تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     29-08-2013

وہ کہاں جائیں گے؟

افغانستان کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی کہ ایک دوسرا محاذ کھول دیا گیا ہے۔ جس طرح افغان جنگ ‘ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور اب اس کے اثرات ازبکستان اور ایران کی طرف پھیل سکتے ہیں۔ اسی طرح شام کی خانہ جنگی میں امریکی مداخلت‘ خطے کو شعلوں کی لپیٹ میں لیتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ کھیل وہی پرانا ہے۔ صرف کردار اور علاقے نئے ہیں۔ پہلے یہ سب کچھ عراق میں کیا گیا۔ صدام حسین پر الزام لگایا گیا کہ وہ کیمیاوی اور ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے۔ کیمیاوی ہتھیاروں کی کہانی روزنامہ ’’دنیا‘‘ دوقسطوں میں پیش کر چکا ہے۔ جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران عراق جنگ میں صدام حسین نے جو کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے تھے‘ وہ علاقے کے ایک مسلمان اتحادی نے فراہم کئے تھے اور خفیہ معلومات‘ امریکہ نے اپنے سراغ رساں طیاروں کے ذریعے جمع کر کے صدام حسین کو پہنچائی تھیں۔ جب یہ کیمیاوی حملے کئے گئے‘ تو ایرانی افواج ایک ایسے مقام پر جمع ہو کر فیصلہ کن حملے کی تیاریاں کر رہی تھیں‘ جہاں عراق کا دفاع کمزور تھا اور اگر ایران یہ حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا‘ تو صدام حسین کی شکست یقینی تھی۔ امریکہ بروقت اس کی مدد کو پہنچا۔ اسے ایک خطرناک کیمیاوی گیس فوری طور پر مہیا کر کے‘ ایرانی افواج کے اجتماعات کے ٹھکانے بتا دیئے گئے اور عراق نے گیس کا اندھادھند استعمال کر کے‘ جنگوں کی تاریخ کے بدترین ظلم کا ارتکاب کر دیا‘ جو سوفیصد امریکی امداد کی بنیاد پر ہوا۔ لیکن وہی عراق‘ جسے امریکہ نے ایران کے ساتھ جنگ میں شکست سے بچایا تھا‘ جلد ہی صدام حسین پر جھپٹ پڑا اور قبل اس کے کہ عراق‘ ایران کے ساتھ ہونے والی جنگ کی تباہ کاری کے اثرات سے نکلتا‘ امریکہ نے خود عراق پر حملہ کر کے‘ صدام حسین کی باقی ماندہ جنگی مشینری تباہ و برباد کر دی اور اس کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا الزام لگا کر عراق پر فوج کشی بھی کر دی۔ عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کی من گھڑت کہانی کی حقیقت اب پوری طرح دنیا کے سامنے آ چکی ہے۔ وہاں ایسی کوئی چیز ہی نہیں ملی‘ جس پر ایٹمی لیبارٹری کا شک کیا جا سکے۔ ایک برطانوی سائنسدان نے اس کا انکشاف کر کے‘ دنیا کی آنکھیں کھول دی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ برطانیہ کی ایجنسیوں نے حقیقت سامنے لانے پر‘ اس سائنسدان کو بھی ختم کر دیا۔ جو کچھ شام میں ہو رہا ہے‘ وہ لبیا کا ’’ری پلے‘‘ ہے۔ لبیا پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا الزام لگا‘ تو قذافی نے اپنے ایٹمی ’’اثاثے‘‘ خود ہی امریکہ کے سامنے رکھ دیئے اور جو تھوڑے بہت سمگل شدہ ڈرم اور اوزار اس کے پاس پڑے تھے‘ وہ جہازوں میں بھرکر امریکہ میں پہنچا دیئے گئے۔ لیکن امریکہ نے پھر بھی اپنے منصوبے نہیں بدلے اور لبیا پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے قبضہ کر کے رہا۔ لبیا اور اب شام میں ‘ امریکہ جو افرادی قوت استعمال کر رہا ہے اگر اس کی ساخت کا تجزیہ کیا جائے‘ تو پتہ چلتا ہے کہ جو پراسرار کہانی افغانستان میں شروع ہوئی تھی‘ اس کی سچائی اب زیادہ واضح ہو کر دنیا کے سامنے آ رہی ہے۔ لبیا میں قذافی کے خلاف جنگ جن جنگجوئوں کو استعمال کیا گیا‘ ان کی بڑی تعداد کا تعلق القاعدہ سے تھا اور القاعدہ کے جو تربیت یافتہ جنگجو لبیا میں استعمال کئے گئے‘ ان میں سے بیشتر افغانستان اور پاکستان سے لبیا پہنچائے گئے تھے اور اب شام میں وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ وہاں بھی القاعدہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے تربیت یافتہ جنگجو‘ افغانستان اور پاکستان سے شام گئے ہیں اور عراق میں القاعدہ کا نیٹ ورک شام کی خانہ جنگی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ پہلے لبیا اور اب عراق میں القاعدہ کے کردار کو دیکھتے ہوئے‘ ہمیں کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ پاکستان میں القاعدہ کا رول کیا رہا ہے؟ اور اس وقت کیا ہے؟ امریکہ میں 9/11 کے جو واقعات ہوئے‘ ان میں کوئی افغان ملوث نہیں تھا۔ امریکی الزامات کے مطابق وہ زیادہ تر عرب تھے اور ان کا تعلق القاعدہ سے تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ حقیقت میں اسامہ بن لادن کے کارندے تھے یا کسی ایجنسی کے؟ لیکن انہوں نے دہشت گردی کے جو اقدام کئے‘ ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ امریکہ نے افغانستان میں بیٹھے ہوئے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور فوج کشی کر دی۔ اس سے مغربی ایشیا میں طاقت کا توازن درہم برہم ہو گیا اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہے۔ جن طالبان سے‘ امریکہ افغانستان میں برسرجنگ رہا‘ انہی کے زیراثر کچھ گروہوں نے پاکستان میں دہشت گردی شروع کی۔ جس کی لپیٹ میں آج ہمارا پوراملک آ چکا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان میں جو دہشت گرد گروہ سرگرم عمل ہیں‘ انہی کے تربیت یافتہ جنگجوئوں نے لبیا اور اب شام میں ‘ امریکہ کی جنگ لڑنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ اگر اس سارے تانے بانے کو دیکھا جائے‘ تو ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں ذرا تاخیر نہیں کرنا چاہیے کہ جو دہشت گرد اس وقت ہمارے خلاف سرگرم عمل ہیں ‘ ان کی اکثریت امریکہ کے بنائے ہوئے دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے تعلق رکھتی ہے۔ امریکہ آگے چل کر انہیں پاکستان میں کیسے استعمال کرتا ہے؟ میں اس کے بارے میں خیال آرائی کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ لیکن دہشت گردوں کو استعمال کر کے امریکہ نے جو کچھ لبیا میں حاصل کیا اور اب شام میں حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ میں اپنے ملک میں ہونے والے واقعات کو ان سے علیحدہ کر کے کیسے دیکھوں؟ عراق میں ایٹمی اسلحہ کی تیاری کا الزام لگا کر فوج کشی کی گئی اور پھر وہاں القاعدہ کو منظم کر کے‘ عدم استحکام پھیلایاگیا۔ جس کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ لبیا نے اپنی ایٹمی تیاریوں کی ساری حقیقت کھول کے دنیا کے سامنے رکھ دی۔ اس کے باوجودامریکی منصوبہ آگے بڑھتا رہا۔ اب شام کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ شام کی حکومت اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیکل ہتھیار استعمال کر سکتی ہے۔ کوئی حکومت اپنے باشندوں کے خلاف ایسے بھیانک جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتی۔ جو تصویریں کیمیاوی ہتھیاروں کا ہدف بننے والوں کے نام پر دکھائی گئی ہیں‘ ان میں اکثریت بچوں اور نہتے شہریوں کی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی حکومت اپنے نہتے شہریوں کے خلاف ایسی مجرمانہ حرکت کرے؟ شام کی حکومت نے کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے ہوتے‘ تو وہ مسلح باغیوں کے خلاف کئے جاتے۔ لیکن کیمیاوی ہتھیاروں سے ہلاک ہونے والوں کی جو تصویریں دکھائی گئیں‘ ان میں ایک بھی مسلح شخص نظر نہیں آیا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ امریکہ اور اس کے اتحادی ایک عرب ملک کے ان ایجنٹوں نے کیا جو شام کے اندر برسرجنگ ہیں۔اب امریکہ اسی کو بنیاد بنا کر‘ شام کے خلاف فوجی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ شام پر براہ راست فوجی قبضہ کیا جائے گا یااس کی دفاعی تنصیبات کو فضائی حملوں کے ذریعے تباہ و برباد کیا جائے گا؟ مصر میں منتخب حکومت کا خاتمہ کر کے فوج کو مسلط کیا جا چکا ہے۔ شام کی اسرائیل دشمن حکومت کی بساط لپیٹ دینے کی تیاریاں ہیں۔ اس کے بعد آپ پورے شرق اوسط پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں‘ ایران کے سوا ‘فلسطینیوں کے ساتھ کوئی ہمدردی کرنے والا رہ جائے گا؟ ایران پہلے سے پابندیوں کے گھیرائو میں ہے اور وہ ازخود کوئی جارحیت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ وقت ہو گا ‘ جب فلسطینیوں پر اسرائیلی حل مسلط کر کے‘ انہیں دنیا کے سب سے بڑے قید خانے کا اسیر بنا دیا جائے گا۔ مجھے اس میں شک ہے کہ ہم امریکہ کے پھیلائے ہوئے مکڑی کے سٹریٹجک جال سے نکل پائیں گے۔ ہمیں تو ابھی تک یہ بھی پتہ نہیں کہ جال تیار کرنے والی مکڑی کہاں ہے؟ میں صرف ایک بات یاد دلائوں گا کہ نہ تو لبیا اور عراق کے پاس ایٹمی اسلحہ تھا۔ نہ شام کے پاس کیمیاوی ہتھیار ہیں۔ ہمارے پاس تو سچ مچ ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور جدید جنگ میں فوجوں کا استعمال متروک ہوتا جا رہا ہے۔ لبیا‘ شام‘ عراق اور افغانستان میں لڑنے والے جنگجو کیا کریںگے؟ ان کے لئے اگلا میدان جنگ کہاںپر ہو گا؟ ہم نے تو اس سوال پر سوچنا بھی شروع نہیں کیا کہ جنگوں کے میدانوں میں تربیت حاصل کرنے والے‘ جب وہاں سے نکلیں گے‘ تو کہاں جائیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved