الزام تراشی ہو یا بہتان بازی‘کردار کشی ہو یا ہرزہ سرائی‘جھوٹے مقدمات ہوں یا قید و بند کی صعوبتیں‘یہ سبھی ہماری جمہوریت کا ''حسن‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ مخالفین کو زیر عتاب رکھنے کے وہ حربے ہیں جو ہر دور میں رائج اور جاری رہے ہیں۔حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور اتنے اچھے پائے گئے ہیں کہ بردارِ محترم حسن نثار کا ایک شعر بے اختیار یادآرہا ہے۔
میں بھی کتنا اچھا ہوں
بالکل تیرے جیسا ہوں
سبھی پر ایک دوسرے کے ریکارڈ زریکارڈ مدت میں توڑنے کی دھن سوار دکھائی دیتی ہے۔ریفارمز کے نام پر ڈیفارمز کے جو ڈھیر ہر دور میں لگائے جاتے رہے ہیں وہ آج بدترین طرزِحکمرانی کا کوہ ہمالیہ بن چکے ہیں۔ ان سبھی کا طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکومت‘دونوں کا مشاہدہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے ہی لگانے والی دوائی کھا رہے ہے اور کھانے والی لگائے چلے جارہے ہیں اور اس پر ستم یہ کہ مستائے بھی چلے جارہے ہیں۔طرزِحکمرانی کے اکثر رنگ ڈھنگ دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملاح کو جہاز اُڑانے کے لیے کاک پٹ میں بیٹھا دیا گیا ہو۔سبھی اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے کی اپوزیشن بن کر ٹانگ کھینچنے اور کردار کشی کی روایت بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔اپنی آنکھوں میں شہتیر لیے پھرنے والے دوسروں کی آنکھ میں بال کو لے کر زمین آسمان ایک کیے ہوئے ہیں۔ ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا ہے کہ اخلاقی و سماجی قدریں لیرو لیرکرنے کے ساتھ ساتھ قانون اور ضابطوں کی بھی خوب دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ بدزبانی اور اخلاق سے گری ہوئی شعلہ بیانیاں دیکھ کر یوں لگتا ہے سبھی کے درمیان اس کا مقابلہ جاری ہے۔صورتحال اس قدر سنگین اور نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کہ ایک دوسرے کی حب الوطنی اورمذہبی عقائدپر بھی کھلے عام سوالات اٹھانے سے گریز نہیں ہے۔
مملکتِ خداداد کا سیاسی منظر نامہ اس قدر برہم اور گرم ہے کہ سبھی ایک دوسرے سے گتھم گتھا اور دست و گریباں دکھائی دیتے ہیں۔وفاقی حکومت کا سکہ جہاں تک چلتا ہے وہ علاقہ مخالفین کے لیے نو گو ایریا بن چکا ہے۔اسی طرح حساب برابر کرنے کے لیے تحریک انصاف تخت ِپنجاب کو برابر استعمال کرکے آہنی ہاتھ سے جواب دینے پرآمادہ ہے۔گھمسان کے اس رن میں یہ سبھی سماج سیوک نیتا ایک دوسرے کو چت اور ڈھیر کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں سے لے کر جھوٹے سچے مقدمات درج کرواکر پوائنٹ سکورنگ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔عمران خان کے بارے مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف کی پریس کانفرنس پر تخت پنجاب کا قانون حرکت میں آچکا اور صاحبِ معاملہ سمیت چند اضافی ناموں کے ساتھ مقدمہ درج ہوچکا ہے۔لڑائی گلی محلے کی ہو یا حکمرانوں اور ایوانوں کی‘زیبِ داستاں کے لیے استغاثہ میں غیر متعلقہ اور اضافی ناموں کو شامل کرناہماری روایت ہے۔ملزم کے گھر بیٹھے باپ بھائی ہوں یاجائے وقوعہ پر غیر موجود دوست احباب۔ان سبھی کا نام مقدمے میں درج نہ ہو تومدعی کو ٹھنڈ نہیں پڑتی۔سینے میں ٹھنڈ کے چکر میں اچھا خاصا جاندار وقوعہ اور مقدمہ بھی بالآخر ٹھنڈا ہوکر کسی سرد خانے کی نذرہوجاتا ہے۔
جاوید لطیف کے خلاف درج کروائے گئے مقدمے میں بھی زیبِ داستاں کے طور پر وزیراطلاعات اور ایم ڈی پی ٹی وی سمیت کئی غیر متعلقہ اور غیر موجود افراد کے نام بھی شامل کرکے پرچے کو بھاری کیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ جب سرکار اپنی ہو‘پولیس ماتحت ہو توایسے مقدمات درج کروانا تو حکمرانوں کی شان ہوتی ہے جبکہ پریس کانفرنس کے وقت مریم اورنگزیب ملک سے باہر اور ایم ڈی پی ٹی وی اپنے سرکاری دفتر میں موجود تھے۔کبھی یہ سیاسی رہنما چیئر مین پیمرا کو پارٹی بناتے ہیں تو کبھی نجی چینلز کے مالکان اور کارکن صحافیوں کو‘حالانکہ ذرائع ابلاغ کا کام صرف خبر یا واقعہ کو نشرکرنا ہوتا ہے۔کسی کی نیت‘ ارادہ اور مقاصد سے کوئی سروکار اور لینا دینا نہیں ہوتا‘اقتدار کی رسہ کشی میں ایک دوسرے کے جانی دشمن دکھائی دینے والے اپنے اپنے گندے کپڑے ضرور دھوئیں لیکن خیال رہے کہ اس کے چھینٹوں سے سرکاری مشینری‘ ریاستی اداروں اور کارکن صحافیوں کو داغدار نہ کریں۔ اس تناظر میں ایک معمہ حل طلب ہے کہ کسی ہوٹل یا پرائیویٹ مقام پر پریس کانفرنس یا تقریب میں کوئی بھی کسی کے بارے میں قابلِ اعتراض گفتگو یا ہرزہ سرائی کرے تو کیا مقدمے میں ہوٹل مالک‘ منیجر اورویٹرز کو بھی شریک ملزم ٹھہرایا جاسکتا ہے؟اسی طرح تعلقات عامہ سمیت دیگر سرکاری اور غیر سرکاری مقامات پر ہونے والی پریس کانفرنسز میں کوئی قابلِ گرفت یا قابلِ اعتراض گفتگو پر وہ سبھی افسران اور عملہ بھی شریکِ جرم ٹھہرایا جائے گا جو گھر سے اپنی سرکاری ڈیوٹی ادا کرنے آتے ہیں۔ یہ صورتحال اسی لئے اس قدر تشویشناک اور فوری توجہ طلب ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات بگڑے اور بے قابو ہوئے تو بس پرچے ہی پرچے ہوں گے۔کہیں وفاقی تو کہیں صوبائی پرچے‘حریفوں اور سیاسی مخالفین کو انتقام اور عناد کی بھٹی میں جلانے کے لیے قوانین اور طاقت کے بے جا استعمال کا رواج ہر دور میں عام رہا ہے۔ ایوبی دور میں ایبڈو (Elective Bodies Disqualification Order) کے تحت درجنوں سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر ان کی سیاست پر تاحیات پابندی لگادی گئی۔ انہی متاثرہ سیاستدانوں میں عابدہ حسین کے والد کرنل عابد حسین بھی شامل تھے جبکہ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایوب کھوڑو بھی اسی قانون اورجبر کا نشانہ بن کر نااہل قرار پائے‘ جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو موافق حالات اور صاف میدان میسرآگیا۔ اسی طرح چوہدری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا اور تاحال ناقابلِ فہم نمونہ ہے۔ دورِ ایوبی میں مصطفی کھر پر 35 من کپاس چوری کا مضحکہ خیز مقدمہ کچھ یوں درج کیا گیا کہ ملزم یہ کپاس اپنے سر پر اٹھا کر لے گیا ہے۔
اسی طرح ضیاالحق کا دور آیا تو نفاذِ نظامِ مصطفی کے نعرے پر اقتدار کو طول اور استحکام دینے کے لیے جو حربے آزمائے گئے وہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ کیا سیاست‘ کیا صحافت‘ سبھی پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ سیاسی کارکنوں پر کوڑے برسانا اور قلعہ بند کر دینا اس دور میں حکمرانوں کا محبوب مشغلہ رہا۔ صحافت پر سنسر کی کڑی پابندیاں تو تھیں ہی صحافیوں کی کثیر تعداد کو بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ کئی صحافیوں کو شاہی قلعہ میں زیرِ عتاب رکھا گیا۔ کراچی سے خیبر تک کارکن صحافیوں کی طویل فہرست ریکارڈ کا حصہ ہے جنہوں نے آمریت کے آہنی شکنجے میں زندگی کا مشکل ترین اور اذیت ناک وقت گزارا۔ہر دور میں انسدادِ دہشت گردی کا قانون ہو یا احتسابی عمل حکمرانوں نے سبھی ادارے سیاسی مخالفین کی تاک میں ہی لگائے رکھے۔یہ سبھی اپنے مخالفین کو ہر صورت سرنگوں اور معتوب ہی دیکھنا پسند کرتے تھے۔ ان کی اس منتقم مزاجی میں تکبر کی جھلک بھی نظرآیا کرتی تھی۔آصف علی زرداری اور انگریزی اخبار فرنٹیئر پوسٹ کے مالک و ایڈیٹر پر بنائے گئے منشیات کے کیسوں کا پسِ منظر اور قانونی حیثیت کون نہیں جانتا؟ بے نظیر دور میں بے باکی پر شیخ رشید کو طویل عرصہ پابندِ سلاسل رکھا گیا۔ انتقامی جذبے طرزِ سیاست کو اس قدر بھیانک بنا چکے ہیں کہ کردار کشی سے لے کر ایک دوسرے کو غدار تک کہنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ کس کو معلوم یہ انتقام کی آگ کہاں تک پہنچے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved