نیشنل سکیورٹی پالیسی ایک راز ہے جس سے پردہ ابھی اٹھنا ہے۔یہ اگر بے نقاب ہے تو چند نفوس ِ قدسیہ کے لیے جن کاتعلق اقتدارکے ملائے اعلیٰ سے ہے۔وزیر داخلہ کے ارشادات سے مجھ جیسے عامی جو سن گن لے سکتے ہیں ،وہ قیاسی ہے۔حکومت شاید جانتی ہے کہ خواص کی بات عوام سے نہیں کرنی چاہیے۔ صوفی شعرا کا مشورہ تو یہی ہے۔مجھے چونکہ مروجہ تصوف سے زیادہ رغبت نہیں اس لیے چاہتا ہوں کہ اس کے خد وخال عوام کے سامنے آئیں۔اس پر عام بحث ہونی چاہیے۔اگر اسے سٹیک ہولڈرز تک محدود رہنا ہے تو میرے خیال میں سب سے بڑا سٹیک ہولڈر تو وہ ہے جو خود کش حملوں میں مارا جاتا ہے یا اس امکان کے خوف میںجیتا ہے ۔آج ہر پاکستانی اس خوف میں مبتلا ہے اس لیے یہ حق رکھتا ہے کہ اسے اعتماد میں لیا جائے۔اسے بتایا جائے کہ حکومت اسے اس خوف سے نکالنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے،کیا وہ اس سے مطمئن ہے۔عقل عام((common sense ہی بصیرت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ وزیر داخلہ کے متفرق بیانات سے میں جو کچھ جان سکا ہوں،وہ یہ ہے کہ حکومت اس کو ایک انتظامی مسئلے کے طور پر دیکھ رہی ہے اور اسی پہلو سے حل کرنا چاہتی ہے۔اس کا خیال ہے کہ اگر سکیورٹی اداروں کو بہتر ہتھیار فراہم کیے جائیں اور ہم اپنی افرادی قوت میں اضافہ کرلیں تو یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ دوسرا تأثر یہ ہے کہ مذاکرات ہی اس وقت حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔ مجھے ان دونوں باتوں کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے۔ دوسری بات پہلے۔ مذاکرات ہی کو نقطۂ آغاز ہونا چاہیے اور جمہوری حکومتوں کا اندازِ فکر یہی ہونا چاہیے۔ طاقت آخری راستہ ہوتا ہے پہلا نہیں۔ تاہم اس باب میں کچھ بنیادی سوال ہیں، جو زیرِ بحث آنا چاہئیں۔ مثال کے طور پر: ۱۔مذاکرات کس سے کیے جائیں گے؟ کیا حکومت جانتی ہے کہ پاکستان میں کتنے گروہ ہیں جو تشدد کو بطور حکمتِ عملی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ان کی نمائندہ شخصیات کون سی ہیں؟ ۲۔تشدد کے علمبردار دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو ریاست کے خلاف ہیں، جیسے طالبان، بی ایل اے۔ دوسرے وہ ہیں جن کا ہدف ان کے نظریاتی مخالف یا حریف ہیں۔ کیا حکومت دونوں سے مذاکرات کرے گی؟ ۳۔ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ مذاکرات کبھی یک طرفہ نہیں ہوتے۔ اس میں دونوں فریقوں کو اپنی علانیہ پوزیشن چھوڑنی پڑتی ہے۔ طالبان کا مؤقف ہے کہ پاکستان امریکا سے تعلقات ختم کرے۔ پاکستان میں اسلام نافذ ہو۔ اس کے بر خلاف حکومت کا مؤقف کیا ہے، یہ ابھی معلوم نہیں۔ وہ طالبان سے کیا چاہتی ہے، یہ ابھی پردۂ غیب میں ہے۔ ایک مہذب ریاست تو یہی چاہے گی کہ ریاست کے اندر ریاست کا تصور ختم ہو اور طاقت کا استعمال حکومت ہی کا حق تسلیم کیا جائے۔پھر یہ کہ حکومت کی پالیسی کیا ہو،اس کا تعین عوام کا نمائندہ ادارہ پارلیمنٹ کرے۔کیادونوں نقطہ ہائے نظر میںکوئی نقطۂ اتّصال بھی ہے؟ ۴۔اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیںتو حکومت کیا کرے گی۔وزیر داخلہ اس سوال کا جواب ابھی افشا نہیں کرنا چاہتے۔یہ قابل فہم ہے،کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات ہی کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم امکانی سطح پر تو اسے تسلیم کرنا پڑے گا۔حکومت اس صورت میں کیا کرے گی؟یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلح گروہوں کے خلاف حکومت سوات آپریشن کی طرح کا کوئی اقدام کرے گی،لیکن ان کے بارے میں اس کی پالیسی کیا ہو گی جو اس آپریشن کے خلاف سڑکوں پر نکلیں گے؟میں پیش گوئی کر سکتا ہوں کہ بہت سی مذہبی جماعتیں اور گروہ مذاکرات کی ناکامی کی تمام ذمہ داری حکومت پر ڈالیں گے اور اس کے خلاف دھرنا دے رہے ہوں گے۔ کیا حکومت اس کے لیے کوئی حکمت عملی تشکیل دے چکی؟ میرے نزدیک مذاکرات کا کوئی عمل ان سوالات کو زیر بحث لائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ممکن ہے حکومت نے ان کے بارے میں سوچ رکھا ہو۔ہو سکتا ہے کہ فوج اور سلامتی کے دوسرے اداروں کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا ہو، لیکن بطور سٹیک ہولڈر میں یہ حق رکھتا ہوں کہ مجھے ان سوالات کے جواب معلوم ہوں۔ اب آئیے پہلے تأثر کی طرف۔ اگر حکومت یہ خیال کرتی ہے کہ دہشت گردی یا عسکریت پسندی محض انتظامی مسئلہ ہے تو یہ شدید غلط فہمی ہے۔ یہ ایک مذہبی تعبیر ہونے کے ناتے ایک فکری و عملی مسئلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سماجی اثرات کے باعث ایک سماجی مسئلہ بھی ہے۔ چونکہ سیاسی لوگوں(Actors) میں بھی اس کے اثرات موجود ہیں اس لیے یہ ایک سیاسی مسئلہ بھی ہے۔سماج میں یہ نقطۂ نظر موجود ہے کہ موجودہ ریاستوں کا وجود اسلامی ہے نہ جمہوریت کا اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ریاستِ پاکستان کے جغرافی وجود کی شرعی حیثیت کو قبول نہیں کرتے۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ یہ تقسیم دوسری جنگِ عظیم کے بعد انگریزوں اور اسلام دشمنوں کی دَین ہے اور ہم پر بطور مسلمان ان سرحدوں کی پابندی لازم نہیں۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اسلام جمہوریت کو قبول نہیں کرتا۔یہ فیصلہ پارلیمنٹ نہیں کرے گی کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔اس کا فیصلہ شرعی اصولوں پر ہو گا اور یہ حق علما کا ہے۔لہٰذا ایک مذہبی گروہ جس کی قیادت علما کے پاس ہے،وہ فیصلہ کرے گا کہ کیا حق ہے اور کیا باطل۔ہمیں معلوم ہے کہ طالبان بھی ایک شرعی شورٰی کے تحت فیصلہ کرتے ہیں جو علما پر مشتمل ہے اور وہی خود کش حملے یا کسی کے قتل کا فتویٰ دیتے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے لوگ یہ نقطہ نظر رکھتے ہیں اور علانیہ اس کا پرچار بھی کرتے ہیں۔یوں یہ ایک علمی اور فکری مسئلہ ہے۔پھر یہ کہ سماج پر اس کے اثرات ہیں۔ جو لوگ یہ موقف رکھتے ہیں،وہ زبان و قلم سے اس کی تبلیغ بھی کرتے ہیں۔ظاہر ہے سماج میں ان کے متاثرین موجود ہیں اور یوں یہ فکر محض کتابی نہیں ۔سیاست میں بھی اس نقطہ نظر کے حامی پائے جاتے ہیں اور وہ متحرک ہیں۔حکومت اگر اس نقطہ نظر کو غلط سمجھتی ہے تو کسی اقدام سے پہلے تین کام ناگزیر ہیں۔ ۱۔حکومت کو عوام کے سامنے وہ دینی تعبیر پیش کرنی چاہیے جو اس نقطہ نظر کے متبادل ہو۔کیا حکومت یہ علمی صلاحیت رکھتی ہے؟ اس سے اہم تر سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس تعبیر کو غلط مانتی ہے؟ ۲۔حکومت کو سماج میں اس نقطہ نظر کے فروغ کا تدارک کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے یہ طاقت سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے دعوت و تبلیغ کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ کیا حکومت کے پاس اس کے علمی و عملی وسائل موجود ہیں۔ ۳۔جو لوگ سیاست میں متحرک ہیں، ان کے ساتھ بھی حکومت کو معاملہ کرنا پڑے گا۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ کسی قانون اور آئین کی نفی نہیں کررہے۔ وہ اگر اس کے لیے متحرک ہوتے ہیں تو ان سے نمٹنے کے لیے حکومت کو عدالتی نظام کی تائید چاہیے۔کیا اس کے آثار موجود ہیں کہ عدالتیں اور حکومت اس معاملے میں ہم فکر ہیں؟ کیا حکومت نے اس کا اہتمام کیا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ آئین و قانون کے تحت معاملہ کیا جائے۔ پھر یہ کہ اگر وہ احتجاج یا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلیں گے تو پھر حکومت کیا کرے گی۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی، اگر ان سب معاملات پر محیط نہیں ہے تو میں اس کی نتیجہ خیزی کے بارے میں، زیادہ پر امید نہیں۔ عسکریت پسندی کے خلاف ادھوری تیاری کے ساتھ کوئی اقدام کبھی نتیجہ خیز نہیں ہو تا بلکہ ریاست کو مزید کمزور کرتا ہے۔ اگر حکومت اس کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے تو پھر اسے تمام پہلوئوں پر غور کرتے ہوئے ہمہ جہتی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی اور پھر پوری یک سوئی کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ اﷲ کرے مذاکرات کامیاب ہوں۔ پاکستان کی سرزمین پر اتنا لہو بہہ چکا کہ یہ زمین شاید مزید انسانی خون جذب نہ کر سکے۔ تاہم اﷲ کا ایک قانونِ قصاص بھی ہے۔ معصوم شہریوں کی وارث ریاست ہوتی ہے ۔اگر وہ ان کے خون سے دست بردار ہو جائے تو پھر مظلوموں کا معاملہ اﷲ کی عدالت میں پہنچ جاتا ہے۔ ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب ہمارے بارے میں آسمان سے کوئی فیصلہ اُترے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved