تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-09-2022

پنسال

سرسید احمد خاں مرحوم کا ایک مضمون بچپن میں پڑھا تھا۔ اُس مضمون کا ایک جملہ آج تک ذہن پر نقش ہے۔ ''پانی گھوم پھر کر خود پنسال میں آ جاتا ہے‘‘۔ کیا بات کہی ہے! زندگی کا اِتنا ہی تو فسانہ ہے۔ اگر کچھ نہ کیجیے، بے اعتنائی اور بے نیازی برتیے تو ہر معاملے کی گرد بالآخر اُسی طور بیٹھ جاتی ہے جس طور پانی پنسال میں آ جاتا ہے۔ اِسے ہم منطقی حد یا ناگزیر انجام بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اِس وقت پنسال کے اصول کی بنیاد پر جی رہا ہے۔ معاملات کو درست کرنے کے لیے متحرک ہونے کی ذہنیت شدید پستی کا شکار ہے۔ لوگ عمل سے دور بھاگتے ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے حالات و معاملات کے درست ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ یہ پسندیدہ ترین قومی روش ہے۔ ہر معاملہ جیسے تیسے اپنے منطقی انجام تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ اِس عمل میں کسے کتنا نقصان پہنچتا ہے اِس کی فکر وہ کیوں کریں جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہو؟ ؎
دریا کو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
جنہیں بھگتنا ہے بس اُنہی کو بھگتنا ہے۔ سرِدست پورے معاشرے کی کیفیت یہ ہے کہ معاملات کو خود ہی درست ہونے دیا جائے۔ کسی بھی منظم اور ترقی یافتہ معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ معاملات اُسی وقت درست ہو پاتے ہیں جب اُنہیں درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان کے حالات یوں تو دو ڈھائی عشروں سے خراب چلے آرہے ہیں۔ معیشت کا بھی بُرا حال ہے اور معاشرت کا بھی۔ معاشرے کا بنیادی ڈھانچا تباہی کے دہانے پر ہے۔ خاندانی نظام کی پیچیدگیاں اِتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب اصلاحِ احوال کے لیے انقلابی سوچ درکار ہے۔ محض باتیں بنانے اور تجزیے کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ میدانِ عمل میں نکل کر کچھ کرنے سے بات بن سکے گی۔ سیاست کا جو حال ہے وہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ جان لیوا خرابیوں کے درشن کرنے کے بعد بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے جارہے۔ سیاست کو صرف مال بنانے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ ایسے میں معاملات کے درست ہونے کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی عجیب لگتا ہے کیونکہ محض سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ باضابطہ فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ فیصلوں کے بغیر کچھ نہیں ہو پاتا۔ اور فیصلے بھی وہ جن میں کوئی کھوٹ نہ ہو، جو نتائج کے ضامن ہوں۔ اہلِ سیاست کا یہ حال ہے کہ اقتدار کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اُن کی نظر گھوم پھر کر صرف مال و دولت کی طرف جاتی ہے۔ جو جس قدر مال سمیٹ سکتا ہے سمیٹ کر اپنی راہ لیتا ہے۔
معیشت کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ اہلِ سیاست کو اگر صرف مال سے غرض ہو تو کاروباری برادری کی سوچ بھلا یہ کیوں نہ ہو؟ جن کے پاس مال ہے‘ ان میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ وہ اُسے ہر قیمت پر کئی گنا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اِس کے لیے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا فرق یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ لوگ راتوں رات بہت کچھ پانے کے چکر میں کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ تجارت کو محض نفع خوری کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ذرا سی ویلیو ایڈیشن پر 100 سے 200 فیصد تک منافع وصول کرنے کا چلن عام ہے۔ یہ روش پورے معاشرے کو کمزور کر رہی ہے۔ سرمایہ کاری، صنعت و حرفت، تجارت معاشرے کی بقا کے لیے لازم سمجھے جانے والے شعبے ہیں۔ ان شعبوں کی عمدہ کارکردگی معاشرے کو زندہ رکھتی ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ معاشی شعبوں کو معاشرے کی رگوں میں پیوست ہو جانے والے دانتوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اب معاملات کو جوں کا توں چھوڑ دینے کو اُن سے نمٹنے کا طریقہ سمجھ لیا گیا ہے۔ لوگ اس بات کے عادی ہوتے جارہے ہیں کہ حالات کی روش میں رونما ہونے والی تبدیلی کے مطابق خود کو بدلنے کے بجائے معاملات کو جوں کا توں رہنے دیں اور آگے بڑھ جائیں۔ مارچ 2020ء سے شروع ہونے والی کورونا کی وبا نے ہمارے معاشرے کو بھی الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ کم و بیش ڈیڑھ سال تک معیشت کا پہیہ ڈھنگ سے چلایا نہ جا سکا۔ دنیا بھر ہی میں معاشی سرگرمیاں رُلی ہوئی تھیں۔ خرابیاں سبھی کے لیے تھیں۔ پاکستانی معیشت بھی بُری طرح متاثر ہوئی۔ برآمدی شعبہ جامد ہوکر رہ گیا۔ معاشی سرگرمیاں تھم جانے سے کروڑوں افراد عمومی روزگار پانے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ غریب طبقہ حالات کی چکی میں بُری طرح پس کر رہ گیا۔ اُس کے لیے بچاؤ کا اور کوئی راستہ ہی نہ تھا۔ مجبوراً بیشتر غریبوں کو مانگے تانگے پر گزارا کرنا پڑا۔ فلاحی اداروں نے آگے بڑھ کر اپنا کردار دل جمعی سے ادا کیا؛ تاہم اُن سے مستفید ہونے والوں کی عزتِ نفس تو مجروح ہوکر رہی۔
کورونا کی وبا کے ابتدائی دنوں میں قومی سطح پر جس قدر بدحواسی کا مظاہرہ کیا گیا اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ لوگ کورونا کی وبا کے ہاتھوں بھی بدحواس ہوگئے اور روزی روٹی کے معاملے میں بھی شدید بدحواسی کا شکار ہوئے۔ یہ سب فطری سا دکھائی دیا۔ کیا واقعی؟ اتنی بدحواسی ہونی چاہیے تھی؟ جہاں نظم و ضبط نہ ہو، نظام باضابطہ طور پر کام نہ کر رہا ہو وہاں ایسے نظارے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک زمانے سے عمومی چلن یہ ہے کہ معاملات کو درست کرنے پر توجہ نہ دی جائے، انہیں نظر انداز کیا جائے تاکہ گرد خود بیٹھے، بٹھانی نہ پڑے۔ گرد خود بیٹھنے میں خاصا وقت لیتی ہے اور اچھا خاصا بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ جس طور پانی اپنی جگہ اور راستہ خود بناتا ہے بالکل اُسی طور ہم نے بھی طے کر رکھا ہے کہ تمام معاملات کو پانی کے درجے میں رکھیں گے۔ معاشرے جب جمود کا شکار ہو جاتے ہیں تب اُن کی بقا کو حقیقی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کے لیے بھی بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ بیشتر معاملات شدید جمود بلکہ انجماد کا شکار ہیں۔ لوگ عمل پر یقین سے محروم ہو چکے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں تھوڑی بہت تحریک ملتی بھی ہے تو اُسے پروان چڑھاتے ہوئے عمل کی طرف مائل ہونے کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔
دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ اور محض خود بدل نہیں رہی، دوسرا بہت کچھ بھی بدل رہی ہے۔ ہمارے لیے بھی بہت سے معاملات میں اپنے آپ کو بدلنا ناگزیر ہو چکا ہے مگر ہم کچھ بھی سیکھنے کو تیار نہیں۔ معاشی اور معاشرتی سطح پر کچھ نہ سیکھنے کا چلن اس قدر عام ہے کہ اب تو کسی کو اس پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں معاشی اور معاشرتی سطح پر غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ہم آگے نہیں جا سکتے۔ ترقی کرنا تو بعد کا معاملہ ہے، پہلے مرحلے میں تو بقا کا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہے۔ بقا کے مسئلے کو حل کرنے میں کامیابی ملے تو مزید کچھ سوچا جائے۔ بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ بدلتے رہنے ہی میں عافیت ہے۔ تبدیلیوں کو ٹالتے رہنے سے معاملات محض خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ زندگی بے اعتنائی اور بے نیازی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ حالات و واقعات جن تبدیلیوں کا تقاضا کرتے ہیں اُنہیں اپنانا ہی پڑتا ہے۔ اس معاملے میں تاخیر کی گنجائش ہے نہ تساہل کی۔ کورونا کی وبا نے کیا کم کسر چھوڑی تھی کہ اب سیلاب نے بچے کھچے کس بل نکال دیے ہیں۔ ایسے میں سوچنا لازم ہے۔ قومی سطح پر تبدیلی کی سوچ اپنانا ناگزیر ہے۔ عام آدمی کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ تبدیلی کہیں سے درآمد کیا ہوا آئٹم نہیں، اِسے اپنی محنت سے یقینی بنانا پڑتا ہے۔
معاملات کو جوں کا توں چھوڑنے کی روش ہمیں مکمل زوال کی طرف لے جارہی ہے۔ کوئی بھی معاملہ اپنے طور پر کبھی درست نہیں ہوتا۔ اگر کبھی حالات کی مہربانی سے ایسا ہوتا ہوا دکھائی بھی دے تو بات کچھ دیر کی ہوتی ہے۔ جیسے ہی صورتِ حال بدلتی ہے، معاملات پھر اپنی اصل جگہ پر آ جاتے ہیں۔ عمل کے بغیر زندگی اپنا رخ تبدیل نہیں کر سکتی۔ کامیاب وہی ہیں جو عمل پسند رویے کے حامل ہیں۔ پانی کو اگر نکاسی کا درست راستہ نہ ملے تو جہاں تہاں گھس جاتا ہے۔ بالکل ایسا ہی کچھ ہمارے معاملات کے ساتھ بھی ہے۔ جب ہم کسی معاملے کو درست کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے تب وہ معاملہ اپنی راہ بناتا ہوا کسی بھی طرف نکل پڑتا ہے۔ ایسے میں خرابی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ بس اِسی کیفیت سے بچنے کی کوشش زندگی کا معیار بلند کرتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved