وقت کے ساتھ ساتھ نت نئے روزگار سامنے آ رہے ہیں۔ خاص طور پر ایسے ڈیجیٹل سکلز جنہیں سیکھ کر نوجوان بہت جلد کمانا شروع کر دیتے ہیں اور جنہیں سیکھنے میں کئی سال نہیں بلکہ محض چند ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے اس سلسلے میں خاصی تیزی آئی ہے اور پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اس طرف راغب ہوئی ہے۔اس کے کچھ اچھے پہلو ہیں اور کچھ منفی۔ نوجوانوں کو سکلز اس لیے پسند ہیں کہ انہیں ان کے لیے طویل عرصے تک پڑھائی نہیں کرنا پڑتی اور وہ کسی ''شارٹ کٹ‘‘ کے ذریعے جلد از جلد آمدنی چاہتے ہیں۔ اسی طرح زیادہ تر سکلز آن لائن سیکھے جا سکتے ہیں۔ یوٹیوب یا دوسری ویب سائٹس سے فری کورسز کی مدد سے نئی سکلز کو گھر بیٹھے سیکھا‘ سمجھا اور پریکٹس کیا جا سکتا ہے۔ پھر ایسے سکلز کے ذریعے آن لائن کام کیا جا سکتا ہے، نوکریاں ڈھونڈنے کے لیے جگہ جگہ جوتے چٹخانے کی زحمت سے بھی وہ بچ جاتے ہیں۔ آن لائن کام سے ان کی آمدنی بھی ڈالرز میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے ملک میں روپے کی گراوٹ سے ہونے والے معاشی اثرات بھی ان پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے؛ تاہم اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں مثلاً یہ کہ اگر تعلیم مکمل کیے بغیر صرف سکلز ہی اس مقصد کے لیے سیکھ لیے جائیں کہ آمدنی کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے تو یہ سودا زیادہ دیر تک بکنے والا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو نوجوان یا طلبہ بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں اور پڑھائی کو اہمیت نہیں دیتے یا سمجھتے ہیں کہ پڑھ کر نوکری تو ملنی نہیں‘ اس لیے بہتر ہے کہ کوئی ہنر سیکھ لو اور کام پر لگ جائو۔ اس سے ان کا عارضی طور پر تو کچھ نہ کچھ دال دلیا ہو جاتا ہے لیکن طویل عرصے کے لیے فائدہ اس لیے نہیں ہو پاتا کہ سکلز کی ڈیمانڈ اور اس کے انداز بدلتے رہتے ہیں۔ جو شخص بھی بغیر کوئی ڈگری حاصل کیے محض میٹرک یا ایف اے کے بعد کوئی ہنر سیکھنے کی کوشش کرے گا وہ اپنے محدود علم کے باعث ایک مخصوص دائرے ہی میں کام کرتا رہے گا‘ اس کی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکے گا اور یوں وہ بہت جلد مایوس ہو جائے گا یا دو چار مہینے بعد پھر کسی نئے ہنر کو سیکھنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے لگے گا۔ اس کے برعکس وہ نوجوان جو چار‘ چھ سال ڈگری کے حصول میں لگائے گا اور اس کے بعد اپنی تعلیم سے متعلقہ کوئی ہنر سیکھے گا یا اس میں مزید مہارت حاصل کرے گا‘ اس کے کام کرنے کا دائرہ اور سوچ کا محور کہیں زیادہ وسیع اور پائیدار ہو گا اور آمدن کے زیادہ بہتر ذرائع تک رسائی حاصل کر سکے گا۔
پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں آبادی کا باسٹھ فیصد سے زائدحصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ وہاں کیریئر کونسلنگ کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ حتیٰ کہ کئی نوجوانوں کو ماسٹرز کرنے تک بھی یہ علم نہیں ہوتا کہ ان کا اصل میں رجحان کس طرف ہے اور وہ یہ تعلیم کیوں حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ برسوں سے سوشل میڈیا اور فری لانسنگ کے فروغ کے بعد نوجوانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ ڈگری لینے کا بھی کوئی فائدہ نہیں اور جو پانچ چھ سال ڈگری کے حصول کے لیے لگانے ہیں اس سے بہتر ہے چند مہینے کوئی ہنر سیکھ لو اور کمائی پر لگ جائو۔ اگر یہ راستہ درست ہوتا تو دنیا بھر کی یونیورسٹیاں بند ہو جاتیں یا پھر سٹینفورڈ‘ایم آئی ٹی‘ہارورڈ اور دیگر یونیورسٹیاں دو دو‘ چار چار ماہ کے شارٹ کورسز ہی کروا رہی ہوتیں اور لوگ دھڑا دھڑ فری لانسنگ کورسز کر کے چھوٹی موٹی آمدن کے حصول میں ہی جتے رہتے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں بہت سے نقائص ہیں‘ ہمارے ہاں اکثر ڈگریاں فیلڈ سے مطابقت نہیں رکھتیں اور ڈگری حاصل کر کے بھی نوجوانوں کو کچھ فائدہ نہیں ہو پاتا۔ انہیں فیلڈ میں انٹرن شپ کر کے ہی کام سیکھنا پڑتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے نوجوان بالخصوص آئی ٹی فیلڈ سے‘ ڈگری مکمل کرنے کے ساتھ یا اس سے قبل ہی کمانا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں اپنی فیلڈ سے مطابقت کے لیے انٹرن شپ نہیں کرنا پڑتی بلکہ وہ دورانِ تعلیم ہی وہ کچھ سیکھتے ہیں جس کی فیلڈ میں ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ دیگر ڈگریوں کو بھی اسی طرز پر اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ آپ تعلیم کو خیرباد کہہ دیں اور صرف واجبی سے کورسز پر اکتفا کر کے اپنی پوری زندگی کو دائو پر لگا دیں۔
جدید ممالک میں تعلیمی نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ آپ کی ڈگری ہی آپ کے لیے کافی ہوتی ہے۔ البتہ چھوٹے موٹے کورسز یا الگ سے کچھ ریفرشر کورسز ضرور اور ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن یہ آپ کی ڈگری کی کمی‘ کوتاہیوں کو پورا کرنے اور آپ کو مزید پالش کرنے اور نکھارنے کیلئے ہوتے ہیں یا پھر جو کچھ آپ نے اب تک پڑھا ہوتا ہے‘ یہ کورسز آپ کو وقت کے حوالے سے اَپ ڈیٹ کر دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں مگر پہیہ الٹا گھوم رہا ہے کہ تعلیم کی ضرورت ہی نہیں‘ بس کوئی فزیکل یا ڈیجیٹل ہنر سیکھ لو اور کمانے لگ جائو۔ یہ درست ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں آمدنی کی اشد ضرورت ہے مگر اس کے کچھ اور راستے بھی ہو سکتے ہیں مثلاً آپ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کچھ کورسز کر سکتے ہیں تاکہ کچن اور دیگر اخراجات آسانی سے چلا سکیں جیسے ماضی میں یا اب بھی کچھ لوگ ٹیوشنز وغیرہ پڑھا کر اپنا کچن چلاتے ہیں۔ عموماً حکومتیں اس طرح کے معاملات میں کم ہی دلچسپی لیتی ہیں لیکن گزشتہ دنوں حکومت پنجاب کی جانب سے اس معاملے پر ایک آگاہی مہم دیکھنے کو ملی جس میں تعلیم اور ہنر کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے پر زور دیا گیا۔ طلبہ و طالبات پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ تعلیم کو غیر اہم نہ سمجھیں کیونکہ تعلیم ہی انہیں بااختیار اور باشعور بناتی ہے جبکہ تعلیم کے ساتھ ہنر سیکھ کر وہ اپنے حاصل کردہ علم کو عملی زندگی میں بہتر انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں بیس ہزار نوکریاں موجود ہیں لیکن ان کے لیے اہل نوجوان دستیاب نہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہی ہے کہ ہمارے ہاں بھیڑ چال ہے‘کوئی مارکیٹ کی طلب نہیں دیکھ رہا اورصرف چند ماہ کے کورسز کر کے آمدن کے حصول کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے جبکہ جن شعبوں سے زیادہ اور دیرپا آمدنی حاصل ہو سکتی اس جانب سوچا ہی نہیں جا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جو شعبے ہم خالی چھوڑ رہے ہیں‘ ان کا خلا بھارت‘بنگلہ دیش یا دیگر ممالک پُر کر رہے ہیں اور جو زرمبادلہ یہاں آ سکتا تھا دیگر ممالک سمیٹ کر اپنے ملک لے جا رہے ہیں۔پنجاب کی طرح اگر دیگر صوبے بھی اپنی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم اور ہنر کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کی مہم چلائیں جن میں طلبہ کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ دل لگا کر تعلیم مکمل کریں اور اس کے ساتھ ساتھ کوئی اچھا اور ایسا ہنر بھی سیکھیں جو ان کی حاصل کردہ ڈگری سے مطابقت رکھتا ہو تو یہ سونے پہ سہاگا والی بات ہو گی اور نوجوانوں کو درست سمت بھی میسر آ جائے گی۔
ایک وقت تھا جب تیل یا سونا کسی بھی ملک کی ترقی اور خوش نصیبی کا باعث سمجھا جاتا تھا مگر آج کے دور میں نوجوان ہی ملکی تقدیر بدلنے کے لیے بیش قیمت سرمایہ ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستانی نوجوان دنیا بھر میں اپنا نام‘ شہرت اور مقام بنا رہے ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جہاں دنیا کو بے شمار سہولتیں فراہم کی ہیں‘ وہیں جدید ہنر اور آمدنی کے نئے مواقع بھی سامنے آئے ہیں۔ ہنرکی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ہنر کا اصل فائدہ تعلیم یافتہ انسان ہی کو ہوتا ہے اور وہ نہ صرف زیادہ بہتر‘ پائیدار اور خوشحال زندگی گزار سکتا ہے بلکہ معاشرے کے دیگر افراد اور اداروں کیلئے بہترین معاون بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ تنہا ہنر قلیل مدت اور محدود پیمانے کیلئے فائدہ دیتا ہے جبکہ تعلیم یعنی ڈگری مکمل کر لی جائے اور اس کے ساتھ ضروری ہنر سیکھ لیے جائیں تو اس کے دُور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں اور پورا معاشرہ ترقی کے ان ثمرات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تعلیم اور ہنر ساتھ ساتھ ہی اچھے لگتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہمارے نوجوان اپنے اہداف اور کامیابیاں بااعتماد انداز میں حاصل کر سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved