بھارت سے بات چیت
کے لیے تیار ہیں: شہباز شریف
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بھارت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں‘‘ اور اب تو بھائی صاحب نے بھی اس کی اجازت دے دی ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ان کی 'گوسلو‘ پالیسی کا تقاضا بھی یہی ہے‘ نیز بھارت کبھی اس پر تیار نہیں ہوگا اس لیے ایسا بیان دینے میں کوئی ہرج نہیں ہے جبکہ اس کا بظاہر مطلب یہی ہے کہ بھارت تو بات چیت کے لیے تیار ہے‘ ہم ہی اس سے گریز کر رہے تھے اور اب ہم نے اس پر آمادگی ظاہر کر دی ہے اور اگر بات چیت ہو بھی گئی تو یہ پانی میں مدھانی ہی کے مترادف ہوگا‘ علاوہ ازیں عوام بھی ہماری نیت پر شک کرنا چھوڑ دیں گے۔ آپ اگلے روز نیو یارک میں جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے۔
فواد کے اشتعال انگیز بیان کا مقصد تھا
عمران خان پر فردِ جرم لگے: حامد خان
توہینِ عدالت کیس میں عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا ہے کہ ''فواد کے اشتعال انگیز بیان کا مقصد تھا عمران خان پر فردِ جرم لگے‘‘ جبکہ میرے کل والے بیان‘ جس میں مَیں نے کہا تھا کہ عمران خان نے معافی نہیں مانگی‘ کا مقصد بھی یہی تھا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان بہادر آدمی ہیں اور فردِ جرم کا مقابلہ وہ دلیری سے کر سکتے ہیں‘ بصورت دیگر پارٹی میں متبادل قیادت کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ عمران خان تو اپنے جوہر دکھا چکے ہیں۔ اب اوروں کو بھی اس کا موقع ملنا چاہیے جبکہ میں اور فواد جانشینی کے مسئلے پر ٹاس سے بھی فیصلہ کر سکتے ہیں بلکہ میں اس سے سینئر ہوں‘ اسے میری سنیارٹی کا خود ہی خیال رکھنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ریاست کے تحفظ کے لیے کسی قربانی
سے دریغ نہیں کریں گے: جاوید لطیف
وفاقی وزیر اور نواز لیگ کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''ریاست کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے‘‘ کیونکہ اپنے ادوارِ اقتدار میں جو کچھ ہم نے اس کے ساتھ کیا ہے اور اب تک برداشت کر رہی ہے ہمیں اس کے لیے کسی بھی قربانی کے لیے بروقت تیار رہنا چاہیے کیونکہ یہ ان قربانیوں کے مقابلے میں بے حد معمولی ہوگی جو وہ ہمارے لیے دے چکی ہے اور ہم اس چراگاہ میں مزید چُگنے چرنے کا عزمِ صمیم بھی رکھتے ہیں اور اگر یہ قائم رہتی ہے تو اسی صورت میں ہم اپنی بقایا حسرتیں بھی نکال سکتے ہیں اور جس کے لیے اپنے قائد کی واپسی کا ہم شدت سے انتظار کر رہے ہیں اور جسے جلد از جلد ممکن بھی بنایا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
کبھی پرویز الٰہی کے خلاف
بیان نہیں دیا: شجاعت حسین
(ق) لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''میں نے کبھی پرویز الٰہی کے خلاف بیان نہیں دیا‘‘ صرف وزیراعلیٰ بننے کے دوران اپنا کردار ادا کیا تھا کیونکہ یہ کانٹوں کی سیج ہے جس پر لیٹنے سے میں اسے بچانا چاہتا تھا‘ نیز اگر بیان دیے بغیر ہی سب کچھ کیا جا سکتا ہے تو پھر بیان دینے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اول تو میں بیان دینے سے ویسے بھی پرہیز کرتا ہوں کیونکہ میں کہتا کچھ اور ہوں اور اخبار والے چھاپ کچھ اور دیتے ہیں‘ اور اگرکبھی میرا کوئی مخالفانہ بیان پرویز الٰہی کے بارے میں چھپ بھی جائے تو وہ یہی سمجھیں کہ دراصل وہ ان کے حق میں دیا گیا تھا اور ساری شرارت اخبار والوں کی ہے۔ آپ اگلے روز ایک قومی روزنامہ کو خصوصی انٹرویو دے رہے تھے۔
عدم برداشت کی چند آوازیں ہیں
جو مجموعی طور پر انتہائی کم ہیں: کائرہ
مشیر امورِ کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''عدم برداشت کی چند آوازیں ہیں جو مجموعی طور پر انتہائی کم ہیں‘‘ حالانکہ جتنا بڑا یہ ملک ہے اور جتنی اس کی آبادی ہے اس کے لحاظ سے یہ آوازیں نہایت کم اور واقعی ناکافی ہیں جبکہ دیگر کئی معاملات میں بھی ملکِ عزیز عدم توازن کا شکار ہے جبکہ برداشت خالصتاً بزرگی اور کمزوری کی نشانی ہے جو کہ ایک زندہ قوم کو زیب نہیں دیتی چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے اور کم از کم اس محاورے کی لاج ضرور رکھ لی جائے کیونکہ محاوروں پر اگر عمل نہ کیا جائے تو یہ ہماری قومی زبان کے خلاف بھی سخت اور ناقابلِ برداشت زیادتی ہے۔ آپ اگلے روز پیس فیسٹیول کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
کون سے دیس کی بابت پوچھے
وقت کے دشت میں پھرتی
یہ خنک سرد ہوا
کن زمانوں کی یہ مدفون مہک
بد نما شہر کی گلیوں میں اڑی پھرتی ہے
اور یہ دور تلک پھیلی ہوئی
نیند اور خواب سے بوجھل بوجھل
اعتبار اور یقیں کی منزل
جس کی تائید میں ہر شے ہے
بقا ہے لیکن
اپنے منظر کے اندھیروں سے پرے
ہم خنک سرد ہوا سن بھی سکیں
ہم کہ کس دیس کی پہچان میں ہیں
ہم کہ کس لمس کی تائید میں ہیں
ہم کہ کس زعم کی توفیق میں ہیں
ہم کہ اک ضبط مسلسل ہیں
زمانوں کے ابد سے لرزاں
وہم کے گھر کے مکیں
اپنے ہی دیس میں پردیس لیے پھرتے ہیں
ہم کہ اک بھیس لیے پھرتے ہیں
آج کا مطلع
جو ناروا تھا اس کو روا کرنے آیا ہوں
میں قرض دوسروں کا ادا کرنے آیا ہوں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved