یواین جنرل اسمبلی کا باقاعدہ اجلاس ستمبر کے تیسرے ہفتے میں شروع ہو تا ہے اور وقفوں کے ساتھ دسمبر کے اوائل تک جاری رہتا ہے۔تاہم پہلے دو ہفتوں کے اجلاسوں کو '' بین الاقوامی سفارتی فیسٹیول‘‘کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ مختلف سربراہانِ مملکت یا رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اپنی خارجہ پالیسی اور عالمی امور کے حوالے سے سرکاری بیان جاری کرتے ہیں۔سائیڈ لائن اجلاسوں میں اعلیٰ رہنما دوطرفہ اور عالمی ایشوز پر بات چیت کرتے ہیں یا نئے تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ متعدد علاقائی تنظیمیں یا ان کے مخصوص گروپس غیر رسمی ملاقاتیں کرتے ہیں۔
پاکستان کے سرکاری حلقوں کو جنرل اسمبلی کے جاری اجلاس کے دوران ملنے والی توجہ پر اظہارِ مسرت کرنا چاہئے۔ وزیراعظم شہباز شریف او روزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی متعدد عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور وزیر خارجہ 27ستمبر کو واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک سے بھی خطاب کریں گے۔ یہ وزیر اعظم شہباز شریف کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے علاوہ ہو گا؛ تاہم پاکستان کو ایک طرف سے منفی توجہ بھی ملی۔یہ توجہ سیلاب متاثرین کو ریلیف کی فراہمی سے متعلق تھی۔9سے 11ستمبر تک اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دورئہ پاکستا ن کے دوران ان کی ساری توجہ سیلاب متاثرین کی حالتِ زار پر مرکوز تھی۔اس کی با زگشت یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی سنی گئی۔
فی الحال پاکستان کو عالمی سطح پر منفی توجہ کا سامنا ہے۔اس میں آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے‘ بعض مغربی مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستا نی معیشت کی گریڈنگ‘ بعض دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک کی جانب سے پاکستان کو ملنے والے قرضے او رگرانٹس اور پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مدد دینے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں سعودی عرب‘ یواے ای اور چین کی طرف سے اربوں ڈالرز رکھوانے کے امور شامل ہیں۔ماضی میں پاکستان دہشت گردی میں 80 ہزار شہریوں کی جانوں کی قربانی پیش کرچکا ہے مگر امریکہ اور کئی مغربی ممالک اکثر پاکستا ن پر بعض عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ نرم رویہ اپنانے اور انہیں پاکستان سے عسکری کارروائیاں کرنے کی اجاز ت دینے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ان ممالک کے رہنما پاکستان کو کبھی دہشت گردی کے مسئلے کا حصہ اور کبھی اس کے حل کا حصہ قرار دیتے رہتے ہیں۔
پاکستا ن کب تک عالمی سطح پر اپنا یہ منفی تاثر جاری رکھ سکتا ہے جبکہ اسے انسانی بنیادوں پر امداد‘ قرضوں‘ گرانٹس اور مالیاتی سپورٹ کی بھی ضرورت ہے؟اس طرح پاکستان اپنے سفارتی اثرو رسوخ کے ذریعے کئی طرح کی مراعات حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔پاکستان کو بھاری مقدار میں غیر ملکی وسائل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کا زیاد ہ تر انحصار اندرونی کے بجائے بیرونی وسائل پر ہے۔پاکستان کی معیشت کو سپورٹ کرنے والے بیرونی وسائل میں عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ملنے والی فنڈنگ‘ مالی امداد اور دوست ممالک کی جانب سے ملنے والے قرضے اور اوور سیز پاکستانیوں کی طرف سے بھیجا جانے والا زر مبادلہ شامل ہے۔ ہماری معیشت موجودہ شکل میں اندرونی وسائل پر انحصار کے قابل نہیں۔
پاکستان کے بعض معاشی مسائل کم وبیش گزشتہ 30برسوں سے مستقل نوعیت کے حامل ہیں تاہم گزشتہ تین چار برس سے‘ خاص طور پر اپریل 2022ء میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستان کی معاشی صورتحال زیادہ ہی دگر گوں ہو گئی ہے۔یہ صورتحال میکرو اور مائیکرو لیول پر انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکی ہے۔عام آدمی افراطِ زر‘ ناقص گورننس او رمہنگائی کی وجہ سے ناقابلِ برداشت معاشی دبائو کا شکار ہو چکا ہے۔اگر آپ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سفارتی کردار اور اثرورسوخ میں کمی کیوں آئی ہے تواس کیلئے ہمیں پاکستان کے داخلی معاشی اور سیاسی منظرنامے پر فوکس کرنا ہوگا۔ امریکہ اورسوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے زمانے میں کوئی بھی ملک کسی سپر پاور کی سپورٹ حاصل کر سکتا تھابشرطیکہ وہ ملک بھی اس سپر پاور کے مفادات پر پورااترتا ہو۔اگر کوئی ملک سپر پاور کے عالمی مفادات پر پورا اترتا تھا تو متعلقہ سپر پاور اس ملک کو ریسکیو کرنے کیلئے آخری حد تک جانے پر تیار ہو جاتی تھی۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں عالمی سیاست کے فریم ورک میںبڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔اگرچہ کسی ملک کی تزویراتی اہمیت آج بھی بنیادی فیکٹر ہے مگر دیگر عوامل کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔اہم صنعتی اور معاشی طاقتیں کسی ملک کی مدد کرتے وقت اپنے اثرو رسوخ اور اختیارات کا استعمال کرتی ہیں۔ اہم ترین فیکٹراس ملک کی داخلی سیاسی اور معاشی صورتحال ہوتی ہے۔اگر کوئی ملک مسلسل داخلی سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی کا شکار رہتا ہے جو اس کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا تاثر پیدا کرتی ہو تو دوسرے ممالک اس کے ساتھ گہرے اور دیرپا سیاسی اور معاشی تعلقات استوار کرنے میں تامل سے کام لیتے ہیں۔بے یقینی اور کشیدگی کی شکار سیاسی صورتحال غیرملکی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔
کوئی ملک اسی وقت عالمی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرا سکتا ہے اگر وہ باقی دنیا کو اپنی مثبت اہمیت کا ادراک کرا نے میں کامیاب رہے۔ مثبت اہمیت اسی وقت پروان چڑھتی ہے جب اس ملک کے داخلی معاشی حالات مستحکم اور ا س کے ترقی کرنے کے امکانات روشن ہوں۔ایسا ملک ہی بیرونی دنیا سے سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے حصول میں کامیاب رہتا ہے۔بہت سی کثیر ملکی کارپوریشنز وہاں اپنے پیداواری یونٹس لگانے کیلئے تیار ہو تی ہیں بشرطیکہ اس ملک کے معاشی اور سیاسی حالات مستحکم اور وہاں انفراسٹرکچر‘ یوٹیلٹیز اور بنیادی سروسز مناسب قیمت پر دستیاب ہوں۔ افسر شاہی کی ضابطے کی رکاوٹیں اور صنعتی اجازت نامے کے حصول کی آڑمیں کرپشن غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ایک نمایاں فیکٹر غیرملکی مصنوعات کی مقامی مارکیٹ تک رسائی ہے۔اگر یہ مارکیٹ پاکستان کی طرح بڑے حجم کی ہو تو غیر ملکی کمپنیاں مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر بھی وہاں اپنے پروڈکشن یونٹ لگانے کیلئے تیار ہو جاتی ہیں یا کوئی مقامی پارٹی اس کمپنی کے لائسنس کے تحت مصنوعات کی پیدا وار کی اجازت لے لیتی ہے۔
پاکستانی معیشت میں بھی خوش آئند تبدیلی لائی جا سکتی ہے بشرطیکہ پاکستان کے سیاسی قائدین جاری سیاسی محاذ آرائی میں اعتدال پسندی کا مظاہرہ کریں۔وہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے پاور پالیٹکس کے نام پر اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ اپنی اس دیرینہ سیاست کی قیمت کے بارے میں سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔اگر ہمارے سیاسی قائدین پاورپالیٹکس کے نام پر اپنی کوتا ہ بینی کی روش تبدیل کر لیں اور ملک کے معاشی مسائل کے لیے مل جل کر کوشش کریں تو پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال میں بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔اگر ہمارے سیاسی رہنما باہمی مذاکرات کے ذریعے سیاست کی موجودہ ہیئت کوتبدیل کر دیں‘ جو ہماری معیشت کے لیے موزوں ہو‘ تو آنے والے چند برسوں میں پاکستان کا غیرملکی مالی وسائل پر انحصار ختم ہو سکتا ہے۔ایسا ہوجائے تو پاکستان کے اپنے سیاسی اور معاشی فیصلے کرنے کی خودمختاری میں بھی اضافہ ہوگا‘یوں پاکستان ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے ایک پُرکشش ملک بن جائے گا۔ ایک آزاد اکانومسٹ اور پولیٹکل سائنس دان آپ کو یہ بتا سکتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما مل جل کر ایسے اقدامات کریں جو ہماری معیشت میں بہتری کے لیے ازحد ضروری ہیں۔کیا ہمارے سیاست دان ہماری توقعات پر پورا اترتے ہوئے پاکستان کے دیر پا قومی مفادات کا تحفظ اور پاکستانی عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری لانے کے لیے کام کرسکیں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved