پاکستان میں ہر اَنہونی کو ہونی اور ہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں معصومیت کے پردے میں کوئی بھی واردات ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران میں نے ٹرانس جینڈر کے موضوع پر تحقیق و جستجو کی تو کئی بھیانک اور تشویشناک پہلو سامنے آئے۔ سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد 2018ء سے نافذ العمل ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ضروری ترامیم کیوں لے کر آئے ہیں؟ کلامِ شاعر بزبانِ شاعر کے مصداق ہم نے سینیٹر مشتاق احمد سے براہِ راست پوچھا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کیا ہے اور آپ نے اس میں کیوں ترامیم پیش کی ہیں؟ مشتاق صاحب نے بتایا کہ اس ایکٹ کا بِل مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کے دوران سینیٹ میں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن)‘ مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کی چار خواتین نے پیش کیا تھا۔ 7 مارچ 2018ء کو یہ بل سینیٹ اور مئی 2018ء کو قومی اسمبلی سے پاس ہو کر نافذ العمل ہو گیا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے 11 مارچ 2018ء کو سینیٹ کا حلف اٹھایا تھا۔
بظاہر یہ بل ٹرانس جینڈر کے حقوق کے تحفظ کے لیے تھا۔ عرفِ عام میں ٹرانس جینڈر‘ مخنّث یا ہیجڑا اس شخص کو کہتے ہیں جو پیدائشی طور پر نہ مرد ہو اور نہ عورت۔ اُس کے جنسی اعضا میں ابہام ہو۔ انگریزی میں اس کے لیے بہتر لفظ انٹرسیکس ہے۔ ٹرانس جینڈرز کے حقِ تعلیم‘ حقِ ملازمت‘ حقِ وراثت اور حقِ عزّت و احترام سے کسی کو اختلاف نہیں‘ مگر بل میں دو اور اقسام کے لوگوں کو ٹرانس جینڈر کی تعریف میں شامل کر لیا گیا۔ دوسری قسم میں اُن لوگوں کو شامل کیا گیا جو پیدائشی طور پر مرد تھے مگر بعد میں کسی حادثے یا کسی دوا کے زیرِ اثر اُن کے جنسی اعضا غیرواضح ہو گئے۔
اصل کام ٹرانس جینڈر کی تیسری قسم میں دکھایا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ ایکٹ کی رو سے جنس کے تعین کا اختیار خواتین و حضرات کی ذاتی صوابدید پر ہوگا۔ ایک شخص مرد پیدا ہوا اور نادرا سمیت ہر ریکارڈ میں اس کا اندراج بطور مرد ہے؛ تاہم بعد میں وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے اندر عورتوں جیسے خیالات‘ احساسات اور میلانات ہیں مگر بدستور وہ جسمانی طور پر مرد ہی ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ چاہے تو نادرا کے ریکارڈ میں اپنا اندراج بطور عورت کروا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک عورت اپنے احساسات و میلانات کی بنا پر نادرا میں اپنا اندراج بحیثیت مرد کروا سکتی ہے۔ جب کوئی فرد حقیقی جنسی اعضا کے برعکس اپنی پسند کی جنس اختیار کرے گا تو تمام قانونی دستاویزات بشمول نادرا اور پاسپورٹ وغیرہ میں اس کا اندراج اس کی پسند کی جنس میں کر دیا جائے گا۔
اس بل کے لانے والوں نے یہ تک نہ سوچا کہ اس کے ہمارے نظام وراثت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ عورت کا شریعت میں نصف حصّہ ہے‘ اگر وہ نادرا کے ریکارڈ میں مرد ڈکلیئر ہو جاتی ہے تو پھر اسے مکمل حصہ ملنا چاہیے۔ اس تبدیلی کے ہماری عائلی زندگی پر نہایت منفی اثرات پڑیں گے۔ مرد کے شناختی کارڈ والے شخص سے انجانے میں شادی کرنے والی عورت کا کیا ہو گا؟ ایک مرد اگر محض اندراج سے عورت بن جاتا ہے اور عورتوں جیسا گیٹ اَپ اختیار کر لیتا ہے تو پھر وہ عورتوں کے لیے مخصوص مقامات جیلوں‘ تعلیمی اداروں‘ ہاسٹل اور واش رومز وغیرہ کے استعمال کا حق حاصل کر لیتا ہے۔ اپریل 2022ء میں امریکی ریاست نیوجرسی میں واقع خواتین کے لیے مختص جیل میں ایک عورت ٹرانس جینڈر‘ جو دراصل مرد تھا‘ کی گھاتوں اور وارداتوں کے نتیجے میں دو قیدی عورتیں امید سے ہو گئیں۔
لوگ جب اپنی مرضی سے اپنی جنس کا تعین کریں گے تو یہاں کیا قیامت برپا ہو گی اس کا ہمارے ''روشن خیالوں‘‘ کو کوئی اندازہ نہیں۔ یہ محض خدشات نہیں بلکہ سینیٹ کو نادرا کی طرف سے بتائے گئے جواب کے مطابق 2018ء کے بعد سے تین برسوں میں نادرا کو تبدیلیٔ جنس کی قریباً 31 ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ان میں سے 16530 مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کروائی جبکہ 15154عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کروائی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس ایکٹ میں ملک کی چار بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے لبرلز کے چکمے میں آ کر وہ شق ایکٹ میں درج کروا دی جس کے نتیجے میں اب دو ہم جنس پرست مردوں میں سے ایک خود کو عورت کا اندراج کروا کے عملِ قوم لوط اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دہرائیں گے جبکہ دو ہم جنس پرست عورتوں میں سے ایک بحیثیت مرد اندراج کروا کے اپنی خلافِ فطرت خواہشات کی تکمیل بلاروک ٹوک کر سکیں گی۔ اس ایکٹ پر عملدرآمد کے نتیجے میں اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہو گی کیونکہ قومِ لوط پر پتھروں کی بارش کا عذاب ہم جنس پرستی کے قبیح فعل کا ہی نتیجہ تھا۔ آزادانہ تبدیلیٔ جنس کا ایکٹ ایک طرف قرآن و سنت کے قانونِ وراثت کی شدید خلاف ورزی اور دوسری جانب خوفناک خاندانی لڑائیوں اور مخاصمتوں کا موجب بنے گا۔
سینیٹر مشتاق احمد ساری قوم کے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ٹرانس جینڈر کے حقوق کے نام پر لبرلز کی طرف سے ہم جنس پرستی کا فلڈ گیٹ کھولنے کی واردات کو پکڑا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں ایوان اور ساری قوم کو بتایا کہ وہ اصل ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے بہت بڑے داعی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ پشاور میں اہلِ جماعت کے ساتھ مل کر ٹرانس جینڈرز کے ایک جدید ترین ادارے کے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ اس ادارے میں ٹرانس جینڈرز کو تعلیم دی جائے گی۔ انہیں کمپیوٹر سمیت مختلف ہنر سکھائے جائیں گے تاکہ انہیں معاشی خودمختاری حاصل ہو اور وہ معاشرے میں باعزت مقام پا سکیں۔ انہیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی عملی تربیت دی جائے گی۔ البتہ سینیٹر مشتاق احمد اس مظلوم طبقے کی آڑ میں ہم جنس پرستی کے مغربی کلچر کو فروغ دینے والوں کا قانون سازی کے ذریعے راستہ روکنے کا عزمِ صمیم رکھتے ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے ترمیمی بل میں جنس کی تبدیلی کو میڈیکل بورڈ کے سرٹیفکیٹ سے مشروط کرنے کی شق شامل کی ہے۔ بورڈ کسی بھی فرد کے اوہام یا خیالات کی بنا پر نہیں اس کی جسمانی ساخت پر اس کی جنس کا یقین کرے گا۔ اس میڈیکل بورڈ میں ایک پروفیسر‘ ایک مرد سرجن‘ ایک لیڈی سرجن اور ایک ماہرِ نفسیات شامل ہو گا۔ سینیٹر مشتاق احمد کا ترمیمی بل قرآن و سنت اور عقل و منطق کے عین مطابق ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے علاوہ علمائے کرام کی طرف سے سینیٹر مشتاق احمد کے ترمیمی بل کی حمایت کی جا رہی ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ عقل و خرد سے عاری اور ''معاشرتی تخریب کاری‘‘ کی یہ شق ٹرانس جینڈر ایکٹ میں کیسے نہ صرف داخل کر دی گئی بلکہ منظور بھی کروا لی گئی تھی۔ اگر کل کلاں کوئی شخص یہ دعویٰ کر دیتا ہے کہ وہ مرد نہیں بلکہ شیر ہے تو کیا آپ اسے چڑیا گھر کے شیروں کے پنجرے میں چھوڑ آئیں گے یا اسے نفسیاتی امراض کے ہسپتال میں داخل کروائیں گے؟ یہی رویہ مرد ہوتے ہوئے اپنے آپ کو عورت سمجھنے والوں اور عورت ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مرد سمجھنے والیوں کے بارے میں معاشرے اور ریاست کو اختیار کرنا ہوگا۔ منظور شدہ ٹرانس جینڈر بل کی محرک چاروں‘ سیاسی جماعتوں کو اس غلطی کی تصحیح کے لیے سجدۂ سہو ادا کرنے میں ہرگز تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved