چند روز قبل پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک وضاحتی بیان میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ حال ہی میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے وفد نے‘ جس میں ملک کا ایک سابق وزیر بھی شامل تھا‘ اسرائیل کا جو دورہ کیا ہے اور اس دورے کے دوران وفد نے بیت المقدس میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے جو ملاقات کی ہے‘ حکومتِ پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسی قسم کا ایک بیان پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی طرف سے گزشتہ مئی میں بھی جاری کیا گیا تھا‘ جب اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ نے انکشاف کیا تھا کہ سوئٹزرلینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقع پر ان سے پاکستانیوں کے ایک وفد نے ملاقات کی تھی۔ ان پاکستانیوں کا تعلق بھی امریکہ سے بتایا جاتا ہے اور اسرائیلی صدر سے ملاقات کیلئے اس وفد کو منظم کرنے کا کام غالباً ایک غیر سرکاری تنظیم نے کیا تھا‘ جس نے حال ہی میں ایک سابق وزیر کی سرکردگی میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے ایک وفد کے دورۂ اسرائیل کا اہتمام کیا۔ اگرچہ ان دونوں مواقع پر وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے غیرمبہم الفاظ میں اسرائیل کیساتھ تعلقات کے بارے میں پاکستان کی روایتی پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کی تردید کی ہے۔ بیرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں سے اسرائیل اور خلیج فارس کی دو عرب ریاستوں عرب امارت اور بحرین کے معمول کے تعلقات کے قیام اعلان ہوا ہے‘ پاکستان پر بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اگرچہ اسلام آباد میں سرکاری سطح پر کسی قسم کے دباؤ کی سختی سے تردید کی جاتی ہے مگر سابق وزیراعظم عمران خان نے دو برس قبل مظفر آباد میں آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت پر امریکہ اور 'دیگر ممالک‘ کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اسی بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کبھی بھی اس دباؤ میں نہیں آئے گی۔
اقتدار سے الگ ہونے کے بعد مئی 2022ء میں چار سدہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم نے الزام لگایا تھا کہ موجودہ وفاقی حکومت‘ جسے وہ 'امپورٹڈ‘ حکومت کہتے ہیں‘ کو اسرائیل اور پاکستان کے درمیان تعلقات قائم کرنے کیلئے لایا گیا ہے۔ اس طرح اور خصوصاً خلیج فارس کی دو عرب ریاستوں‘ یو اے ای اور بحرین‘ کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے قیام کے بعد واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اسرائیل پاکستان کے ساتھ تعلقات کے قیام کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ''ابراہم معاہدات‘‘ جن کے تحت یو اے ای اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات قائم ہوئے ہیں‘ اسرائیل انہیں توسیع دیتے ہوئے دیگر خطوں میں بھی اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یو اے ای اور بحرین کے ساتھ قریبی تعلقات اور ''ابراہم معاہدات‘‘ پر دستخط کرنے کے عمل میں اہم کردار کے باوجود سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات سے احتراز کیا ہے بلکہ اس جانب مختلف قیاس آرائیوں کے جواب میں کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم کرنے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں‘ لیکن حالیہ واقعات اور خصوصاً امریکی صدر جوبائیڈن کے دورے کے دوران سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کئی ایسی رکاوٹوں کو ختم کر دیا گیا جو 74 برس سے قائم تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عمل کو آگے بڑھانے میں امریکہ کا اہم کردار ہے لیکن جزیرہ نما عرب اور خلیج فارس کے خطے اور اس کے بعد اسلامی دنیا میں سعودی عرب کو جو اہمیت حاصل ہے‘ اس کے پیش نظر سعودی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مبصرین کے مطابق اگرچہ سعودی عرب کا ''ابراہم معاہدات‘‘ میں خود شمولیت کا ابھی کوئی امکان نہیں تاہم ریاض کی حکومت ان میں دیگر عرب اور مسلم ملکوں کی شمولیت کی حمایت کر رہی ہے۔ جن دیگر مسلم ملکوں کو ان معاہدات میں شمولیت کی ترغیب دی جا رہی ہے ان میں اگر پاکستان بھی شامل ہے تو یہ تعجب انگیز بات نہیں ہو گی کیونکہ جغرافیائی طور پر خلیج فارس سے متصل ممالک میں پاکستان سب سے اہم ملک ہے۔ اگر بین الاقوامی میڈیا میں خلیج فارس کی عرب ریاستوں اور سعودی عرب کی طرف سے پاکستان پر اسرائیل کیساتھ تعلقات قائم کرنے پردباؤ کی اطلاعات آتی ہیں‘ تو یہ باعثِ تعجب نہیں‘ لیکن پاکستان کی کوئی بھی حکومت اس دباؤ میں آ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق میں فیصلہ نہیں کرے گی۔ اس کی تصدیق کیلئے پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات کی گزشتہ 74 سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
1950ء کی دہائی میں پاکستان کی معیشت کی جو حالت تھی وہ آج کی صورتحال کے مقابلے میں اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں تھی۔ ان خطرناک معاشی حالات کے پیش نظر پاکستان نے امریکہ کی سرپرستی میں قائم ہونے والے اینٹی سوویت یونین اور اینٹی چائنا دفاعی معاہدوں کی رکنیت اختیار کر لی تھی۔ ان میں معاہدۂ بغداد (1955ء) بھی شامل تھا‘ جس میں شمولیت کی وجہ سے پاکستان کو عالمِ عرب میں اس خیر سگالی اور حمایت سے محروم ہونا پڑا جو اس نے 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم اور ایک یہودی ریاست کے قیام کی پُر زور مخالفت کرکے حاصل کی تھی‘ مگر اس سے اگلے برس یعنی 1956ء میں جب سویز کے مسئلے پر برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر اسرائیل نے مصر پر حملہ کیا تو پاکستان کے طول و عرض میں عوامی احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے اس وقت کی پاکستانی حکومت کو اپنی ابتدائی مغرب نواز پالیسی کو ترک کرنا پڑا تھا۔ نہر سویز کے بحران سے پیدا ہونے والی کنفیوژن میں پاکستان کی مرکزی حکومت کے ایک وزیر نے پہلی دفعہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تجویز پیش کر دی‘ مگر اس پر اس قدر سخت عوامی رد عمل آیا کہ اس کے بعد اس موضوع پر کسی کو بات کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مسئلہ ایک دفعہ پھر 1992ء میں ابھرا جب بھارت نے اسرائیل کیساتھ اپنے تعلقات کو اَپ گریڈ کرکے باقاعدہ سفارتی سطح پر پہنچا دیا۔ میڈیا میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں یہ دلیل دی جاتی تھی کہ بھارت کے ساتھ اسرائیل کے قریبی تعلقات پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کیلئے خطرہ ہیں۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے تاکہ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ معرضِ وجود میں نہ آسکے‘ لیکن مذہبی جماعتوں کی طرف سے سخت مخالفت اور احتجاج کے بعد یہ بحث بھی آہستہ آہستہ ختم ہو گئی۔ پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات اس کے بعد ایک دفعہ پھر اس وقت پبلک ڈیبیٹ کا حصہ بنے جب پرویز مشرف ستمبر 2005ء میں نیو یارک میں اسرائیلی جنرل اور وزیراعظم ایریل شیرون سے ملے۔ پرویز مشرف ایریل شیرون سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے وزیر خارجہ کو فوری طور پر پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کا جائزہ لینے کی ہدایت کر دی۔ کسی نے ان کو سمجھایا کہ پاکستان کی روایتی پالیسی کی وجہ سے یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان مصالحت نہیں ہو جاتی۔ اس پر پرویز مشرف نے عربوں اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کے مشن کا آغاز کیا‘ مگر جلد ہی انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں اور یہ مشن بھی ترک کر دیا گیا۔
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا مسئلہ گاہے گاہے ابھرتا رہے گا اور مستقبل قریب میں اس کا زیادہ امکان ہے کیونکہ اسرائیل اور عرب ممالک کے باہمی تعلقات میں غیر متوقع تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں‘ مگر ان تبدیلیوں سے اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی متاثر نہیں ہو گی کیونکہ یہ مسئلہ پاکستان کی اندرونی سیاست سے بہت قریب سے جڑا ہوا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved