بہت کچھ ہے جس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ بعض معاملات ایسے ہیں جو دیگر تمام معاملات پر اِس طور حاوی ہوتے ہیں کہ اُن کے بغیر دال گلنے کا نام نہیں لیتی۔ نظم و ضبط یعنی ڈسپلن کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ نظم و ضبط نہ ہو تو زندگی بہت کچھ ہوکر بھی کچھ خاص نہیں رہتی۔ آپ زندگی بھر ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے جو بہت کچھ حاصل کرکے بھی تہی دست رہتے ہیں۔ جب ڈسپلن کو زندگی کا شعار نہ بنایا جائے تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ انسان بہت کچھ پانا چاہتا ہے مگر یہ نہیں سوچتا کہ جو کچھ بھی حاصل کیا جاتا ہے اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے کا ہنر بھی آنا چاہیے۔ ہمیں زندگی کے سفر میں بہت کچھ ملتا ہے۔ کبھی ہماری محنت رنگ لاتی ہے اور کبھی کبھی محض حالات کی مہربانی سے ہمیں بہت کچھ مل جاتا ہے جبکہ ہم نے اُس کے لیے کچھ بھی محنت نہیں کی ہوتی۔ حکومت کے بہت سے فیصلے کسی کے لیے غیر معمولی فائدے اور کسی کے لیے سراسر نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ یہ میلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔
نظم و ضبط نہ ہو تو کوئی بھی معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی رُل جاتا ہے۔ نظم و ضبط ہی کی بدولت زندگی کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ مزید نکھرتا ہے۔ ہر شعبہ، ہر معاملہ ہم سے نظم و ضبط کا متقاضی رہتا ہے۔ نظم و ضبط کا تصور بعض اداروں سے وابستہ کرنا غلط ہے۔ یہ تو ہر آدمی کا معاملہ ہے۔ کوئی ایک فرد بھی نظم و ضبط کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اگر کوئی جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے تو سمجھ لیجیے وہ آپ اپنا دشمن ہے۔ معاشی سرگرمیوں اور پروفیشنل معاملات میں نظم و ضبط کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ کاروباری دنیا نظم و ضبط کے ساتھ ہی کچھ کر پاتی ہے؟ کوئی بھی صنعتی ادارہ ایک خاص نظم کے ساتھ ہی چل سکتا ہے۔ کوئی بھی تجارتی ادارہ جب تک ایک خاص نظم نہ اپنائے تب تک اُس کے استحکام و ترقی کی راہ ہموار نہیں ہوتی۔ کاروباری ادارے جب تک نظم و ضبط کو نہیں اپناتے تب تک اُن کی کارکردگی کا گراف بلند نہیں ہوتا۔
نظم و ضبط یعنی نظم بھی اور ضبط بھی۔ ایک طرف تو معاملات میں ایک خاص نظم ہونا چاہیے، ترتیب دکھائی دینی چاہیے اور دوسری طرف یہ بھی لازم ہے کہ بعض معاملات میں سختی کے ساتھ ضابطوں پر یعنی قوانین پر عمل درآمد کیا جائے۔ ترتیب و تدوین کو ملحوظ رکھا جائے۔ضبط سے مراد اپنے آپ پر قابو پانا بھی ہے۔ دوسروں کوادارے کے طے کردہ بنیادی اصولوں کی پاس داری کی راہ دکھانا بھی ضبط ہے۔ اگر محض نظم ہو اور ضبط سے کام نہ لیا جائے تب بات ادھوری رہتی ہے۔ اِسی طور محض ضبط سے کام لینے کی صورت میں یعنی نظم کو نظر انداز کرنے سے بھی الجھنیں بڑھتی ہیں۔ کسی بھی ادارے میں ڈسپلن اُسی وقت کارگر ثابت ہوتا ہے جب اِس کی خلاف ورزی پر بلاتفریق سزا بھی دی جائے اور تعمیل کی صورت میں لوگوں کو سراہا جائے۔ اگر ادارہ نظم و ضبط کے معاملے میں نیوٹرل یعنی غیر جانبدار رہے اور کوئی واضح رِسپانس نہ دے تو لوگوں کو ڈھنگ سے کام کرنے اور ہر معاملے میں نظم و ضبط کا خیال رکھنے کی تحریک نہیں ملتی۔
انفرادی سطح پر دیکھیے تو نظم و ضبط کے بغیر زندگی کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ اگر سمت نہیں ہوتی تو کوئی منزل بھی نہیں ہو سکتی۔ یہ خالص حیوانی سطح کی زندگی ہے۔ جو کبھی بھی‘ کسی بھی طرف چل پڑے۔ آپ اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے جو دن رات بہت سی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں مگر ذہن سے کام نہیں لیتے۔ وہ کبھی نہیں سوچتے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ نظم و ضبط کے ساتھ کیا جائے۔ جب معاملات کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے تب وہ کسی بھی سمت چل نکلتے ہیں۔ یہ بے راہ رَوی زندگی کا رخ بدل دیتی ہے، ہر معاملہ بگاڑ کی طرف لے جاتی ہے اور متعلقین کا اپنے وجود اور معاملات پر کچھ خاص اختیار باقی نہیں رہتا۔ ہمیں دنیا بھر میں جتنی بھی رنگینی دکھائی دے رہی ہے وہ منظم سوچ کا نتیجہ ہے۔ جب سوچ منظم ہوتی ہے، نظم و ضبط سے عبارت ہوتی ہے تب عمل آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔ منظم سوچ ہی جامع عمل کی راہ ہموار کرتی ہے۔ نظم و ضبط کو اپنانے کی صورت میں انسان ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل ہو پاتا ہے، منصوبہ سازی کر پاتا ہے، اپنا بھلے برے کا فرق اچھی طرح سمجھ پاتا ہے، معاملات کو ڈھنگ سے نبھا پاتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں نظم و ضبط ہی سے حیران کن نتائج سامنے آتے ہیں۔
ہر دور کے انسان کے لیے نظم و ضبط بنیادی معاملہ اور اہم مسئلہ رہا ہے۔ مسئلہ اس لیے کہ اس راہ پر چلنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں۔ نظم و ضبط کی راہ پر گامزن ہونے والوں کو بہت کچھ دیکھنا اور جھیلنا پڑتا ہے۔ بعض معاملات میں ترکِ مشاغل کی منزل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ نظم و ضبط کا مطلب ہے زندگی کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنا۔ جب انسان اپنے آپ کو کسی خاص سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے تب کچھ نہ کچھ چھوڑنا پڑتا ہے اور دوسرا کچھ نہ کچھ اپنانا پڑتا ہے۔ یہ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ عملی زندگی میں صرف اور صرف اس بات کی اہمیت ہے کہ انسان کس حد تک نظم و ضبط کا عادی ہو۔ نظم و ضبط کی مدد ہی سے کوئی بھی انسان اپنے لیے کسی بڑے ہدف کا حصول ممکن بناسکتا ہے۔ جب انسان کچھ بننے کی ٹھان لیتا ہے تب چند معاملات میں ایک خاصا ڈھانچا بھی قبول کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ عمومی انداز کی زندگی بسر کرتے ہوئے بہت کچھ حاصل کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ اگر کسی نے اپنے لیے کوئی بڑی منزل متعین کی ہے تو لازم ہے کہ اُس کا حصول یقینی بنانے کے لیے اندازِ زندگی بھی تبدیل کیا جائے۔ ایسا کیے بغیر کوئی بڑا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً اگر کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو اُسے بہت پڑھنا پڑے گا۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے آپ کو بے ڈھنگے معمولات سے الگ کرے، اپنی زندگی کا ڈھانچا تبدیل کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نظم و ضبط کو اپنائے۔ نظم و ضبط کو اپنانے کا مطلب ہے وقت کو معیاری انداز سے تقسیم کرکے زیادہ سے زیادہ اور اِس طوربروئے کار لانا کہ مطلوب مقاصد حاصل ہوں۔ ایک اچھے ڈاکٹر کو بہت پڑھنا پڑتا ہے، نئی تحقیق سے ہم آہنگ رہنا پڑتا ہے۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے آپ کو لاحاصل سرگرمیوں سے دور رکھے۔
کسی بھی کامیاب انسان کی زندگی کا جائزہ لیجیے تو نظم و ضبط کو نمایاں ترین وصف کے طور پر پائیے گا۔ جب تک نظم و ضبط نہ ہو تب تک انسان اپنے شعبے کا حق ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آتا۔ آج ہر شعبے میں مسابقت اِتنی بڑھ گئی ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے کچھ بننے کی خاطر نظم و ضبط کو بنیادی وصف کے طور پر اپنانا ناگزیر ہوچکا ہے۔
آج کی زندگی غیر معمولی محنت کی طالب ہے۔ مسابقت سے نمٹنے کے لیے لازم ہے کہ انسان زیادہ محنت کرے۔ محنت کے ذریعے انسان اپنے لیے بہت کچھ ممکن بنا پاتا ہے مگر محنت بھی نظم و ضبط کے بغیر کی جائے تو زیادہ فائدہ نہیں دیتی۔ نظم و ضبط کا مطلب ہے وقت، محنت اور وسائل کا ضیاع کم سے کم رکھنے کی سعی۔ ہر کامیاب انسان زندگی بھر نظم و ضبط کا عادی رہتا ہے کیونکہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ نئی نسل کو جن معاملات پر زیادہ متوجہ رہنا چاہیے اُن میں نظم و ضبط نمایاں ہے۔ نظم و ضبط اگر عملی زندگی کی ابتدا میں اپنالیا جائے تو زندگی بھر بہتر نتائج کا حصول یقینی بنانا ممکن ہوتا ہے۔ آج کی نئی نسل کو ہر شعبے میں غیر معمولی مسابقت کے باعث شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔ اس دباؤ کا پامردی سے اُسی وقت سامنا کیا جاسکتا ہے جب یہ طے کرلیا جائے کہ زندگی ایک خاص ڈھب سے بسر کرنی ہے۔ یہ نظم و ضبط ہی سے ممکن ہو پاتا ہے۔ نظم و ضبط کے ذریعے نئی نسل اپنی کارکردگی ہی بہتر نہیں بناسکتی بلکہ نتائج کا گراف بھی بلند کیا جاسکتا ہے۔ کامیاب ترین انسانوں کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لے کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زندگی اور کارکردگی کا معیار بلند کرنے میں نظم و ضبط کس حد تک کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved