دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک کے مسائل کم و بیش ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشترک مسئلہ قانون پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد کا نہ ہونا اور قانون کو طاقتور حلقوں کو سہولت دینے کے لیے بدلنا ہے۔ خصوصی طور پر ملکی اشرافیہ کے لیے قانون کو جس طرح توڑا مروڑا جاتا ہے، وہ خاصا تشویش ناک ہے۔ نیب کے قانون میں تبدیلی نے دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچایا ہے لیکن وفاقی حکومت اور اس کے اتحادی خوش ہیں اور اسے اپنی فتح قرار دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ان کی نظر میں فتح کے مترادف ہو لیکن دنیا کی نظر میں یہ ایسی شکست ہے جس کا اثر آنے والے کئی سالوں تک منفی انداز میں سامنے آتا رہے گا۔ بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے مابین طے پانے والے این آر او کا داغ ابھی تک مدھم نہیں ہوا تھا کہ مبینہ طور پر ایک اور این آر او سامنے آ گیا ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ ملک کے وزیراعظم ، ان کے خاندان کے افراد اور اس بل کی منظوری دینے والے سیاستدانوں کو ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ معاملہ صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے۔بعض دیگر اداروں میں بھی کچھ قوانین ترازؤ انصاف کو منہ چڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ چند ایسے قوانین ہمارے نظامِ عدل میں باقاعدہ طور پر موجود ہیں جو عام آدمی کو حیرت میں ڈال سکتے ہیں۔ جیسے اگر کسی کے خلاف کرپشن پر انکوائری چل رہی ہو اور وہ مجرم ثابت ہونے سے پہلے استعفیٰ دے دے تو اس کے خلاف نہ صرف انکوائری رک جاتی ہے بلکہ وہ تمام عمر سرکار سے پنشن اور دیگر فوائد لے سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس طرح کے قوانین کی آڑ لے کر کرپشن کو قانونی شکل دی گئی ہے تو شاید غلط نہ ہو گا۔
آج کل جس مدعے پر سب سے زیادہ آواز اٹھائی جا رہی ہے وہ وزیراعظم پاکستان کی لندن میں نواز شریف سے ہونے والی ایک ملاقات ہے جس کے حوالے سے ایک وزیر موصوف نے فرمایا ہے کہ وزیراعظم صاحب لندن میں نواز شریف سے اہم ریاستی ادارے میں اعلیٰ تعیناتی کے لیے مشاورت کرنے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ نواز شریف صاحب پاکستانی قانون اور عدالتوں کی نظر میں سزا یافتہ ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم کا یہ طرزِ عمل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ موقف کسی حد تک درست ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد کون کرائے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کٹہرے میں کون لائے گا۔ چند ماہ قبل وزیراعظم صاحب کی ترکیہ میں اپنے ایک بیٹے‘ جس پر پاکستان میں کچھ کیسز چل رہے ہیں‘ کے ہمراہ سرکاری معاہدوں میں شرکت کے حوالے سے بھی کافی تنقید کی گئی تھی لیکن کوئی فرق نہیں پڑا ۔ یہ مسئلہ صرف موجودہ وفاقی حکومت کا نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف بھی جب وفاق میں برسراقتدار آئی تھی تو بعض رہنمائوں پر قائم دہشت گردی کے مقدمات ختم کرائے گئے تھے۔پنجاب میں دوبارہ حکومت بننے کے بعدبھی چند افراد کو ریلیف ملا ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی ایسے افراد حکومت کا حصہ تھے جن پر کیسز چل رہے تھے بلکہ کچھ ارکان تو کابینہ کے اہم ممبر اور کمیٹیوں کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ قانون پر صحیح معنوں میں عملدرآمد شاید اس لیے نہیں ہو پاتا کہ قانون کی عمل داری کے حق میں آواز اٹھانے والے سیاست دان جب حکومت میں ہوتے ہیں تو وہ خود بھی ان قوانین پر عمل درآمد نہیں کرتے اور جب اپوزیشن میں جاتے ہیں تو قانون کی پاسداری کے حق میں آواز اٹھانے لگتے ہیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ قانون کی شقوں کی اہمیت اور عمل داری کا مطالبہ محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
جن معاشروں میں قانون پر عمل درآمد نہ ہونا بڑا مسئلہ نہیں سمجھا جاتا وہاں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معاشی عدم استحکام بھی سر اٹھانے لگتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان معاشی بدحالی کی نچلی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس وقت جنرل اسمبلی میں پاکستان کو بدترین قرضوں میں جکڑا ہوا ملک کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ پاکستانی کرنسی کو پانچویں بدترین کرنسی قرار دیا جا رہا ہے لیکن سرکار اس معاملے کو سنجیدہ لینے کے لیے تیاردکھائی نہیں دیتی۔ ماضی میں ڈالر کی قدر بڑھنے کے ساتھ ہی حکومت حرکت میں آ جایا کرتی تھی۔ کئی گورنر سٹیٹ بینک اسی وجہ سے نوکریوں سے نکالے گئے کہ وہ ڈالر کی شرح تبادلہ کو کنٹرول نہیں کر سکے تھے۔ لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ ایکشن لینا تو دور کی بات‘ وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک ڈالر ریٹ بڑھنے کی وجہ بھی بتانا ضروری نہیں سمجھ رہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق موجودہ حالات میں ڈالر کی قیمت دو سو روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مرکزی بینک کا ڈالر کے اتار چڑھائو میں مداخلت نہ کرنے کا دعویٰ درست دکھائی نہیں دیتا۔ حال ہی میں جب ڈالر 214 تک گر گیا تھا تو ڈالر ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دی گئی جس سے ڈالر کا ریٹ دوبارہ بڑھنا شروع ہو گیا۔اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت ڈالر کے ریٹ میں روزانہ دو سے تین روپے اضافہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے تو شاید غلط نہ ہو۔
ان حالات میں وزیر خزانہ ایک طرف فرما رہے ہیں کہ دنیا پاکستان کو سیلاب سے متعلقہ مطلوبہ امداد نہیں دے رہی تو قرض کیسے دے گی اور دوسری طرف فرما رہے ہیں کہ پاکستان سری لنکا کی طرح دیوالیہ نہیں ہو گا۔یہاں حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سری لنکا نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو دیوالیہ ڈکلیئر کیا۔ جب کسی ملک کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے آمدن نہ ہو اور قرض کی ادائیگی مزید قرض لے کر کرنا پڑے تو اسے معاشی اصطلاح میں دیوالیہ پن ہی کہا جاتا ہے۔ ہم بھلے لاکھ انکار کرتے رہیں مگر ہمارا ملک اس وقت اسی صورتحال سے دو چار ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ حکومت اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کر رہی جس کے نتیجے میں معیشت روز بروز سکڑتی جا رہی ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس نے وفاقی حکومت کی پالیسیوں کو معاشی بحران کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ چیمبر آف کامرس کے مطابق ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور آنے والے دن مزید مشکلات لاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ملکی اخراجات پچھلے دو ماہ میں تقریباً ایک ٹریلین روپوں سے بڑھ گئے ہیں۔ بجٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز کی قیمت ایک مرتبہ پھر گر گئی ہے۔ ورلڈ بینک پاکستانی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہا ہے۔ سعودی عرب نیا قرض دینے کی ہامی نہیں بھر رہا۔ ابھی تک صرف پرانے قرضے ری شیڈول کیے گئے ہیں۔ آرمی چیف کے دورۂ چین کے بعدہی سیلاب زدگان کے لیے چین نے 500 ملین یوآن دیے ہیں ۔ ملک کے لیے کیش ڈالرز ابھی تک نہیں ملے۔ آئی ایم ایف قسط کے بعد بھی ورلڈ بینک کی قسط روک دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سیلاب زدگان کے لیے مدد کے اعلان میں قرض معاف یا مؤخر کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ جو بھی امداد دی جائے گی‘ وہ سامان کی صورت میں براہِ راست سیلاب زدگان کو دی جائے گی۔ شنگھائی سمٹ سے بھی قرض یا امداد کے حوالے سے کوئی خبر نہیں آئی۔ وزیراعظم صاحب کی امریکہ میں عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی زبانی جمع خرچ محسوس ہو رہی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کو صرف اتنی آکسیجن دی جا رہی ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے سانسیں چلتی رہیں تو غلط نہیں ہو گا۔ ایسی صورتحال میں ملک کی ترقی کے دعوے کرنا بیوقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
اس وقت دنیا کو یہ باورکرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان مستقل معاشی پالیسی بنانے کے لیے سنجیدہ ہے۔ ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کی جا سکتی ہے۔کچھ عرصے کے لیے ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنانے سمیت کئی آپشنز زیرِ غور لائے جا سکتے ہیں۔عالمی طاقتوں کا پاکستانی سیاستدانوں پر اعتماد بحال کرنا ضروری ہے مگر یہ کام محض ایک پارٹی یا وفاقی حکومتی اتحاد نہیں کر سکتا بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں اور سٹیک ہولڈرز کے متفقہ لائحہ عمل ہی سے ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved