وزیراعظم ہاؤس کی آڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد قومی سلامتی کے معاملات پر سوالات پیدا ہو گئے ہیں کہ کیا وزیراعظم ہاؤس اتنا غیر محفوظ ہے کہ وہاں ہونے والی گفتگو کہیں اور سنی جا سکتی ہے۔ اگر وزیراعظم ہاؤس محفوظ نہیں ہے تو پھر عام شہری کیسے محفوظ رہ سکتا ہے‘ کسی بھی وقت اس کی رازداری کا پردہ چاک کیا جا سکتا ہے۔ وزیر داخلہ کے بقول وزیراعظم نے اس حساس معاملے کا نوٹس لیا ہے اور تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے جس میں تمام ایجنسیاں شامل ہوں گی۔ آڈیو میں روٹین کی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں ہے بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے آڈیو لیک کیسے ہو گئیں؟ فوری تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین ہی مسئلے کا حل ہے۔ اس ضمن میں تاخیر معاملے میں مزید شکوک و شبہات پیدا کرے گی۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے آڈیو کلپس ڈارک ویب پر فروخت کیلئے موجود ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس سے لیک ہونے والے آڈیو کلپس موجودہ حکومت سے متعلق ہیں‘ جس کی مدت محض چند ماہ بنتی ہے‘ اس سے پہلے وزیراعظم ہاؤس کے مکینوں کی کوئی گفتگو سامنے نہیں آئی۔ آڈیو لیکس کی ٹائمنگ بھی اہم ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ بیرونی دوروں میں سیلاب متاثرین اور پاکستان کا مقدمہ عالمی برادری کے سامنے خوش اسلوبی سے پیش کیا۔ آڈیو لیکس کے پس پردہ یہ مقاصد بھی ہو سکتے ہیں کہ جب وزیراعظم ملک واپس پہنچیں تو اپنی کامیابیوں کا ذکر کرنے کے بجائے آڈیو لیکس کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہو جائیں۔
آڈیو لیکس بارے عمومی خیال یہ ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں جاسوسی آلات کو نصب کرکے گفتگو کو ریکارڈ کیا گیا۔ گفتگو سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پروپیگنڈا زیادہ کیا جا رہا ہے جبکہ لیک ہونے والی گفتگو حکمران جماعت کے حق میں ہے۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ مریم نواز نے ان سے اپنے داماد کو بھارت سے پاور پلانٹ کیلئے مشینری درآمد کرنے میں سہولت فراہم کرنے کیلئے کہا تھا۔ توقیر شاہ نے مزید کہا کہ درآمد میں سہولت کے باعث تنازع پیدا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ وہ مریم کو اس صورتحال سے آگاہ کریں اور وہ خود بھی ان سے بات کریں گے۔ وزیراعظم اور ان کے پرنسپل سیکرٹری کے درمیان ہونے والی گفتگو حکومت کی ساکھ اور امور کی انجام دہی کیلئے میرٹ کی بالادستی پر مہر ثبت کر رہی ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جن مقاصد کیلئے آڈیو لیکس کی گئی ہیں وہ مقاصد حاصل نہ ہو سکیں گے‘ نہ ہی ان آڈیوز کو قانونی طور پر کہیں چیلنج کیا جا سکے گا۔
تحریک انصاف آڈیو لیکس کی آڑ میں سیاست کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘ جس کا آغاز ان کے حامی سوشل میڈیا پر کر چکے ہیں۔ کرک جلسہ میں عمران خان نے اپنی تقریر میں حکمران جماعت پر شدید تنقید کی۔ اس پس منظر میں تین باتیں واضح ہو جاتی ہیں‘ ایک یہ کہ آڈیو لیکس میں کوئی منفی بات یا منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی‘ دوسرے یہ کہ آڈیو لیکس کا فائدہ کسے ہو سکتا ہے؟ تیسرے یہ کہ وزیراعظم ہاؤس کے پہلے مکینوں کی آڈیو لیکس سامنے کیوں نہیں آئیں؟ ان پہلوؤں کا بنظرِ عمیق جائزہ لینے کے بعد موجودہ حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ البتہ یہ قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی طرف اشارہ اور انٹیلی جنس ناکامی ضرور ہے جس کا خمیازہ بہرصورت حکومت اور ملک کو بھگتنا پڑے گا۔ آئی ٹی ماہرین کا خیال ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں ممکنہ طور پر کسی شخص کا فون ہیک کرکے لوکیشن کی مدد سے فون میں موجود ہاٹ مائیک سے ریکارڈنگ کی گئی ہے۔ آئی ٹی کے ماہر اور پنجاب میں ڈیجیٹل اصلاحات متعارف کرانے والے عمر سیف کے مطابق پاکستان کی سائبر سپیس محفوظ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس سائبر سپیس میں ہونے والی ترقی کے ساتھ چلنے کی صلاحیت ہی نہیں‘ یہ ایک قومی اہمیت کا مسئلہ ہے جس طرف توجہ نہیں دی جا رہی‘ ہمیں سیاسی معاملات کو ایک سائیڈ پر رکھ کر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سائبر سکیورٹی کے مسائل پر کیسے قابو پایا جائے۔ وزیراعظم ہاؤس بائیس کروڑ عوام کا نمائندہ ہے جس پر کسی ایک سیاسی جماعت کو حق حاصل نہیں‘ اگر وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی پر حملہ ہوا ہے تو بلاتفریق اس کی مذمت ہونی چاہیے مگر یہاں بعض لوگوں کو سیاست کا موقع مل گیا ہے‘ اس رویے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ انڈی شیل نے 20اگست 2022ء کو ان آڈیو لیکس فائلز کے حوالے سے ڈارک ویب فورم ''بریج فورم‘‘ پر ایک پیغام پوسٹ کیا تھا‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیراعظم ہاؤس میں خفیہ ریکارڈنگ کا عمل کم از کم پچھلے ماہ سے ہو رہا تھا اور تسلی ہو جانے پر انہوں نے ڈارک ویب پر پیغام پوسٹ کیا۔ اس تمام تر عرصے میں ہمارے سکیورٹی کے ادارے اور سائبر ٹیم غفلت کی نیند سوتے رہے۔ آڈیو لیکس کے پیچھے کون سی قوتیں سرگرم ہیں یہ تشویشناک ہے کیونکہ محض سیاسی معاملات ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر ممالک کے ساتھ تعلقات‘ خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے معاملات سمیت بہت کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔ آڈیو لیکس کی تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے فوری طور پر وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی پر مامور ذمہ داران کو مبینہ ناکامی پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔
قوم ابھی سیلاب کے بحران سے نکل نہیں پائی‘ سیلاب متاثرین کیلئے سردی سے حفاظت کا فوری طور پر بندوبست کرنا ہے‘ آباد کاری بھی ایک چیلنج ہے‘ اس مقصد کیلئے پاکستان کو عالمی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے‘ وزیراعظم کے بیرونی دورے سے امید تھی کہ کسی حد تک سیلاب متاثرین کے دکھوں کا مداوا ہو سکے گا مگر یہاں ان کی آمد سے پہلے ہی نیا ایشو کھل گیا ہے۔ ایسے مشکل حالات میں اگر تحریک انصاف دھرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تو کسی بھی اعتبار سے اسے دانشمندانہ اقدام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نہ ہی زمینی حقائق دھرنے کے حق میں ہیں کیونکہ درپردہ امداد اور تعاون کے بغیر دھرنا آسان نہیں ہوتا۔ دھرنے کیلئے لوگوں کو جمع کرنا اور پھر کئی دن تک انہیں ایک جگہ پر رکھنا بڑے اخراجات کا متقاضی ہے‘ جس کیلئے اے ٹی ایم کی ضرورت ہوتی ہے‘ فی الوقت تحریک انصاف کو یہ سہولت دستیاب نہیں۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ خان صاحب دھرنے سے گریز کی راہ اختیار کریں گے اور اگلے سال تک معاملات یونہی چلتے رہیں گے۔ ہاں! اتحادی حکومت کیلئے معیشت ایک چیلنج ہے‘ معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے اسحاق ڈار کی بطور وزیر خزانہ واپسی ہو رہی ہے‘ اس ضمن میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اسحاق ڈار معاشی چیلنجز پر قابو پا لیں گے؟ ہماری دانست میں موجودہ حالات میں اسحاق ڈار بھی معاشی حالات کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ مہنگائی اب بین الاقوامی المیہ بن چکی ہے جس کے سامنے شاید اسحاق ڈار بے بس ہو جائیں گے۔ اگر اسحاق ڈار ڈالر کو نیچے لاتے ہیں تو یہ ان کی بڑی کامیابی تصور کی جائے گی‘ اس کے عوض عوام کو کسی قدر ریلیف مل سکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فوری الیکشن معاشی مسائل کا حل نہیں ہیں‘ البتہ پُرامن ماحول میں نئے انتخابات ہوتے ہیں اور انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کی حکومت سازی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جاتی تو آنے والے دور میں معاشی چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved