امریکی صدر جو بائیڈن نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں روس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی دوسرے ملک پر بزور طاقت قبضہ اب کسی کے لیے بھی قابلِ برداشت نہیں ہو سکتا اور دنیا یوکرین کا اسی لیے ساتھ دیتے ہوئے اسے اب تک چالیس ارب ڈالرکی فوجی اور دوسری امداد دے چکی ہے تاکہ روس اپنی طاقت کے زور پر اپنی سرحدوں کو وسیع کرنے کا خواب پورا نہ کر سکے۔ امریکی صدر کے اس خطاب کے حوالے سے ان سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جناب! جو کچھ آپ نے جنرل اسمبلی میں کہا ‘وہ سو فیصد درست ہے لیکن کیا یہ اصول اور قوانین جو آپ اور آپ کے اتحادیوں نے محض روس پر لاگو کر رکھے ہیں‘ وہی قانون اور اصول بھارت سمیت دوسرے غاصب ملکوں پر کیوں لاگو نہیں کیے جا رہے؟ آپ کی اس سوچ اور توسیع پسندی کی تعریف سے بھارت اب تک مبرا کیوں ہے؟
امریکی صدر جو بائیڈن نے نیو یارک میں جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کھل کر کہا کہ سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں اضافہ اب ضروری ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ اور اس کے تمام حواریوں کا اشارہ سوائے بھارت کے اور کسی طرف ہو ہی نہیں سکتا۔ صدر بائیڈن کا یہ خطاب اور سلامتی کونسل کی مستقل نشست کیلئے سوچا ہوا نیا نام ان کی ذاتی نہیں بلکہ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے دل کی بات ہے جس کے لیے امریکہ نے اپنے تمام اتحادیوں کو پہلے ہی سے اعتماد میں لے رکھا ہوگا۔ گویا یہ اجلاس اب بھارت کو چین کے مقابلے میںمضبوط بنانے اور بھارت کو امریکی بلاک کا حصہ بنانے کی جانب پہلا قدم ہے جس کی تیاریاں گزشتہ کئی دہائیوں سے کی جا رہی تھیں۔ صدر بائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جو باتیں کیں‘ وہ بظاہر بہت ہی خیال افروز اور عالمی امن کیلئے خوش آئند لگتی ہیں لیکن امریکہ کی اب تک کی دنیا بھر میں جو بھی پالیسیاں دیکھی گئی ہیں‘ ان سے یہی لگتا ہے کہ '' میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تھو‘‘۔ کیا مقبوضہ کشمیر کا معاملہ یوکرین سے مختلف ہے؟ کیا مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ نہیں کر رکھا؟ اور اس کی گواہی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ایک سو سے زائد ممالک نے اپنی قراردادوں میں دے رکھی ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر جبری فوجی قبضہ کر رکھا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ افغانستان، عراق، شام اور لیبیا سمیت کئی خطوں اور ملکوں کو نشانہ کس کی توسیع پسندانہ خواہشات کی تکمیل کیلئے بنایا گیا؟
4 مئی 1985ء کے واشنگٹن پوسٹ میں امریکہ کے انڈر سیکرٹری ڈیفنس ریڈ اکلے کے حوالے سے شائع شدہ رپورٹ میں لکھا تھا ''امریکہ بھارت کو فوجی ہتھیار تیار کرنے کی اس قدر ٹیکنالوجی فراہم کر ے گا جس سے وہ ایک بڑی طاقتور فوجی قوت بن کر اس صدی کے آخرتک عالمی استحکام کے سفر میں امریکہ کا ساتھ دینے اور بڑے سے بڑا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکے۔ انڈر سیکرٹری ڈیفنس ریڈ اکلے نے کہا تھا کہ اگر امریکہ اور اس کے تمام اتحادی بھارت کو بری، بحری اور فضائی قوت بنانے کے ساتھ ساتھ اسے ایٹمی قوت سے بھر پور انداز میں مسلح کر دیں تو اس طرح بھارت ایک ایسی طاقت بن سکتا ہے جو عالمی استحکام کے لیے '' امریکہ کی منشا‘‘ کے مطا بق کردار ادا کرنے کے علا وہ1995ء سے2005ء کی دہائی میں امریکہ کے وضع کردہ نیشنل سکیورٹی سے وابستہ مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد دے گا۔ یاد رکھئے کہ بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ مئی 1974ء کیا تھا اس کے باوجود امریکہ اور مغربی اتحادی بھارت کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ سمجھنے کے بجائے اسے اپنے مفادات کی تکمیل کا ایک ذریعہ سمجھ رہے تھے۔ بعض ماہرین کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ بھارت کا ایٹمی پروگرام اس کی چین سے مخاصمت کا ثمر ہے جس کے لیے امریکہ اور اتحادیوں نے بھرپور معاونت فراہم کی۔ جب امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک نے خود ہی بھارت کو دنیا کی چند بڑی فوجی طاقتوں کے کلب میں شامل کر رکھا ہے تو پھر خود ہی سوچئے کہ بندرکے ہاتھ میں ماچس دینے کے بعد تنازع کشمیر پر بھارت کو کون مذاکرات کی میز پر لا سکتا اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے؟ شاید امریکہ و مغرب کو ایک ایسی جنگ کا انتظار ہے جو عالمی امن کو اس طرح ادھیڑ کر رکھ دے کہ اس کی آگ میں بہت سے خطے جلنے لگیں۔ بھارت بڑی آبادی اور بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے کسی کے کنٹرول میں نہیں رہا۔ اگر وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن گیا تو پھر ایک بھر پور جنگ کے سوا‘ کشمیری مسلمانوں پر ظلم و جبر کے قہر ڈھانے سے ہندوتوا کو کیسے روکا جا سکے گا؟ کیا دنیا اس منظرنامے کیلئے تیار ہے؟
امریکی صدر نے سلامتی کونسل کی مستقل نشست بڑھانے کیلئے اپنی دل کی بات تو کر دی لیکن کیا بھارت جیسے غاصب اور مذہبی انتہا پسند کے ہاتھوں میں ویٹو جیسی طاقت تھمائی جا سکتی ہے؟ مقبوضہ کشمیر اگر عالمی طاقتوں کیلئے مسئلہ نہیں رہا تو پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سکیورٹی کونسل اور دنیا کے ہر فورم پر پیش کیے جانے والے تمام بڑی طاقتوں کے تاثرات و خیالات، سفارتی مشنز اور میڈیا کے ریکارڈز عجائب گھروں میں رکھوا دیے جائیں؟ پرویز مشرف دور میں برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا پاکستان آئے تو 26 مارچ2004ء کو پشاور یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سنٹر میں پاک برطانیہ تعلقات پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ''پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947ء سے چلا آ رہا تنازعِ کشمیر اگر حل کر لیا جائے تو اس سے نہ صرف مشرق و مغرب بلکہ اسلام اور مغرب میں پیدا ہونے والے فاصلے بھی ختم ہو جائیں گے۔ کیا یہ سوچ اب ختم ہو چکی ہے؟ امریکی صدر بل کلنٹن اور امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ کی جانب سے متعدد عالمی فورمز پر ثالثی کی پیشکش کے بعدامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر ہیوسٹن اور ممبئی میں نریندر مودی کے ترتیب دیے گئے جلسوں میں دنیا بھر کو مخاطب کرتے ہوئے کشمیر پر پاکستان ا ور بھارت میں ثالثی کرانے کی بار بار پیشکشیں کر رہے تھے تو اس کی بنیادی وجہ عمران خان کی کشمیر کیلئے وہ پالیساں تھیں کہ جن میں صاف کہاگیا تھا کہ کشمیر کاز کیلئے کسی قسم کی مصلحت یا گریز کی امید نہ رکھی جائے۔ جب وائٹ ہائوس میں عمران‘ ٹرمپ ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے میڈیا کے سولات کے جواب میں کشمیر پر بھارت ا ور پاکستان کے مابین ثالثی کی پیشکش کی تو بھارت ٹرمپ کی اس پیشکش پر ایسے ہی سیخ پا نہیں ہوا تھا۔ اس وقت بھارتی میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ کشمیر ہمارا دو طرفہ معاملہ ہے‘ کسی تیسرے فریق کی مداخلت بھارت کو قبول نہیں۔ مگر پھر جب اسی بھارت اور مودی کی دُم پر چین نے لداخ میں پائوں رکھ کر دبایا تو اپنے وزیر دفاع راج ناتھ کو امریکی تعاون سے روس بھیج کر گڑگڑاتے ہوئے بھیک مانگی گئی کہ ہمیں چین سے بچائو۔ کیا ان سارے واقعات سے یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ بھارت صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے؟
28 جون 2005ء کو واشنگٹن میں بھارت کو ہر قسم کے جدید ترین اسلحے سے لیس کرنے کے معاہدے پر دستخط کر تے ہوئے انڈر سیکرٹری ڈیفنس ریڈ اکلے، امریکی تھنک ٹینک اور کارنیگی انڈوومنٹ کی جن تجاویزکی منظوری دی گئی ان میں یہ تجاویز بھی شامل تھیں کہ چین کے غلبے کو روکنے کیلئے بھارت کی فوجی اور اقتصادی ترقی کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین طاقت کے توازن کے پُرفریب تصور کو ختم کیا جائے۔ اقوام متحدہ، جی ایٹ اور انٹرنیشنل ایجنسیز میں بھارتی رکنیت کی توثیق کی جائے۔ امریکی صدر اوباما کے بھارت نواز فیصلوں کے بعد بائیڈن انتظامیہ بھی اسی پالیسی پر چل رہی ہے۔ امریکی پالیسی ساز شاید یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست اور اسلحے کا انبار دینے سے بر صغیر میں امن کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ بھارت کے ہمسایہ ممالک اور سارک ممالک کی فہرست کو سامنے رکھ کر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کون سا ملک ہے جسے بھارت اپنی کالونی کی حیثیت نہیں دینا چاہتا۔ اگر طاقت کے توازن کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھارت کے حق میں کرنے کی سنگین غلطی کی تو اس کی قیمت بر صغیر ہی کو نہیں بلکہ دنیا بھر کو چکا نا پڑے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved