تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     25-09-2022

بارودی سرنگوں کے کمالات

آج کل جہاں جائیں ‘ یہی سوال پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ میں الٹا ان لوگوں سے پوچھ لیتا ہوں کہ آپ بتائیں کیا بنے گا؟اکثریت کا یہی خیال ہے کہ اب بہت دیر ہوچکی۔ اکثر مایوس ہیں۔
ایک صاحب پوچھنے لگے: شیخ رشید صاحب نے کہا تھا کہ عمران خان جاتے جاتے باردوی سرنگیں بچھا گئے تھے۔ وہ کیا تھیں؟
ایک اور صاحب بولے کہ یہ جو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اگر عمران خان کو نہ ہٹایا جاتا تو پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا‘ یہ ڈیفالٹ کیا ہوتا ہے اور اس کا عام آدمی سے کیا لینا دینا؟میں نے بڑی محبت سے اس بندے کو دیکھا اور سوچا کہ کتنا خوش نصیب آدمی ہے۔ اسے جتنا کم پتہ ہے اتنی ہی اچھی اور بہترین زندگی گزار رہا ہے۔ لاعلمی بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ جن کو پتہ ہے کہ ڈیفالٹ کتنی خوفناک چیز ہے وہ دن رات ڈرتے رہتے ہیں اور اپنی زندگی کو عذاب بنائے رکھتے ہیں حالانکہ نہ وہ ڈیفالٹ کے ذمہ دار ہیں نہ وہ ڈیفالٹ روکنے میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ڈیفالٹ کی صورت میں نتائج وہی بھگتیں گے۔ یہی سوال میں نے اپنے ٹی وی شو میں سابق وزیرخزانہ سلیم مانڈوی والا سے کیا کہ انہیں کیا پڑی تھی کہ وہ عمران خان کو ہٹاتے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ معیشت کا بیڑا غرق ہورہا تھا۔ ہونے دیتے۔ لوگ ان سے خود نبٹ لیتے؟سلیم مانڈوی والا بولے: آپ کو پتہ ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ پوری ریاست بیٹھ جاتی۔ ڈیفالٹ ہوتا تو آپ کا تو سری لنکا سے بھی برا حال ہونا تھا۔میں نے کہا: سر جی آپ کو پتہ ہے ننانوے فیصد پاکستانیوں کو تو علم ہی نہیں کہ ڈیفالٹ کس بلا کا نام ہے؟ آپ ایک دفعہ عمران خان کا رومانس پورا ہونے دیتے۔ وہ بولے: پھر ملک کا وہ حال ہونا تھا کہ آپ ریکور نہ کرسکتے۔
پی ڈی ایم جماعتوں کا یہ بیانیہ ہے کہ وہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچا گئیں‘ لیکن اپنی سیاست کو ڈبو دیا۔ پھر تو عمران خان اچھے رہے کہ اپنی سیاست بھی بچا لی ‘ الٹا نئی حکومت کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ جو چارج شیٹ آج پی ڈی ایم حکومت عمران خان کے خلاف جاری کرتی ہے عمران خان اسے اپنا کریڈٹ اور حکومت کے خلاف فرد جرم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔یہ بھی بتایاجاتا ہے اگر عمران خان کے ہاتھوں ڈیفالٹ کا انتظار کیا جاتا تو پاکستان کو بیل آئوٹ پیکیج آپ کو جوہری اثاثوں پر کمپرومائز کر کے ہی مل سکتا تھا جو پاکستان افورڈ نہیں کرسکتا تھا لہٰذا یہ قدم اٹھایا گیا ۔
ڈیفالٹ کی شکل میں آپ بیرون ملک سے کچھ نہیں منگوا سکتے تھے۔نہ تیل، نہ کھانے پینے کی اشیا، نہ ادویات کا مٹیریل۔ سرمایہ کار بھاگ جاتے کہ ملک دیوالیہ ہوگیا۔ سڑکوں پر ہنگامے ہوتے۔تاہم عامر متین نے مانڈوی والا صاحب سے پوچھا کہ جو اکنامک سروے آیا تھا اس میں تو عمران خان حکومت کی کارکردگی بہت بہتر تھی اور ڈیفالٹ والا خطرہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔میرا بھی یہی خیال تھا کہ خان صاحب کو ایک دفعہ پورا آزما لیا جاتا۔ اب کہنا کہ یہ ہوجاتا وہ ہوجاتا۔ ایک دفعہ ہونے دیتے۔ پہلے کون سا ہم ترقی کے حساب سے پہلے پانچ ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ عمران خان کو ڈیفالٹ کا اعلان کرنے دیتے تاکہ روز روز کی تقریریں اور دعوے کرنے کے قابل نہ رہتے۔اب تو شریفوں اور زرداری کی بات پر عام آدمی یقین نہیں کرتا کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ عظیم قوم بننے سے چند قدم دور رہ گئے تھے کہ خان صاحب کو امریکہ نے ہٹوا دیا۔باقی میں نے کہا: چھ ماہ ہونے کو آئے آپ لوگ اب تک ڈھنگ کا ایک کام نہیں کرسکے۔72 سے زائد مشیر اور وزیر بنا دیے گئے ہیں‘ ایک ایک وزیر اور مشیر پر لاکھوں روپے خرچ ہورہے ہیں‘ کون سا شہباز شریف نے جیب سے انہیں تنخواہیں یا ان کے دفاتر یا پروٹوکول کی تنخواہیں دینی ہیں۔ قوم ہی دے گی اور ان کے وزیراعظم بننے کی قیمت ادا کرے گی۔
جن صاحب نے مجھ سے پوچھا تھا کہ یہ بارودی سرنگوں کی کیا کہانی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ جو مجھے شیخ صاحب کی سمجھ آئی ہے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عمران خان کو پچھلے سال اکتوبر میں پتہ چل چکا تھا کہ اب وہ وزیراعظم نہ رہ سکیں گے لہٰذا انہوں نے جانے سے پہلے کچھ ایسے اقدامات لیے جن سے انہیں پتہ تھا کہ ان کی جگہ آنے والی حکومت مشکلات میں گھرے گی اور عوام کا جینا مشکل ہو جائے گا ۔ پاکستان میں معاشی استحکام اس آئی ایم ایف ڈیل کی وجہ سے آرہا تھا جو عمران خان حکومت کے وزیرخزانہ شوکت ترین نے کی تھی۔مگر یہ فیصلہ ہوا کہ ہم تو حکومت سے باہر جارہے ہیں یا بھیجے جارہے ہیں لہٰذا جاتے جاتے بارودی سرنگیں بچھا جائیں۔ آئی ایم ایف کی اکیلی بارودی سرنگ زرداری ‘ شہباز شریف جوڑی کو اڑانے کے لیے کافی تھی۔ یوں آئی ایم ایف کے ساتھ طے کی گئی شرائط کی خلاف ورزی شروع کر دی گئی تاکہ آئی ایم ایف اپنا پروگرام پاکستان میں بند کردے۔ پٹرول‘ ڈیزل پر سبسڈی دی گئی اور اس کا پیسہ ترقیاتی فنڈز سے نکالا گیا تاکہ پٹرول ‘ڈیزل کو سستا کیا جائے۔ یوں ترقیاتی کام رکے اور معاشی ترقی بھی سست ہونا شروع ہوگئی ۔ عمران خان اور شوکت ترین کی توقع کے مطابق عمران خان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے آئی ایم ایف نے پروگرام معطل کر دیا جس سے بہت سے مالیاتی ادارواں نے پاکستان کے لون پراجیکٹ روک لیے اورمختلف ملکوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا جس سے مارکیٹ کو اشارہ گیا کہ پاکستان کے پاس اب ڈالرز نہیں ہوں گے۔اوپر سے تحریک چلائی گئی کہ بیرون ملک پاکستانی نئی حکومت کو پیسہ نہ بھیجیں، یوں روپے پر دبائو بڑھا اور ڈالر اوپر جانا شروع ہوگیا۔ یہی مقصد تھا شوکت ترین گروپ کا کہ ڈالر اوپر جائے گا تو مہنگائی پاکستانیوں کو ہِٹ کرے گی اور وہ عمران خان دور کی مہنگائی بھول جائیں گے۔ شوکت ترین خود بھی بینکر تھے اور اب انکشاف ہوا ہے کہ ان چھ ماہ میں آٹھ پاکستانی بینکوں نے جان بوجھ کر ڈالرز ریٹ اوپر لے جانے میں اہم کردار ادا کیا اور ایکسچینج ریٹ کے گھن چکر میں تقریبا ًساڑھے چار ارب منافع کمایا لیکن اس دوران ڈالر کو آسمان پر پہنچا دیا اور پاکستانی تاریخ کا ناکام وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل ٹی وی پر بیٹھ کر ٹسوے بہاتا رہا۔
اگر آپ کو اب بھی شک ہے تو شوکت ترین کی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزیرخزانہ سے ہونے والی آڈیو ٹیپ سن لیں‘ سمجھ آ جائے گی کہ وہ کیوں آئی ایم ایف سے ڈیل رکوانا چاہتے تھے اور محسن لغاری نے ان سے پوچھا کہ اس سے ریاست کو نقصان نہیں ہوگا؟اب اندازہ کریں جس بات کا ڈر محسن لغاری کو تھا وہ ملک کے دو دفعہ وزیرخزانہ رہنے والے شوکت ترین کو کیسے نہیں تھا؟ مطلب وہ سب جانتے تھے کہ آئی ایم ایف ڈیل نہ ہوئی تو پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا اور پھر ہنگامے شروع ہوجائیں گے اور پتہ چلے گا کہ خان کو تبدیل کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ویسے شکر کریں شوکت ترین ایران، شمالی کوریا ، چین یا سعودی عرب میں پیدا نہیں ہوئے اور وہاں ایسی فون کال لیک نہیں ہوئی ورنہ اب تک کہیں جھولے کھاتے پائے جاتے۔جب اس ملک کے حکمران صرف اپنا بدلہ لینے کے لیے بائیس کروڑ عوام اور ریاست کو دائو پر لگانے کو تیار ہو جائیں، دوسری طرف سولہ ارب روپے منی لانڈرنگ کاملزم ضمانت پر وزیراعظم بن جائے تو پھر بھی یہ سوال پوچھنا عجیب سا لگتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا۔ آپ عوام ہی اپنا گڑھا کھود رہے ہیں۔ آپ اپنی مرضی کے لٹیرے چاہتے ہیں۔ کوئی ریاست کو ڈیفالٹ کرا کے بدلہ لینا چاہتا تھا تو کوئی اربوں کی کمائی کر کے ہر قیمت پر حلف لے کر آپ کا وزیراعظم بننا چاہتا تھا۔آج بھی یہ جلسے کریں تو عوام ان پر پھول نچھاور کرتے ہیں اور پھر ہمارے جیسے گناہگاروں سے پوچھنا بھی نہیں بھولتے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved