گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں عمران خان صاحب کا خطاب سیاسی کلچر اور نئی نسل کی اخلاقی بربادی کی طرف ایک اور قدم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے بعد‘ اب تعلیم بھی تقسیم کی زد میں ہے۔ خاکم بدہن‘ منزل اب زیادہ دور نہیں۔
سماج میں پھیلتے اخلاقی زوال ہی کو میں نے اپنے کالم کا موضوع بنانا تھا مگراس کا محرک لندن میں مریم اورنگزیب صاحبہ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ تھا۔ لکھنے کو بیٹھا تو سامنے ٹی وی سکرین پر نظر پڑی۔ عمران خان صاحب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں خطاب فرما رہے تھے۔ طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد ان کا مخاطب تھی۔ ان کے الفاظ کانوں میں پڑے تو میں نے محسوس کیا کہ جو بات میں لکھنے بیٹھا ہوں‘ اس تقریر نے‘ اسے مزید ضروری بنا دیا ہے۔
مریم اورنگزیب صاحبہ کے ساتھ لندن میں جو سلوک روا رکھا گیا اس کی کوئی اخلاقی یا سیاسی توجیہ ممکن نہیں۔ شرط یہ ہے کہ کوئی کسی نظامِ اخلاق پر یقین رکھتا ہو۔ اور اگر کسی کے نزدیک اخلاق‘ تہذ یب بے معنی الفاظ ہیں جو لغت میں اضافی ہیں یا محض زیبِ داستان کے لیے شامل کر دیے گئے ہیں تو وہ ایسے رویوں کے لیے بھی دلیلیں تراش سکتا ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمایا: اگر تم میں حیا نہیں تو پھر جو چاہو کرو۔
سیاسی جماعتیں قیادت کی سطح پر‘ اپنا موقف عوام کے سامنے رکھتی ہیں۔ اس میں تیزی اور تندی بھی ہوتی ہے۔ الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ بھی چل نکلتا ہے۔ میں اگرچہ اس سطح پر بھی حدود سے تجاوز کو درست نہیں سمجھتا‘ مگر سیاسی فریق جانتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی عمل ہے جو سماجی تعلقات یا ماحول پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اہلِ سیاست‘ سیاسی مناظرہ بازی کے باجود ایک دوسرے سے ملتے‘ گفتگو اور ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ یہی نہیں شادی اور غم کے موقعوں پر ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے ہیں۔ اس رویے سے کارکنوں کی سطح پر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ روزمرہ زندگی میں عوام کو کس طرح رہنا چاہیے۔ سماجی تعلقات‘ سیاسی وابستگی سے بلند تر ہوتے ہیں اور انہیں پڑوسی اور رشتہ داری کے حقوق پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ یہی نہیں‘ دوسری جماعت کے سیاسی رہنماؤں کا احترام کرنا چاہیے۔ سیاسی رہنماؤں کے مابین اگر کوئی تلخی ہو جائے تو عوام کو اس سے دور رکھا جاتا ہے۔
جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے تعلقات میں بہت تلخی تھی۔ 1970ء کے انتخابات میں تو یہ اختلاف کفر و اسلام کی جنگ بن گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے وزیراعظم بننے کے بعد جماعت اسلامی کے متعلقین سے جو سلوک روا رکھا‘ وہ تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہو چکا۔ میاں طفیل محمد مرحوم جس اذیت سے گزرے‘ سیاسی تاریخ کا ہر طالب علم اس سے واقف ہے۔ 1977ء میں جب بھٹو صاحب کی انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کی تحریک عروج پر تھی تو انہوں نے مولانا مودودی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ جماعت اسلامی اس تحریک کی روحِ رواں تھی۔ جب یہ خبر پھیلی تو اسلامی جمعیت طلبہ نے اچھرہ لاہور میں مولانا مودودی کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کا فیصلہ کیا‘ جہاں بھٹو صاحب ملاقات کے لیے آ رہے تھے۔ مولانا کو معلوم ہوا تو اس پر سخت ردِ عمل کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ بھٹو صاحب ہمارے مہمان ہیں اور ان کی تکریم ہم پر لازم ہے۔ مولانا نے درپیش بحران سے نکلنے کے لیے‘ بھٹو صاحب کو جو مشورہ دیا‘ ان کے حق میں وہی بہتر تھا۔ اگر وہ مان لیتے تو ملک کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔
لیڈر کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کی سیاسی تربیت کرے۔ وہ صرف اقتدار کے لیے تگ و دو نہیں کرتا‘ سیاسی کلچر کو بھی اپنی سماجی و اخلاقی روایت سے جوڑے رکھتا ہے۔ مولانا مودودی‘ نواب زادہ نصراللہ خان‘ ولی خان سب ان باتوں کا لحاظ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد جماعت اسلامی کے پہلے رہنما تھے جنہوں نے اہلِ اقتدار کے بارے میں قدرے سخت رویہ اپنایا۔ جماعت اسلامی کے حلقوں کے لیے ابتدا میں یہ لب و لہجہ حیران کن اور اجنبی تھا۔ انہوں نے تو مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد صاحب کی زبان سے مخالفین کے نام 'صاحب‘ کے لاحقے کے ساتھ ہی سنے تھے۔
بھٹو صاحب کے مزاج میں فسطائیت تھی۔ اس کی یہ افتادِ طبع ان کی جماعت کے کلچر پر اثر انداز ہوئی لیکن بعد کے ادوار میں پیپلز پارٹی کی سیاست میں ٹھہراؤ اور بہتری آئی۔ میرا احساس ہے کہ اس میں بے نظیر بھٹو صاحبہ کی کاوشوں کا دخل ہے جنہوں نے باپ کے مقابلے میں زیادہ جمہوری سیاست کی۔ مسلم لیگ نے ان کے خلاف سخت مہم چلائی لیکن اس کے باوجود انہوں نے نواز شریف صاحب کے ساتھ 'میثاقِ جمہوریت‘ کیا۔ فوج کے ساتھ تلخ ماضی کے باوجود‘ جنر ل اسلم بیگ کو تمغۂ جمہوریت دیا اور اس اہم ادارے کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تاکہ تلخیاں ماضی میں دفن ہو جائیں اور سیاسی کلچر زیادہ جمہوری ہو۔ نواز شریف صاحب کی سیاست بھی بہت بہتر ہوئی۔ 2013ء میں‘ جب وہ اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بنے تو انہوں نے روادار اور باہمی احترام کی سیاست کو فروغ دیا۔
عمران خان صاحب نے سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ اس سیاسی کلچر کو بر باد کر دیا۔ سیاسی انتہا پسندی پیدا کی اور نئی نسل میں ہیجان پیدا کرکے اسے اخلاق باختہ بنا دیا۔ یہ نقصان اس ضرر سے کسی طور کم نہیں جو مذہبی انتہا پسندی نے ہمیں پہنچایا۔ مذہبی فرقے اور مسالک پہلے بھی تھے مگر ان کے نام پر قتل و غارت گری نہیں ہوتی تھی۔ جب مذہب میں انتہا پسندی آئی تو سماج بر باد ہوگیا۔
مذہبی گروہوں کی مثل‘ اس ملک میں سیاسی جماعتیں اور گروہ موجود ہیں۔ جب مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی طرح‘ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو انتہا پسند بنایا جائے گا تو سیاسی مخالفین کے ساتھ ان کا رویہ وہی ہوگا جو مذہبی کارکنوں کا دوسرے مسلک یا فرقے کو ماننے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مریم اورنگزیب صاحبہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا‘ یہ اس کا ایک مظہر ہے۔ گویا جو مذہب کی دنیا میں ہوا‘ اب لازم ہے کہ سیاست کی دنیا میں بھی ہو اور اس کا آغاز ہو چکا۔ اب حکومتِ پنجاب نے اس رجحان کے فروغ کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں کے دروازے بھی خان صاحب کے لیے کھول دیے ہیں۔ خان صاحب کی تقریر کا مضمون اور لب و لہجہ وہی تھا جو موچی دروازے کا ہوتا ہے۔ خان صاحب نوجوانوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی انقلاب کے لیے اسی طرح اٹھیں جس طرح ویت نام کے نوجوان اٹھے تھے۔ یہ نوجوانوں کو کھلم کھلا تشدد کا راستہ دکھانا ہے۔ ویت نام میں یہی ہوا تھا۔
سیاسی لیڈر بے راہ ہو جائیں تو یہ معاشرے کے اہلِ علم اور دانشور طبقہ ہے جو سماج کو بربادی سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر کیا نہیں جانتے کہ تعلیمی اداروں میں جب اس طرح کی گفتگو ہونے لگے تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ جن کی ذمہ داری ہی یہ ہو کہ وہ نئی نسل کو اخلاقی بگاڑ سے بچائیں‘ اگر وہ اپنی قومی ذمہ داری سے لاپروا ہو جائیں تو کیا اس کے بعد سماج کے بچنے کا کوئی امکان باقی رہتا ہے؟
سماج اور ریاست کی بربادی کا عمل مختلف اداروں اور مراحل سے ہوتا ہوا‘ اب تعلیم تک بلکہ اپنے انجام تک پہنچ چکا۔ منزل سامنے دکھائی دے رہی ہے۔ جسے ابھی نظر نہیں آرہی اسے بھی شاید زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ عنقریب وہ بھی بچشمِ سر دیکھ لے گا‘ اگر اس سلسلے کو روکا نہ گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved