سب متفق ہیں کہ مخنث یا خنثیٰ کو بنیادی انسانی حقوق ملنے چاہئیں۔ اختلاف اس میں ہے کہ 'خنثیٰ‘ (Transgender) کی تعریف کیا ہے؟
ہم تحریری قوانین کے دور میں رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی قانون لکھا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس میں استعمال ہونے والی اصطلاحوں کی تعریف کی جاتی ہے۔ اب کوئی اصطلاح قانون میں جہاں جہاں استعمال ہوگی‘ اس سے وہی تعریف مراد لی جائے گی جو ابتدا میں بیان ہو گئی۔ زیر بحث قانون میں ایک خنثیٰ یا مشتبہ الجنس فرد کے حقوق کی بات کی گئی ہے۔ جیسے حقِ وراثت‘ حقِ تعلیم یا حقِ ملازمت ہے۔ ان حقوق کے بارے میں سب متفق ہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ ابتدا میں جو تعریف کی گئی ہے‘ اس میں صرف خنثیٰ نہیں‘ کچھ خواتین و حضرات بھی شامل ہو گئے۔ یہ کیسے ہوا‘ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔
یہ قانون تین طرح کے افراد کو مخنث (Transgender) قرار دیتا ہے۔ ایک وہ جو پیدائشی طور پر مرد اور عورت کے جینیاتی خواص (Genital features) کا مجموعہ ہو یا جس کے جنسی اعضا غیرواضح ہوں۔ انگریزی میں اس کے لیے انٹرسیکس کی اصطلاح مستعمل ہے۔ عربی میں اسے خنثیٰ کہا جاتا ہے۔ دوسرا طبقہ ان پیدائشی مردوں کا جو سرجری یا کسی دوسرے عمل کے نتیجے میں مردانہ اعضا سے محروم ہوگئے یا کر دیے گئے۔ انہیں عام طور پر خواجہ سرا کہا جاتا ہے۔ تیسرا طبقہ ان افراد پر مشتمل ہے جو ٹرانس جینڈر مرد ہیں‘ ٹرانس جینڈر عورت ہیں‘ خواجہ سرا ہیں یا پھر وہ فرد مراد ہے جس کی 'صنفی شناخت‘ یا 'صنفی اظہار‘، ان سماجی توقعات اور اقدار سے مختلف ہے جو اس کی پیدائشی جنس کے حوالے سے رائج ہیں۔
اس آخری قسم کو 'ٹرانس جینڈر‘ کی تعریف میں شامل کرنا وجۂ نزاع ہے۔ اس کو میں مزید واضح کر دیتا ہوں۔ ہر سماج میں مرد سے منسوب ایک رویہ ہے جس کا اظہار ان کی حرکات و سکنات‘ لباس‘ بود و باش اور سماجی کردارسے ہوتا ہے۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔ بعض اوقات ایک مرد عورتوں کی طرح کا رویہ اپنا لیتا ہے۔ ان کی طرح کے کپڑے پہننے لگتا ہے۔ وہ باطنی طور پر خود کو عورت تصور کرنے لگتا ہے اور اس کا اظہار اس کے ظاہری رویے میں بھی ہوتا ہے۔ ایسا مرد اگر یہ اصرار کرے کہ اسے عورت مانا جائے تو اس قانون کی رو سے ریاست اور معاشرہ پابند ہیں کہ اسے عورت مان لیں۔اگر وہ نادرا کے دفتر جا کر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کو ایک عورت کا شناختی کارڈ جاری کیا جائے تو نادرا کے لیے لازم ہے کہ اس کی بات مانے۔ اس کے لیے کسی طبی معائنے یا دلیل کی ضرورت نہیں۔ اس باب میں اس کا کہا ہی قولِ فیصل ہے۔ یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا۔ اس قانون میں 'صنفی شناخت‘ اور 'صنفی اظہار‘ دونوں کی تعریف کر دی گئی ہے۔
قانون کے مطابق 'صنفی اظہار‘ سے مراد یہ ہے کہ ایک فرد جنسی طور پر خود کو کیسے پیش کرتا ہے یا دوسرے اسے کیا سمجھتے ہیں۔ 'جنسی شناخت‘ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: ''ایک فرد کا انفرادی اور باطنی احساس کہ وہ ایک مرد ہے‘ عورت ہے‘ مرد ہے نہ عورت ہے‘ اپنی پیدائشی جنس کے مطابق یا اس سے مختلف ہے‘‘۔ یعنی اپنی جنس کے بارے میں اس کا جو باطنی احساس ہے‘ قانون بھی اسے ہی تسلیم کرے گا۔
اس پر اعتراض کیا ہے؟ اگر ایک پیدائشی مرد خود کو باطنی احساس کی بنیاد پر عورت کہتا ہے اور قانون اسے مان لیتا ہے تو اس کے بعد قانون کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ اسے وہ حقوق دے جو اس نے ایک عورت کو دے رکھے ہیں۔ قانون کے مطابق ایک عورت مرد ہی سے شادی کر سکتی ہے۔ اب یہ عورت نما مرد کسی مرد سے شادی کرنا چاہے تو قانوناً اسے روکا نہیں جا سکتا لیکن اگر وہ کسی عوت کے ساتھ نکاح کرنا چاہے تو قانوناً ایسا نہیں کر سکتا کیوں کہ ہمارے قانون کی رو سے عورت کا عورت سے نکاح جائز نہیں۔ گویا ٹرانس جینڈر کی اس تعریف کو مان لیا گیا تو ہم جنس ہرستی کو قانونی تحفظ مل جائے گا۔
اسی طرح اس عورت نما مرد کو باپ کی وراثت میں سے وہی کچھ ملے گا جو قانوناً بیٹی کے لیے ہے۔ آپ ان اطلاقات کا دائرہ جتنا وسیع کرتے جائیں گے‘ آپ پر واضح ہوتا جائے گا کہ یہ سادہ بات نہیں ہے یا اس کا کوئی تعلق خنثیٰ کے بنیادی حقوق سے نہیں ہے۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو سوال یہ ہے کہ اس پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ یہ سوچ کہاں سے آئی؟
مغرب میں لبرل ازم کے تحت‘ فرد کی مطلق آزادی کا جو تصور پروان چڑھا ہے‘ اس کے مطابق فرد کی جنسی اور صنفی شناخت میں فرق کیا جاتا ہے۔ جنسی شناخت تو وہ ہے جس کے ساتھ ایک فرد پیدا ہوتا ہے۔ اب وہ اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ تاہم اگر وہ سماجی سطح پر اس شناخت کو قبول کرنے سے انکار کردے اور یہ چاہے کہ وہ مختلف جنسی شناخت کے ساتھ جیے تو اس کا حق رکھتا ہے۔ اسے صنفی شناخت قرار دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ کی بعض ریاستوں اور یورپی ممالک میں ہم جنسوں کے حقِ نکاح کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح کوئی سرجری سے اپنی جنس بدلنا چاہتا ہے تو اس کا حق رکھتا ہے۔ مذہبی روایت میں انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی پیدائشی جنسی شناخت کو تبدیل کرے۔
پاکستان میں بننے والے اس قانون پر اعتراض یہی ہے کہ ٹرانس جینڈر کی تعریف میں یہ وسعت دراصل ہماری نظامِ اقدار کے لیے خطرہ ہے۔ اگر یہ قانون ان لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ تک محدود رہے جو پیدائشی طور پر مشتبہ جنسی شناخت رکھتے ہیں تو اس پر مذہبی طبقات سمیت کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ ہماری فقہی روایت میں مرد کا غالب رجحان رکھنے والے خنثیٰ کو مرد کے تمام حقوق دیے گئے ہیں اور عورت کا غالب رجحان رکھنے والی کو عورت کے حقوق۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قانون میں ہم جنس پرستی کا کوئی ذکر نہیں۔ ان کی خدمت میں میرا سوال ہوگا کہ ایک پیدائشی مرد کو اگر اس کے باطنی احساس کی بنیاد پر عورت مان لیا جائے تو کیا اس کا لازمی نتیجہ یہی نہیں ہوگا؟ یہ احساس عام طور ہوتا ہی ان مردوں میں ہے جو ہم جنسیت کا میلان رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ خدشہ بے بنیاد نہیں ہے۔ پھر یہ کہ دنیا میں کسی کے 'باطنی احساس‘ کو معتبر مان لیا جائے تو بہت سے جھوٹے نبیوں یا قطب و ابدال کو بھی ماننا پڑے گا کیوںکہ یہ سب دعوے اسی باطنی احساس کے تحت کیے جاتے ہیں۔
اس قانون کے حامیوں سے میری گزارش یہ بھی ہوگی کہ وہ خنثیٰ کو اگر اس کے حقوق دینے میں سنجیدہ ہیں تو 'اس طبقے‘ کو خنثیٰ سے نکال دیں۔ وہ اگر 'اس طبقے‘ کے لیے حقوق کا کوئی تصور رکھتے ہیں تو اس پر الگ سے بحث کی جا سکتی ہے۔ اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ خنثیٰ کے حقوق پر اختلاف ختم ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ نزاعی پہلو واضح طور پر سامنے آجائے گا۔ پھر ایک دوسرا سوال ہمارے سامنے ہوگا اور وہ یہ کہ باطنی سطح پر وہ جنسی احساس کیسے پیدا ہوتا ہے جو کسی فرد کی پیدائشی جنسی شناخت سے مختلف ہوتا ہے؟ یہ کوئی نفسیاتی عارضہ ہے یا فطری؟ اگر یہ نفسیاتی مرض ہے تو اس کا علاج ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ فطری احساس ہے تو انسان کے سماجی تجربے اور نفسیاتی علم کو اس کی تصدیق کرنی چاہیے۔ اس سے متصل سوال یہ بھی ہے کہ یہ کوئی استثنائی معاملہ ہے یا عمومی تجربہ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved