پی کر ہم چہل قدمی کرتے ہوئے مسی ساگا (Mississauga) سنٹر آگئے جہاں ہر ویک اینڈ پر میلے کا سماں ہوتا ہے۔ اس دن بھی ہر طرف سٹالز لگے تھے اور لوگ ٹورونٹو کی نرم دھوپ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس روز واپسی پر یعقوب ملک نے مجھے گھر ڈراپ کیا۔ راستے میں یہ طے ہوا کہ اگلے ویک اینڈ پر کچھ اور دوستوں سے ڈنر پر ملاقات ہوگی۔ یعقوب ملک کے گھر اگلے ویک اینڈ پر ٹورونٹو میں مقیم معروف شاعر سلمان حیدر‘ ڈاکٹر ذوالفقار حیدر‘ ٹورونٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فاروق نعیم‘ قسور محمود اور کچھ دوسرے دوست شریک تھے۔ شام کا وقت تھا اور ہم گھر کے لان میں ایک اونچے اور گھنے درخت کے نیچے کرسیاں بچھا کر بیٹھے تھے۔ کھانے کے ساتھ شعرو شاعری کا بھی دور چلا۔ سب نے کچھ نہ کچھ سنایا۔ ہلکی ہلکی ہوا درختوں سے چھو کر آرہی تھی۔ کچھ دیر کے لیے مجھے یوں لگا کہ میں ٹورونٹو میں نہیں اپنے گاؤں میں برگد کے بوڑھے درخت کے نیچے بیٹھا ہوں اور رات دھیرے دھیرے ڈھل رہی ہے۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved