جینے کے لیے کیا درکار ہوتا ہے؟ خالص حیوانی سطح پر سوچیے تو زندگی کھانے‘ پینے اور سونے‘ جاگنے کا نام ہے۔ انسان بھی حیوان ہی ہے۔ ہر جاندار کی طرح انسان کے لیے بھی کھانا اور سونا ناگزیر ہے۔ بہت سوں کو آپ اِسی سطح پر جیتے ہوئے پائیں گے۔ یہ مرضی کا سودا ہے۔ اگر کوئی طے کرلے کہ اُسے خالص حیوانی سطح پر جینا ہے تو پھر کچھ خاص مشکل رہتی نہیں۔ حیوانی سطح پر جینے کا آپشن بہت سی ذمہ داریوں سے آزاد کردیتا ہے۔ جب انسان یہ طے کر لیتا ہے کہ اُسے کچھ نہیں بننا اور کچھ نہیں کرنا تب صرف گزارے کی سطح رہ جاتی ہے۔ اِس سطح پر رہتے ہوئے جینا کسی بھی دور میں کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ اگرچہ چند ایک مشکلات تو ہیں مگر مجموعی طور پر آسانی زیادہ ہے۔ آسانی یہ کہ نہ زیادہ سوچنا پڑتا ہے نہ خود کو بدلنا پڑتا ہے۔ اب اِس سے آسان زندگی بھلا کیا ہوسکتی ہے!
زندگی دو اور دو چار کا معاملہ ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم کبھی زندگی کو پونے چار دیکھنا چاہتے ہیں اور کبھی سوا چار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قدرت نے ہمارے لیے معیاری زندگی کا جو ڈھانچا طے کیا ہے وہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ اُس کے مطابق ہمیں تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ قدرت نے جو کچھ طے کیا ہے وہ زمین کے آخری دن تک کے لیے ہے۔ اُسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اُس کے مطابق خود کو بدل لینے ہی میں عافیت اور آسانی ہے۔ قدرت نے ہمارے لیے آسانیاں کی راہ نکالی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق خود کو بدلتے ہیں‘ وہی اس کے ہاں مقبول ٹھہرتے ہیں۔
زندگی آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف رہنے کا نام ہے۔ قدرت کو ہم سے یہی مطلوب ہے۔ ہمارے لیے یومیہ معمولات کا جو ڈھانچا تیار کیا گیا ہے اُس کے مطابق جینے میں سراسر آسانی ہے۔ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد سونا پسندیدہ خیال نہیں کیا گیا، بلکہ انسان کو اس وقت اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنا چاہیے یعنی معاشی سرگرمیوں کا آغاز کردینا چاہیے۔ اِس طور کام کرنے سے انسان ظہر کی نماز تک کام کاج سے فارغ ہوکر ایسی حالت میں گھر واپس پہنچ سکتا ہے جب دن کا اچھا خاصا حصہ ابھی بچا ہوا ہو۔ اِسے کہتے ہیں دو اور دو چار۔ زندگی کو آسان بنانے کے بارے میں سوچتے رہنا ہر اُس انسان کے لیے ناگزیر ہے جو اپنے لیے زندگی میں زیادہ سے زیادہ مقصدیت چاہتا ہو۔ ہم میں سے بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ سوچے سمجھے بغیر جیے جاتے ہیں۔ زندگی اس طور بسر کرنے کے لیے عطا نہیں کی گئی۔ ہمیں دن رات اپنے لیے ایسا ڈھانچا اور سانچا تیار کرنا ہے جس میں رہتے ہوئے ہم بامقصد زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔ صبر و شکر زندگی کی انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ ہر اُس انسان کے لیے ناگزیر ہے جو کچھ پانا چاہتا ہو اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کا بھی طالب ہو۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اِس میں ہے کہ جو کچھ بھی ہمیں عطا کیا گیا ہے اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے صبر کریں یعنی اپنی جگہ ڈٹے رہیں، پیچھے نہ ہٹیں۔ اس راہ پر چل کر ہی انسان کچھ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ دو اور دو چار کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو جن اصولوں کے تحت خلق کیا گیا ہے اُن سے ہم آہنگ ہوکر چلنا چاہیے، اُن کے خلاف جاکر اپنے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
جس نے ہمیں خلق کیا ہے وہ ہستی ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں چاہتی ہے۔ آسانیوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی فرصت مل جائے۔ ہم جس قدر بھی جہد و کاوش کریں اُس میں آسانی ہونی چاہیے یعنی کوئی بھی مشکل بلا جواز طور پر ہماری زندگی میں دخیل نہ ہو۔ پوری دیانت سے اور غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت نے تو قدم قدم پر آسانیوں کی گنجائش پیدا کی ہے مگر ہم اپنے معاملات کو، اپنی مرضی اور شعوری کوشش سے، مشکل تر بناتے جاتے ہیں۔ اس میں کچھ تو بے ذہنی کا ہاتھ ہے یعنی ہم سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور کچھ بے دِلی کا معاملہ بھی ہے یعنی ہم بہت سے معاملات کو خاصی بیزاری سے انجام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے نتائج جب ہماری مرضی کے خلاف برآمد ہوتے ہیں تب ہم حیران رہ جاتے ہیں۔ اصولی طور پر تو ہمیں حیران ہونا ہی نہیں چاہیے۔
شعور سے کام لینا ہر انسان پر فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو شعور سے کام لینے کا ذمہ دار بنایا ہے۔ کسی بھی دوسرے جاندار پر اس حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں۔ انسان کو دیکھنے ہی کی نہیں بلکہ سمجھنے، سوچنے اور کچھ طے کرنے کی صفت بھی عطا فرمائی گئی ہے۔ اس صفت کو بطریقِ احسن بروئے کار لانا ناگزیر ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انسان ادھورا رہتا ہے۔ کسی بھی معاملے کو شعورکے استعمال سے گریز کرتے ہوئے نمٹانے کی کوشش بالعموم خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ یومیہ بنیاد پر ایسے بہت سے معاملات ہماری زندگی میں رونما ہوتے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ہمیں شعور سے کام لینا پڑتا ہے۔ یہ سب ہمارے اپنے مفاد کا سودا ہے۔ شعور سے کام لینے کی صورت ہی میں زندگی کا گلاب کانٹوں سے پاک ہو پاتا ہے۔ شعور ہی کی بدولت ہم اپنے لیے کوئی راہ متعین کر پاتے اور اُسے ہموار رکھنے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔
شعور کو بروئے کار نہ لانے کا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے ماحول ہی میں آپ کو قدم قدم پر ایسے لوگ ملیں گے جو شعور سے یا تو مکمل بے بہرہ رہنا پسند کرتے ہیں یا پھر شعور کے حامل ہوتے ہوئے بھی اُسے بروئے کار لانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کے لیے عبرت کی مثال ہوتے ہیں۔ اِن کی طرزِ زندگی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ انسان اِنہیں دیکھ کر کم از کم یہ تو سیکھ ہی سکتا ہے کہ مکمل ناکامی سے کس طور بچا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ شعور سے محروم زندگی بسر کرکے ہمیں بتاتے ہیں کہ زندگی کو بارآور بنانا ہے تو باشعورزندگی کی بنیادی قدر کے طور پر اپنائیے۔ ہر دور چند تقاضوں کے ساتھ وارد ہوتا ہے۔ اور ایک بنیادی تقاضا تو بہرطور موجود ہوتا ہے یعنی شعور کو بروئے کار لانا۔ اس بنیادی تقاضے کو نبھانے سے بچنے کی ہر کوشش ہماری زندگی کو کبھی پونے چار بناتی ہے اور کبھی سوا چار۔ آپ بھی چاہتے ہوں گے کہ زندگی دو اور دو چار کے بنیادی اصول کی بنیاد پر استوار رہے مگر محض خواہش کرلینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ سوال کوشش کا ہے۔ پوری دیانت اور جاں فشانی سے شعور کو بروئے کار لانے ہی میں ہر شخص کی فلاح مضمر ہے۔ ہم زندگی جیسے عظیم معاملے کو بالعموم اس قابل نہیں گردانتے کہ اُس پر زیادہ توجہ دی جائے۔ جینے کا ایک معاملہ تو یہ ہے کہ جیسے تیسے دنوں کی گنتی پوری کیجیے۔ زندگی دنوں کی گنتی پوری کرنے کا معاملہ نہیں۔ یہ خالص شعوری معاملہ ہے۔ اِسے شعور کی سطح ہی پر قبول کیا جانا چاہیے۔
قدرت نے جن اصولوں کی بنیاد پر یہ کائنات اُستوار کی ہے اُن سے رُو گردانی ہمارے لیے صرف بگاڑ پیدا کرسکتی ہے۔ ہم اپنی اپنی زندگی کا پوری دیانت سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ جب جب ہم نے دو اور دو چار کے اصول سے رُو گردانی کی تب تب صرف بگاڑ پیدا ہوا۔ یہ ہونا ہی تھا۔ جو کچھ قدرت نے ہمارے لیے طے کیا ہے وہی ہمارے مفاد میں ہے۔ اُس سے ہٹ کر کچھ بھی کرنا ہمارے لیے صرف خرابی کا سامان کرسکتا ہے۔
ہم جس عہد کا حصہ ہیں اُس کے چند بنیادی تقاضوں میں شعور کا استعمال سرِفہرست ہے۔ جس نے بھی شعور سے کام لینے میں بخل کا مظاہرہ کیا وہ برباد ہوا، پیچھے رہ گیا۔ قدرت نے جس چیز کو جس مقام پر رکھا ہے اُسے وہیں رکھنے میں ہماری فلاح مضمر ہے۔ زندگی کے تمام معاملات کے مجموعے کو کچھ کا کچھ بنا دینا دانائی نہیں۔ زندگی سے خواہ مخواہ کھلواڑ کی اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ بہتر یہی ہے کہ دو اور دو کا مجموعہ چار رہنے دیا جائے۔ اس مجموعے کو سوا چار یا پونے چار بنانے کی ہر کوشش صرف خرابیاں پیدا کرسکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved