تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     24-09-2022

تعلیمی اداروں میں مداخلت

یوں تو یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی تاریخ کافی قدیم ہے لیکن اٹھارہویں ترمیم میں چونکہ اعلیٰ تعلیم کو صوبائی حکومتوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا‘ لہٰذا اس کے بعد تعلیمی اداروں کے پالیسی امور، انتظامی اتھارٹی اورپروفیسرزکوسیاسی تقاضوں کے مطابق بروئے کار لانے کی بدعت بھی ایجاد کر لی گئی۔ 2012ء میں کے پی میں پہلی بار عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اپنی اساتذہ تنظیم ''ملگری استاذان‘‘کی مشاورت سے یونیورسٹی ماڈل ایکٹ بنا کر صوبہ بھر کی جامعات کے آزمودہ مالیاتی و انتظامی نظم و ضبط کو تحلیل کرکے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی عنان سیکرٹریٹ کلچر کے حوالے کردی‘ جسے وہاں کے سیکشن آفیسرز اب پرائمری سطح کے تعلیمی معیارات کے مطابق ڈھالنے کے لیے سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ یونیورسٹی ماڈل ایکٹ کے تحت تمام یونیورسٹیوں سے فنانس ڈیپارٹمنٹ کا پری آڈٹ سسٹم ختم اور وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے سرچ کمیٹیوں پر مبنی ایسا پیچیدہ طریقہ کار اختیار کیا گیا، جس سے ہوشربا مالیاتی سکینڈلز کے علاوہ نظم و ضبط کے بحرانوں نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا۔ فی الوقت صوبہ بھر کی تمام یونیورسٹیاں مالیاتی و انتظامی بحران کے علاوہ بدترین اخلاقی زوال کی بھی گرفت میں ہیں، جس کی لفظوں میں وضاحت ممکن نہیں۔
جب تک خیبرپختونخوا کی دونوں بڑی جامعات، پشاور اور گومل یونیورسٹیوں کو پرانے ایکٹ کے تحت انتظامی اور مالیاتی خود مختاری حاصل تھی، اس وقت تک طلبہ کا علمی و اخلاقی معیار بہتر اور تعلیمی نظام میں سیاسی مداخلت کے دروازے بند تھے لیکن اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سیاسی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانے میں حجاب محسوس نہیں کرتیں۔ ان دنوں خیبر پختونخوا کی دوسری بڑی‘ گومل یونیورسٹی ایک بار پھر حکمران اشرافیہ کی سیاسی مداخلت کے باعث اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ تفصیل اس قضیے کی یوں ہے کہ اکتوبر 2016ء میں سابق وزیراعظم نوازشریف سی پیک کے مغربی روٹ کا افتتاح کرنے ڈیرہ اسماعیل خان آئے تو مولانا فضل الرحمن کے مطالبے پر انہوں نے یہاں مفتی محمود زرعی یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیا۔ قواعد کے مطابق مجوزہ زرعی یونیورسٹی کے لیے بیس فیصد وسائل وفاقی حکومت اور80 فیصد صوبائی حکومت کو دینا تھے لیکن اُس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے زرعی یونیورسٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری ہونے اور وی سی کی تعیناتی کے باوجود مجوزہ زرعی یونیورسٹی کے لیے اراضی اور فنڈز فراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا۔ ابتدا میں متذکرہ زرعی یونیورسٹی کے لیے شہر کے قریب زرعی تحقیقاتی مرکز کی بارہ سو کنال اراضی مختص کرنے کی تجویز دی گئی، جہاں وسیع رہائشی کالونیاں اور دفتری عمارات خالی پڑی تھیں، صرف کلاسز کے اجرا سے ایگریکلچریونیورسٹی فعال ہو سکتی تھی۔
واضح رہے کہ 1990کی دہائی میں لامحدود کرپشن کی وجہ سے یہاں کا ایگریکلچر انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ ختم اور زرعی تحقیقاتی مرکزغیر فعال ہو گئے تھے جن کی وسیع اراضی کے علاوہ عالی شان عمارات اب ویران پڑی تھیں اور جنہیں زرعی یونیورسٹی کے حوالے کرکے کارآمد بنایا جا سکتا تھا لیکن صوبائی حکومت بوجوہ یہاں زرعی یونیورسٹی بنانے کی تجویز کو ردّکرکے گومل یونیورسٹی کی تین بڑی فیکلٹیز سمیت ایک ہزار کنال اراضی، اساتذہ اور طلبہ کی تقسیم پہ مصر رہی۔ جولائی 2018ء کے انتخابات کے بعد وفاق اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بنیں تو ماسوائے نام کی تبدیلی کے مجوزہ زرعی یونیورسٹی کے قیام میں کوئی خاص دلچسپی نہ لی گئی۔ تین سال بعد اپریل2021ء میں صوبائی کابینہ نے گومل یونیورسٹی کے آدھے سے زیادہ اثاثہ جات زرعی یونیورسٹی کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو گومل یونیورسٹی کے وی سی ڈاکٹر افتخار نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کربتایا کہ صوبائی کابینہ کا فیصلہ یونیورسٹی ماڈل ایکٹ سے متصادم ہے؛ چنانچہ جامعہ گومل کے اثاثہ جات کی تقسیم کا فیصلہ واپس لیا جائے یا پھر یونیورسٹی ماڈل ایکٹ میں ترمیم کرکے کابینہ کے فیصلے پہ عملدرآمد کی قانونی راہ نکالی جائے، بصورتِ دیگر ان محدود وسائل سے زرعی یونیورسٹی تو بن نہیں پائے گی البتہ پہلے سے زبوں حالی کا شکارگومل یونیورسٹی بھی زوال کا شکار ہو جائے گی۔ لیکن اس معقول موقف کو پذیرائی دینے کے بجائے وزیراعظم کو لکھے گئے اِس خط کو جواز بنا کراس وقت کے گورنر شاہ فرمان نے وی سی ڈاکٹرافتخار کوچھ ماہ کی جبری رخصت پر بھیج دیا اور مجوزہ زرعی یونیورسٹی کے وی سی پروفیسر مسرور کو جامعہ گومل کا اضافی چارج دے دیا۔ ڈاکٹر افتخار نے جبری رخصت اورگومل یونیورسٹی کے اثاثہ جات کی تقسیم کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جس پر چھ ماہ کی طویل سماعتوں کے بعد عدالت نے ایکٹ سے متصادم ہونے کے باعث یونیورسٹی کے اثاثہ جات کی تقسیم کے حکومتی فیصلے کو کالعدم قرار دے کر وی سی کو بحال کر دیا۔ عدالتی فیصلے کی روشنی میں یونیورسٹی سینڈیکیٹ نے بھی اثاثہ جات کی تقسیم کی تجویز مسترد کر دی مگر گورنر صاحب نے سینڈیکیٹ کا فیصلہ معطل کر دیا‘ جس کے خلاف عدالت نے حکم امتناہی جاری کرکے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔
اب عام انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے مقامی سیاسی قیادت زرعی یونیورسٹی میں دو‘ ڈھائی سو افراد کی بھرتیوں کے سیاسی تقاضوں کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر قانونی راہ اختیار کرنے کے بجائے دھونس اور دھمکی سے وائس چانسلر کو ہٹانے پر اتر آئی ہے جس کے مضمرات نے پورے صوبے کے انتظامی ڈھانچے کو لپیٹ میں لے لیا۔ ایک سابق وزیر سے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر پہلے آئی ایس ایف سے وابستہ طلبہ کے کچھ گروپس کو وی سی کے خلاف دھرنوں اور مظاہروں پر اکسایا۔ مضبوط سیاسی پشت پناہی کے حامل طلبہ نے چند دنوں ہی میں یونیورسٹی کے تعلیمی نظام اور انتظامی ڈھانچے کو مفلوج کر دیا۔طلبہ کے مظاہروں سے بھی کام نہ چلا تو سابق وزیر موصوف نے وٹس ایپ پر دھمکی آمیز پیغامات کے علاوہ سوشل میڈیا پر وی سی کو فی الفور منصب چھوڑنے‘ بصورتِ دیگر سنگین نتائج کا سامنا کرنے کے وڈیو بیانات جاری کیے‘ جن کی گونج مرکزی دھارے کے میڈیا میں بھی سنائی دیتی رہی۔ وی سی نے مقامی پولیس کو مظاہرین سے یونیورسٹی خالی کرا کے اساتذہ اور طلبہ کو تحفظ دینے کی درخواست کی تو ڈی پی او نے گومل یونیورسٹی میں پولیس کی بھاری نفری اس انداز سے تعینات کی جس نے یونیورسٹی کے اپنے سکیورٹی اہلکاروں کو مفلوج کر دیا۔ ان حالات میں خط لکھ کر گورنر سے رہنمائی مانگی گئی تو قائم مقام گورنر مشتاق غنی نے بھی کوئی قانونی راہ عمل بتانے کے بجائے یونیورسٹی کے اثاثہ جات تقسیم کرنے کا مشورہ دے کر صورتِ حال کو مزید الجھا دیا۔ وائس چانسلر نے جوابی خط میں گورنر کو یادہانی کرائی کہ یونیورسٹی ماڈل ایکٹ اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق ان کے پاس گومل یونیورسٹی کے اثاثہ جات کو تقسیم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ دریں اثنا سنگین سکیورٹی خطرات کے پیش نظر وائس چانسلر نے ڈی پی او کو خط لکھ کر کارروائی کا کہا تو اس خط کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ مقامی پولیس سے مایوس ہو کر وی سی نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو درخواست دی جس پر قائم مقام گورنر نے وائس چانسلر کو ایک بار پھر تین ماہ کی جبری رخصت پر بھیج کرگومل یونیورسٹی کا چارج عارضی طور پر زرعی یونیورسٹی کے وی سی کے سپردکر دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ تعلیم سیاسی قیادت کی پہلی ترجیح کبھی نہیں رہی، اس لیے ہمارے تعلیمی ادارے بہترین رجالِ کار، اعلیٰ پائے کے محقق اور سائنسدان پیداکرنے کے بجائے ملازمتوں کے متلاشی ڈگری ہولڈرز پیدا کرنے لگے ہوئے ہیں۔ تعلیم محض ڈگری حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم سوچنے کے نئے طریقے سیکھنے اور کرۂ ارض کے انسانوں کے مسائل کے حل کی مہارت سیکھنے کا آرٹ ہے۔ دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو بہترین علمی ماحول فراہم کرکے اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر سوچنے کے مواقع دینے کے علاوہ انہیں ایک فرد کے طور پر تنقیدی سوچ میں مشغول رہنا سکھایا جاتا ہے ؛چنانچہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ تنقیدی سوچ، تجزیات، تحریری اور زبانی مواصلات اور انسانی سماج کے مسائل جانچنے کی نئی مہارتوں کے ساتھ پوسٹ گریجویٹ بن کے باہر نکلتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved