پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت ایک مرتبہ پھر عروج پر ہے۔ ملک کو ایک اور احتجاج اور لانگ مارچ کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال تشویش ناک دکھائی دیتی ہے۔ سیاستدانوں کی کامیابی مذاکرات سے حل نکالنے میں ہوتی ہے۔ کامیاب جمہوریتوں میں احتجاج اور لانگ مارچ آخری حربے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں اسے پہلے آپشن کے طور پر استعمال کرنے کی روایت پڑ چکی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان لانگ مارچز کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے لانگ مارچ کامیاب رہے لیکن طاقتوروں کی حمایت کے بغیر وہ بھی شاید ناکام رہتے۔ حال ہی میں تحریک لبیک کے دھرنے اور لانگ مارچز ثمر آور ثابت ہوئے۔ اس کی وجوہات بھی یہی بتائی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں مولانا فضل الرحمن کے دو لانگ مارچ اور بلاول کا ایک لانگ مارچ بے نتیجہ ختم ہوئے۔ عمران خان کا 25مئی والا لانگ مارچ بھی ناکام دکھائی دیا البتہ اس مرتبہ تحریک انصاف کا احتجاج اور لانگ مارچ کیا رخ اختیار کرتا ہے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن مطلوبہ نتائج ملنے کی امید کم دکھائی دیتی ہے۔ اس کا تحریک انصاف کو کتنا فائدہ ہوتا ہے اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ملک کو بظاہر اس کا فائدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جب سے تحریک انصاف نے لانگ مارچ اور احتجاج کا اعلان کیا ہے‘ ملک میں ڈالر کی پرواز رک گئی ہے۔ کچھ حلقے اسے اتفاق قرار دے رہے ہیں لیکن ماضی کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اتنی بڑی تبدیلی اتفاقاً نہیں ہو سکتی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غیریقینی سیاسی صورتحال کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ ہوتا لیکن اس میں معمولی کمی آنا معنی خیز ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا مدعا مہنگائی ہے۔ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد حکومت نے ڈالر ریٹ بڑھانے میں ملوث بینکوں کے خلاف ایکشن لیا ہے اور انہیں بھاری جرمانے عائد کیے ہیں۔ اس ایکشن کا مطالبہ پہلے بھی کئی مرتبہ کیا جا چکا تھا لیکن تب حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ اب دباؤ میں آ کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہوئے ہیں۔ حال ہی میں جب ڈالر ریٹ میں مسلسل کمی دیکھی گئی تھی تو اس کی وجہ بھی حکومت کا منی ایکسچینجرز کے خلاف ایکشن بتایا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے 2014ء کے دھرنے میں بھی عوام کو پاکستانی تاریخ کا سستا ترین پٹرول دستیاب ہوگیا تھا۔ اب شاید ڈالر کی باری ہے۔
ایک طرف ملک میں سیاسی و معاشی بے یقینی کی صورتحال ہے تو دوسری طرف شنید ہے کہ پاکستان کے دیرینہ دوست چین نے بھی آئی پی پیز کی ادائیگیوں کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ممکنہ طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چینی صدر نے وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی چینی آئی پی پیز کے تین سو ارب روپوں کے واجبات ادا کیے جائیں اور پاکستان میں مقیم چینیوں کی سکیورٹی کو فول پروف بنایا جائے۔ پاکستانی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ چینی سربراہِ مملکت نے براہِ راست پاکستانی وزیراعظم سے یہ مطالبہ کیا ہو۔ اس طرح کے معاملات سٹاف لیول پر ڈسکس ہوتے رہتے ہیں لیکن سربراہِ مملکت کی جانب سے اس مرتبہ یہ مطالبہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ چین نے یہ مطالبہ اس وقت کیا ہے جب پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے اور ورلڈ بینک نے پاکستان میں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کے خدشے کا اظہار کر رکھا ہے۔ یہ مطالبہ عالمی سطح پر یہ پیغام دے رہا ہے کہ شاید اب پاکستان کے دیرینہ دوست کو بھی پاکستانی معیشت پر اعتماد نہیں رہا ہے۔
چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی ہمیشہ پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہری رہی ہے لیکن اب یہ کارپوریٹ ورلڈ کا دور ہے۔ یہاں پر اب معاشی فوائد ہی تعلقات بنانے اور توڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان نے ماضی میں چین کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ چین کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان اس وقت عالمی معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ امریکہ اور آئی ایم ایف روز بروز پاکستان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں چین کو پاکستان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کے چلنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک بات ہے چینی شہریوں کے سکیورٹی معاملات کی تو پاکستان اپنے وسائل کے مطابق انہیں بہترین سکیورٹی فراہم کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں صرف چینی شہریوں پر دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔ پاکستانی بھی آئے روز دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اور پاکستان اس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔
فی الحال صورتحال یہ ہے کہ سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار کافی سست کر دی گئی ہے اور شنید ہے کہ ان منصوبوں پر مزید سرمایہ کاری نہیں کی جا رہی۔ شاید ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ پاکستان سی پیک قرضوں کی قسطیں ادا نہیں کر سکے گا۔ ایسی صورت میں مزید قرض دینا مناسب نہیں ہے۔ میں یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ سی پیک منصوبہ چین نے پیش کیا تھا اور وہی اس کا سب سے بڑا بینی فشری بھی ہے لیکن اس کی پوری قیمت پاکستان ادا کر رہا ہے۔ چین نے پاکستان کو سی پیک کے لیے کمرشل قرضے دیے ہیں۔ یعنی چین ایک طرف اپنے سرمائے پر منافع کما رہا ہے اور اپنے قرض کے پیسوں سے ہی سی پیک بنا رہا ہے جس کی ادائیگی پاکستان نے کرنی ہے۔ اس ضمن میں بہتر تو یہی ہوتا کہ چین اپنے وسائل سے سی پیک تیار کرتا‘ پندرہ سال وہ ان منصوبوں کی ملکیت اپنے پاس رکھتا‘ یہاں سے پیسے کماتا اور اس کے بعد ملکیت پاکستان کو منتقل کر دیتا۔ اس سے پاکستان پر اربوں ڈالرز کا بوجھ بھی نہ پڑتا اور سی پیک بھی احسن انداز میں مکمل ہو جاتا لیکن سی پیک کے حوالے سے ہونے والے معاہدوں میں ان پہلوؤں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ جو منصوبے پہلے سے پاکستان میں لگائے جا چکے ہیں ان کی قیمت بھی مارکیٹ ریٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں لگنے والے بجلی کے منصوبوں کی لاگت تقریباً دو ارب ڈالر ہے جبکہ اسی کپیسٹی کے ایک جیسے منصوبے دیگر ملکوں میں تقریباً ایک ارب ڈالر کی لاگت سے لگ چکے ہیں۔ ان مہنگے منصوبوں کی وجہ سے پاکستان کو بجلی کا ایک یونٹ آٹھ سینٹ میں پڑتا ہے۔ 2015ء میں پاکستان سے بجلی بحران ختم کرنے کے لیے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے گئے تھے۔ جن کے مطابق ان کمپنیوں کو منافع کی گارنٹی دی گئی تھی۔ کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں بجلی پیدا کریں یا نہ کریں حکومت پاکستان کو انہیں ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ 2017ء تک کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں تقریباً 255 ارب روپوں کی ادئیگیاں کی گئیں اور 2022ء میں یہ رقم 1200 ارب روپے تک بڑھ گئی ہے۔ جس میں سے تقریباً 35 فیصد آئی پی پیز کو واجب الادا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2025ء تک یہ رقم 3600 ارب روپوں تک بڑھ سکتی ہے۔ جس کی ادائیگی پاکستان کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ اس مسئلے کو باہمی رضا مندی کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے اور کپیسٹی پیمٹ جیسی شرائط سے جان چھڑوائی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال بھی سی پیک کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ وقت سے پہلے حکومتوں کی تبدیلی‘ احتجاج اور دھرنوں نے چینی سرمایہ کاروں کے لیے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ ا س کے علاوہ سی پیک اتھارٹی بھی ایک مناسب پلیٹ فارم تھا جسے ختم کرنے سے چین زیادہ مطمئن نہیں ہے۔ ان حالات کے پیش نظر چین سی پیک میں مزید سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہے اور خدشہ ہے کہ اسے مکمل طور پر بند بھی کیا جا سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved