تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-09-2022

معیشت و معاشرت کا بکھیڑا

اکیسویں صدی کا تیسرا عشرہ چل رہا ہے۔ اب سب سے بڑی کرنسی ہے تبدیلی۔ سبھی کچھ بدل چکا ہے اور مزید بدل رہا ہے۔ جہاں صرف تبدیلی کا سکہ چل رہا ہو وہاں کوئی اور کرنسی کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ جس نے یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لی بس اُسی کو کامیاب سمجھیے۔ وسیع تر تناظر میں دیکھیے تو تبدیلی کچھ آج کے عہد کا معاملہ نہیں۔ ہر عہد تبدیلیوں سے عبارت رہا ہے۔ زندگی کا سفر اِسی طور جاری رہا ہے۔ تبدیلی کا عمل جاری رہنے ہی سے دنیا کی رونق میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ ہر عہد میں معیشت اور معاشرت نے ایک دوسرے کو تبدیل کیا ہے۔ جب معیشت میں کچھ نیا ہوتا ہے تو معاشرت بدلتی ہے اور جب معاشرت کچھ نیا اپناتی ہے تو معیشت پر اُس کے واضح اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دونوں کا سفر ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ ہم کسی بھی مرحلے پر معیشت کو معاشرت سے اور معاشرت کو معیشت سے الگ نہیں کرسکتے۔ زندگی اِن دونوں کے حسین تفاعل کا نام ہے۔ آج ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جس میں محض تبدیلیاں رونما نہیں ہو رہیں بلکہ تبدیل ہونے کے لیے دباؤ بھی بڑھتا ہی جارہا ہے۔ آج کوئی بھی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اب اُسے تبدیل ہونے کی ضرورت نہیں۔ ماحول میں اتنا کچھ بدل رہا ہے کہ ہر انسان کے لیے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کی خاطر خود کو بدلنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ اب تبدیل ہونا محض آپشن نہیں‘ ناگزیر ضرورت ہے۔ جن معاشروں نے اب تک تبدیلی کو سب سے بڑی حقیقت کے طور پر قبول نہیں کیا ہے اُن کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے معاشروں کا حشر ہمیں بہت کچھ سکھانے کے لیے کافی ہے۔ ان معاشروں نے اپنے آپ کو خاطر خواہ حد تک تبدیل نہیں کیا۔ اِس کے نتیجے میں زندگی الجھ گئی۔ معیشت اور معاشرت میں جو تبدیلیاں ناگزیر تھیں اُن سے اب تک گریز کیا گیا ہے۔
چار پانچ صدیوں کے دوران دنیا بہت بدلی ہے۔ مغرب نے ان صدیوں کے دوران دنیا کی رہنمائی کی ہے۔ اب بھی دنیا کی رہنمائی بہت حد تک مغرب ہی کے ہاتھ میں ہے۔ چین تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے اور روس بھی خود کو منوانے کی دُھن میں مگن ہے۔ پھر بھی مغرب کا وزن اب تک اتنا کم نہیں ہوا کہ اُسے نظر انداز کردیا جائے۔ امریکہ اور یورپ مل کر اب بھی دنیا کے فیصلے کر رہے ہیں اور معاملات کو اپنے حق میں کرتے رہنے کی روش پر گامزن ہیں۔ ہم نے اب تک یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ تبدیل ہوئے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔ عصری تقاضوں کو نبھائے بغیر ہم دو قدم بھی ڈھنگ سے نہیں چل سکتے۔ زمانے کی گردش نے ہمیں اُس مقام پر پہنچادیا ہے جہاں ہمارے پاس صرف ایک آپشن بچا ہے‘ وہ یہ کہ خود کو یوں بدلیں کہ ایک دنیا دیکھے اور معترف ہو کہ ہاں! ہم نے کوئی فیصلہ کیا ہے اور اُس پر عمل بھی۔ معیشت کے اپنے تقاضے ہیں اور معاشرت کی اپنی ضروریات۔ ہم ان دونوں کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے ہی اپنے لیے کوئی بھی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ جن معاشروں نے طے کرلیا ہے کہ جمود کو ترک کرتے ہوئے صرف متحرک رہنا ہے اور کچھ کر دکھانا ہے وہ قدم قدم پر صرف تحرک کی بات کرتے ہیں، عمل کو زندگی کی بنیادی قدر کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں اور تبدیلی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ تبدیلی یومیہ بنیاد پر ہوتی ہے اور عمر بھر کی بنیاد پر بھی۔ سورج کا روز طلوع ہونا اور روز غروب ہونا بھی تبدیلی ہے۔ موسموں کی تبدیلی بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ ہم خود بھی ہر وقت، ہر آن تبدیل ہو رہے ہیں۔ کل اگر آپ پچاس سال‘ سو دن کے تھے تو آج پچاس سال‘ ایک سو ایک دن کے ہو گئے ہیں۔ کل آپ پچاس سال‘ ایک سو دو دن کے ہو جائیں گے۔ ہر گزرتا ہوا دن آپ کو قدرت کی طرف سے عطا کی جانے والی وقت کی میعاد گھٹا رہا ہے۔ یہ عمل جاری رہتا ہے اور انسان بڑھاپے کی منزل سے گزرتا ہوا آخرِکار موت کی دہلیز تک پہنچ جاتا ہے۔
ہم عمومی سطح پر تبدیلی کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تبدیل ہونے کی صورت میں بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تبدیل ہوں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ تبدیل ہونے پر ہاتھ سے کچھ بھی نہ جائے۔ ایسا ممکن نہیں! ہر معاملہ ''کچھ لو‘ کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر انجام کو پہنچتا ہے۔ زندگی لین دین کا نام ہے۔ کوئی ایک معاملہ بھی اس اصول سے مستثنیٰ یا بے نیاز نہیں۔ کہیں بہت کچھ دینے پر بہت کم ملتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہاتھ سے کچھ خاص جاتا نہیں اور بہت کچھ مل جاتا ہے۔ بات معیشت سے شروع کیجیے تو حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں بہت کچھ معاشی رویوں کی بنیاد پر تبدیل ہوتا ہے۔ ہر انسان زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ خواہش اُسے صرف اپنے مفاد کو ترجیح دینے کی منزل تک لے جاتی ہے۔ آپ اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے جو بہت کچھ حاصل کرنے کے متمنی رہتے ہیں مگر اُس کی پوری قیمت ادا کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ کوئی بھی حقیقت پسند انسان ایسا نہیں ہوسکتا۔ جب انسان حقیقت سے نظر ملانے کے بجائے خوش فہمیوں کی دنیا میں رہنے کا عادی ہوچکا ہو تب ایسا ہی ہوتا ہے یعنی انسان حاصل تو بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر کماحقہٗ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہوتے ہیں اُنہیں حل کرنے کی کوشش انسان کو زیادہ الجھاتی ہے۔
معاشی رویے بدلنے سے انسان میں بہت کچھ بدل جاتا ہے، بالخصوص اُس وقت جب وہ اپنی معاشرت کو بھی معاشی سوچ کے تابع کرنے پر تُلا ہو۔ آج کا ہمارا معاشرہ معیشت کے محاذ پر غیر معمولی تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ عام افراد کو معاشی اعتبار سے جس مضبوط سوچ کا حامل ہونا چاہیے وہ اُن میں دکھائی نہیں دیتی۔ دنیا بھر میں معاشی رویے اِتنی تیزی سے اور اس حد تک بدلے ہیں کہ ہم حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لیں تو بہت پیچھے رہ جانے کا احساس پوری شدت کے ساتھ سامنے کھڑا ملتا ہے۔ ایسے میں ہمارے پاس اگر کوئی آپشن رہتا ہے تو بس یہ کہ جیسے بھی ممکن ہو، اپنے آپ کو بدلا جائے، نئے معاشی رجحانات کے مطابق عملی سطح پر کچھ کرنے کی کوشش کی جائے۔ افسوس کہ یہی نہیں ہو رہا! جب ہم معاشی رجحانات کو نظر انداز کرتے ہیں تب معاشرت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ آج کے دور میں معیشت و معاشرت آپس میں یوں گڈمڈ ہیں کہ اُنہیں الگ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ معاشرتی معاملات کو الگ تھلگ کرکے دیکھنا بھی ناممکن نہیں۔ آج کی زندگی ہم سے بار بار اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، اپنی معاشرتی اقدار کا معیار برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم معاشی رویوں کے معاملے میں توازن اور تعقل کا مظاہرہ کریں۔
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کام کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ صرف کام کرتے رہنے کو زندگی سمجھ لیتے ہیں۔ میری نظر میں یہ انتہا پسندی ہے۔ معاشرت کو مکمل نظر انداز کرکے صرف معاشی سرگرمیوں میں گرم رہنا ہمارے لیے صرف پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی سرگرمیاں بھی ناگزیر ہیں۔ ان دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ زندگی کسی ایک معاملے کی طرف جھک جانے کا نام نہیں۔ صرف کمانے سے کچھ نہیں ہوتا اور کمانے سے گریز کی حالت بھی محض خرابیاں لاتی ہے۔ ہمیں دونوں کے درمیان قابلِ رشک توازن قائم رکھنا ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اِس حوالے سے سوچا جائے۔زندگی کا معیار بلند کرنے کی خواہش کس کے دل میں نہیں ہوتی؟ مسئلہ یہ ہے کہ محض خواہش کرلینے کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ خواہش تو محض پہلا مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد ارادے اور عزم کی منزل آتی ہے۔ اِس منزل سے آگے بڑھیے تو عمل کا موڑ آتا ہے۔ عمل کے موڑ سے کتراکے گزر جائیے تو سب کچھ برباد ہو جاتا ہے۔ ہمارے لیے اصل اور بھرپور خرابیاں اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ہم معاشی اور معاشرتی پہلوؤں کو گڈمڈ کردیتے ہیں۔ عصری تقاضوں کے مطابق دونوں کو اُن کی حدود میں نبھانا ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved