تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     26-09-2022

پاک سعودیہ دوستی

سعودی عرب دنیائے اسلام کا اس اعتبار سے اہم ترین ملک ہے کہ حجاز سعودی عر ب کا حصہ ہے اور حجازِ مقدس سے مسلمانوں کی گہری قلبی وابستگی ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت سے بہرہ ور ضرور فرمائے۔ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے لوگ اپنے وسائل کو مجتمع کرتے رہتے ہیں اور حج کی ادائیگی کو اپنے لیے سعادت سمجھتے اور اس فریضے کی ادائیگی کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کے انتہائی شکر گزار ہو جاتے ہیں۔ حج سے واپسی پر لوگ اپنے حاجی رشتہ دار کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کرتے اور اس سے ملاقات کے لیے جوق درجوق جمع ہوتے ہیں۔ فریضۂ حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ عمرے کی ادائیگی بھی ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے۔ متمول لوگ اپنی استعداد اور حیثیت کے مطابق زندگی کے مختلف ادوار میں عمرہ کرتے رہتے ہیں۔ کم وسائل والے لوگ حج تمتع کی نیت سے احرام باندھ کر حج کے موقع پر ہی عمرے کی ادائیگی کا شرف حاصل کرلیتے ہیں اور اگر اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں توفیق دے تو زندگی میں کسی اور موقع پر بھی عمرہ کی ادائیگی کے لیے حجاز کے سفر کا قصد کرتے ہیں۔
حج کی ادائیگی کے لیے کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ اطراف واکنافِ عالم سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیت اللہ شریف پہنچتے ہیں۔ کعبۃ اللہ سے ملحق مسجد الحرام میں نماز کی ادائیگی ہر شخص کو مرغوب ہوتی ہے اور حج کے لیے آنے والا خوش نصیب مسجد الحرام میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر اپنی دلی فریادوں اور تمناؤں کو اپنے خالق و مالک کے سامنے رکھتا ہے۔ بیت الحرام میں نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کعبۃ اللہ کا طواف کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے ۔ بیت الحرام کے طواف کے ساتھ ساتھ لوگ صحنِ کعبہ اور اس سے متصل حصوں میں بیٹھ کر قرآنِ مجید کی تلاوت بھی کرتے رہتے اور بیت اللہ کی زیارت کا لطف بھی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ بیت اللہ کے ساتھ ساتھ مسجد نبوی شریف کی زیارت کے لیے بھی مسلمان بڑے ذوق وشوق کے ساتھ جاتے ہیں اور مسجد نبوی شریف میں نماز ادا کرکے اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت تصور کرتے اور اس سعادت پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔ فریضہ حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جانے والوں میں پاکستان کے حجاج اور عمرہ کرنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔
اسلام کی نسبت کے ساتھ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات انتہائی گہرے اور مضبوط ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جب بھی کبھی پاکستان کو مدد کی ضرورت پڑی تو دنیا کے بعض دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر پاکستان کی مالی معاونت کی اور اس حوالے سے کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی۔ جنگی ایام ہوں یا ایٹمی دھماکے کے بعد لگنے والی پابندیاں ‘ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مالی معاونت کو جاری وساری رکھا اور کئی مرتبہ پاکستان کو مفت اور کئی مرتبہ انتہائی کم قیمت پر اور ادھار تیل کی سہولت فراہم کی۔ 2005ء میں بالا کوٹ اور شمالی علاقہ جات میں آنے والے زلزلے سے لوگوں کی بڑی تعداد بے گھر ہو گئی تھی اور بہت سے لوگ زلزلے کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔اس موقع پر بھی سعودی عرب نے پاکستان کی بحالی کے لیے خطیر رقم دی اور بحالی کے کاموں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کئی سال قبل بارشوں کی وجہ سے جنوبی علاقے متاثر ہوئے تو اس موقع پر بھی سعودی عرب کی طرف سے مالی امداد اور معاونت حاصل ہوئی۔ حالیہ ایام میں جب سیلابی بارشوں نے صوبہ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب کے علاقوں کو بری طرح متاثر کیا تو خادمِ حرمین شریفین نے پاکستان کی معاونت کے لیے عوامی سطح پر اپیل کی اور کروڑوں ریال پاکستان پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا۔
سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات ہر دور میں مثالی رہے ہیں۔ شاہ فیصل مرحوم سعودی عرب کے بادشاہوں میں ایک منفرد شخصیت تھے۔ وہ پاکستان سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے اور سقوطِ ڈھاکہ پر انہوں نے انتہائی غم کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان میں آنے والے بہت سے سیاسی بحرانوں کے دوران بھی سعودی سفارتکار نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان پیدا ہونے والے جمود کے خاتمے کے لیے سعودی سفیر نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات اس اعتبار سے بھی غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں کہ یورپ اور برطانیہ میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے طرح‘ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی سعودی عرب میں بھی ملازمت اور کاروبار میں مشغول ہیں ۔ ان کی معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کو بڑی تعداد میں رقوم حاصل ہوتی ہیںجس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا اور قومی خزانے کو تقویت ملتی ہے۔ پاکستان کے وہ لوگ جو سعودی عرب میں مقیم ہیں‘ جہاں قومی خزانے کو تقویت پہنچانے کا سبب ہیں وہیں اپنے خاندانوں کی معاشی حالت کو بھی بہتر بنانے میں وہ نمایاں کردار ادا کررہے ہیں اور بہت سے خاندانوں کی معاشی حالت روز بروز بہتر سے بہتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
سعودی عرب اس اعتبار سے بھی ایک مثالی ریاست ہے کہ وہاں پر امن وسکون کا دور دورہ ہے اور جرائم پیشہ افراد خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ کسی بھی جرم پر ملنے والی کڑی سزاؤں کی وجہ سے وہاں پر قانون کی عملداری نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ برطانیہ اور سعودی عرب کا سفر کرنے والے لوگ ان ملکوں میں قانون کی عملداری کو دیکھ کر انتہائی متاثر ہوتے ہیں اور ان کی یہ دعا ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان میں بھی اسی سطح پر قانون کی عملداری کے دروازے کھول دے جس انداز میں قانون کی بالا دستی خلیجی ملک سعودی عرب اور یورپی ملک برطانیہ میں ہے۔
جہاں سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ہمیشہ بڑے بھائی کا سا سلوک کرتا ہے وہیں پاکستان بھی ہمہ وقت سعودی عرب کے کام آنے کے لیے آمادہ وتیار رہتا ہے۔ جب کبھی بھی سعودی عرب کو پاکستان کی معاونت کی ضرورت پڑی تو پاکستان نے سعودی عر ب کے کندھے سے کندھا ملا کر اپنا ریاستی کردار احسن طریقے سے نبھایا۔ سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر ہر سال جہاں دنیا کے مختلف سفارتخانوں کی سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے وہیں پاکستان میں بھی سعودی عرب اپنے قومی دن کی تقریبات کا بھرپور انداز میں انعقاد کرتا ہے۔ کبھی یہ تقریب یہ سعودی عرب کے سفارتخانے کے خوبصورت لان میں منعقد ہوتی ہیں اور کبھی یہ تقریبات اسلام آباد کے مقامی ہوٹلز میں منعقد کی جاتی ہیں۔ ماضی میں کئی مرتبہ مجھے ان تقریبات میں شمولیت کا موقع ملا ہے۔ اس سال بھی مجھے تقریب میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی تھی لیکن سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کے طویل دورے سے واپسی کی وجہ سے میں اس تقریب میں شرکت نہ کر سکا؛ تاہم میرے دونوں بھائی حافظ ہشام الٰہی ظہیر اور معتصم الٰہی ظہیر اس تقریب میں موجود تھے ۔ یہ تقریب جہاں پاک سعودی تعلقات کو نبھانے اور بڑھانے کا ذریعہ بنتی ہے‘ وہیں اس تقریب میں پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے بڑے بڑے رہنمابھی شریک ہوتے ہیں۔ اس طرح ایسی تقریبات داخلی تعلقات کی مضبوطی کا بھی ایک ذریعہ بن جاتی ہیں۔
سعودی عرب کے موجودہ سفیر نواف المالکی ایک انتہائی پُرجوش اور متبسم شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ سعودی عرب کی نہایت احسن انداز میں نمائندگی کرتے ہیں۔ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آنے والے نواف المالکی یقینا اپنی گرمجوش طبیعت کی وجہ سے بہت جلد لوگوں کے دل میں گھر کر جاتے ہیں۔ سعودی عرب کے قومی دن کے حوالے سے اس سال ہونے والی تقریب میں بھی انہوں حسبِ سابق مہمانوں کے ساتھ انتہائی پُرتپاک انداز میں ملاقات کی۔ بھرپور ضیافت کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے سعودی عرب کی پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کو بھی واضح کیا۔ سعودی سفارتخانے کی یہ تقریب حسبِ سابق بہت سی خوشگوار یادوں کے ہمراہ اختتام پذیر ہوئی اور تقریب کے شرکا پاک سعودی تعلقات کی ایک عظیم تاریخ کو اپنے تخیل میں سموئے ہوئے واپس آئے۔ ان کے ذہن میں یہ بات پہلے بھی موجود تھی کہ ان شاء اللہ آنے والے ماہ وسال کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پہلے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوں گے اور اس تقریب سے اس خیال کو مزید تقویت میسر آئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پاک سعودی تعلقات کو ہمیشہ کی طرح مضبوط اور مستحکم رکھے اور ان دونوں ممالک کے مابین اعتماد، اخوت اور محبت کے تعلقا ت پہلے کی طرح مزید پروان چڑھتے رہیں، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved