عمران خان کا ماضی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے کسی بھی اندرونی یا بیرونی فورم پر اپنے خطاب میں اسلام اور پاکستان کے مفاد کے برعکس کبھی کوئی بات نہیں کی۔ ملعون سلمان رشدی کی سنگت میں بیٹھنے کوگناہ سمجھنے والے پر انتہائی قسم کے الزام لگانا جرم نہیں تو اور کیا ہے؟ عمران خان اقوامِ عالم میں پاکستان کی پہچان بن چکے ہیں۔ وہ اپنی بین الاقوامی شخصیت کی وجہ سے ملک کے لیے باعثِ عزت ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے انہیں ان کی اسی بین الاقوامی شہرت، عزت اور وقار کی وجہ سے اپنا اعزازی سفیر مقرر کر رکھا تھا۔ ہمارے بہت سے فنکار اپنے ٹی وی انٹرویوز میں اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ جب کینیڈا اور یورپ سمیت عرب ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے جاتے تھے تو امیگریشن پر تعینات اہلکار پاسپورٹ پر پاکستان کا نام دیکھ کر انہیں یہ کہتے ہوئے عزت دیتے تھے کہ ''عمران خان کا پاکستان‘‘۔ دنیا بھر میں پاکستان کی جس سیاسی شخصیت کا اس قدر احترام کیا جاتا ہو‘ اس پر جب کچھ لوگ مذہبی حوالے سے الزام لگائیں گے تو اِس عمل کو کسی طور پر بھی اچھا تصور نہیں کیا جائے گا۔
آج ٹیکنالوجی نے دنیا کو جوڑ دیا ہے اور وہ خبریں جو کل تک ہفتوں بعد بھی گڈ مڈ ہو کر ہم تک پہنچتی تھیں‘ اب ایک لمحے میں براہِ راست دیکھی اور سنی جا سکتی ہیں۔ عمران خان کے ساتھ گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران جس قسم کا غیرآئینی رویہ روا رکھا جا رہا ہے‘ دنیا بھر کو اس کی مکمل خبر ہے اور اس سے بیرونی عناصر کو پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع میسر آ رہا ہے۔ جب کوئی ایسی شخصیت بلا وجہ تنقید کا نشانہ بن رہی ہو جو کرکٹ میں ملک کا نام دنیا میں روشن کر چکی ہو‘ اور انسانی ہمدردی اور فلاحِ انسانیت کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنی ایک اُجلی اور بہترین پہچان رکھتی ہو تو پھر بلا وجہ تنقید کے نشتر برسانے والوں کو احتیاط برتنی چاہیے۔ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت عمران خان کے خلاف مذہبی کارڈ کھیلنے والے اور اس کارڈ کو کھیلنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے والے اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ کسی چھتری تلے پناہ لے کر بچ جائیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہو گی کیونکہ اس منصوبہ بندی کے نتیجے میں اگر خدا نہ کرے کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی زد میں سب آئیں گے اور یہ وہ وقت ہوگا جس کا ہمارے دشمن انتہائی بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔ وہ سرحدیں جن کی حفاظت کے لیے ہمارے فوجی جوان اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر‘ اپنے چند ماہ کے بچوں کو یتیم کرکے‘ اپنی سہاگنوں کو بیوہ کرکے‘ اپنے ماں باپ کو عمر بھر کیلئے دکھ اور تڑپ سے بھر پور جدائی دے کر راہِ شہادت پر قدم رکھنے والوں کے لواحقین جب اس وطن کو اس طرح لٹتا ہوا دیکھیں گے تو انہیں اپنے بیٹوں کی شہادت پہلے سے زیا دہ خون کے آنسو رلانے کا باعث بنے گی۔ اس لیے ہمیں وطن کی حفاظت یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس کی پہچان کو بھی سلامت رکھنا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ سیاسی رسہ کشی کے نتیجے میں حالات اس قدر قابو سے باہر ہو جائیں کہ پھر اتحادی حکومت ان پر قابو ہی نہ پا سکے۔
عمران خان کوئی دہشت گرد نہیں ہیں کہ ان سے مجرموں جیسا سلوک روا رکھا جائے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے کیونکہ یہ ملک مزید سیاسی تنائو کا متحمل کسی صورت نہیں ہو سکتا۔ عمران خان امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کی مثلث کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہونے کا عزم رکھتے ہیں ‘وہ ڈو مور کے بجائے ملکی و قومی مفاد کو مقدم رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اسی لیے ملکی تاریخ انہیں پاکستان کے محافظِ اعظم کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی اور وہ کروڑوں لوگ جن کے پاس اس دنیا میں ریاستِ پاکستان کے سوا کوئی جائیداد نہیں‘ کوئی گھر نہیں‘ کوئی مال و متاع نہیں‘ پاکستان کی سالمیت اور خوشحالی کے لیے ایسی سیاسی قیادت کا ساتھ دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوں گے۔
عمران خان کے مقابلے میں اس وقت پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تیرہ جماعتیں کندھے سے کندھا ملائے کھڑی نظر آرہی ہیں۔ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں ان سب کو ایک ساتھ دیکھ کر عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ وہ کس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ عمران خان کو اب ان سیاسی جماعتوں کے علاوہ اس قوت کا بھی سامنا ہے جو ان کی پارٹی میں توڑ پھوڑ اور اختلافات کو اس پیمانے پر لے جانے کی کوشش میں ہے جہاں ایسا گمان گزرے گا کہ جیسے عمران خان اور تحریک انصاف کا وجود ہی ختم ہونے والا ہے۔ اس کھیل کی پہل مارچ ‘اپریل میں ہو چکی ہے اور اب ا س کا دوسرا فیز تیار ہو چکا ہے جس کا اعلان ستمبر کے آخری ہفتے میں متوقع ہے۔
عمران خان سمیت پوری قوم نے دیکھ لیا ہے کہ نیب قوانین میں ترامیم کے بعد کس طرح نیب کو بے ضرر بنا دیا گیا ہے۔ آسمان پر چمکتے سورچ کی طرح نظر آنے والے کھلے اور ناقابلِ تردید ثبوتوں کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف‘ حمزہ شہباز‘ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر شخصیات کے خلاف دائر ریفرنسز خارج کیے جا چکے ہیں۔ جن میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس‘ سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کے چھ ریفرنسز ‘ پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف یو ایس ایف فنڈ میں کرپشن کا ریفرنس‘ سینیٹر سلیم مانڈوی والا‘ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سردار مہتاب عباسی اور پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کے خلاف لوک ورثہ میں مبینہ خورد برد کا ریفرنس بھی شامل ہیں۔ نیب قوانین میں ترمیم کے بعد مضاربہ سکینڈل اور کمپنیز فراڈ کے ریفرنسز بھی احتساب عدالتوں سے واپس لے لیے گئے ہیں۔ عمران خان کرپشن کے بیانیے کو بے شک اپنے ساتھ رکھیں لیکن وہ پاکستان کی سالمیت اور معاشی خوشحالی کو بھی مقدم سمجھیں اور اس مقصد میں وہ ہر سچے پاکستانی کو چاہے وہ مرد ہے یا عورت‘ نوجوان ہے یا ادھیڑ عمر‘ اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے۔ اس راہ میں عمران خان اور ان کا ساتھ دینے والوں کے سامنے بہت سی مشکلات آئیں گی لیکن انہیں پاکستان کی عزت و احترام اور خوشحالی کے لیے دنیا کا ہر عیش و آرام اور لالچ اپنے وطن پر قربان کرنا ہوگا۔ آج عمران خان کی حیثیت ''آخری چٹان‘‘ جیسی ہے اور اگر یہ چٹان خدانخواستہ خستہ ہو گئی تو پورا معاشرہ شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا۔ یہ چند خدشات‘ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے‘ پاکستان کے اوپر منڈلانے والے خطرات کی منظر کشی کرتے ہیں۔ ملک میں کسی بھی سطح پر کہیں بھی کی جانے والی محیر العقول تبدیلیاں کسی ایسے ایجنڈے کی خبر دے رہی ہیں جس کی کئی دہائیوں پہلے ہی سے تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ دل و جان سے پاکستان پر ایمان و یقین رکھنے والوں سے کسی طور پوشیدہ نہیں کہ وہ طبقہ جو اس وقت ہر محاذ پر عمران خان کے خلاف کمر بستہ ہے اور ان کے خلاف طرح طرح کے بیانیے تشکیل دے رہا ہے‘ وہ طبقہ ہے جس کے نزدیک مقبوضہ کشمیر سے زیادہ بھارت سے ثقافتی اور تجارتی تعلقات اہم ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved